تجارت کے چند اہم اسلامی اصول (قسط اول)

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

        تجارت حصول رزق کے اہم اسباب میں سے ایک ہے اور یہ وہ سبب ہے جس کی اہمیت اور افادیت ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے لیکن دور حاضر میں تو عالمی معیشت میں اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ آج جس قوم نے بھی تجارت کو اپنایا ہوا ہے، اس کی نہ صرف معاشی حالت بہتر ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی وہ ملکی اور عالمی سطح پر غالب ہے۔ ایک وقت تھا جب کہ مسلمان تجارت کے میدان میں ساری قوموں سے آگے تھے جس کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد حاصل تھے بہ شمول ان کے یہ بھی تھا کہ تجارتی اسفار میں دعوت دین ان کے پیش نظر رہتا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے مسلمانوں نے تجارت کو ترک کردیا اور حصول رزق کے دوسرے ذرائع اختیار کرلئے جو منجملہ اور اسباب کے قوم کے زوال کا ایک سبب بنا بلکہ بقول اکبر الٰہ آبادیؔـ:

 زوال قوم کی تو ابتدا وہ تھی کہ جب

      تجارت آپ نے کی ترک، نوکری کرلی

        قوم کی کسبی روش میں یہ تبدیلی شاید اس وجہ سے واقع ہویٔ کہ اس کی نگاہوں کے سامنے رسول پاک ﷺ کا یہ فرمان نہ رہا:

’’عَلَیْکُمْ بِالتِّجَارَۃِ  فَاِنَّ فِیْھَا تِسْعَۃَ أَعْشَارِ الرِّزْقِ‘‘

’’ تم پر تجارت کو اختیار کرنا لازم ہے کیوں کہ رزق کے دس میں سے نو حصے فقط اس میں ہیں ‘‘۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ، دار ابن حزم للطباعۃ والنشر و التّوزیع، بیروت، ۲۰۰۵ ؁ء، صفحہ ۵۰۴)۔

آج کی دنیا میں رسول اکرم ﷺ کے اس قول کی تعبیر ہر کسی کے آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہی نہیں، تجارت کی اہمیت اور فضیلت میں نبی کریم ﷺ سے او ر بھی اقوال منقول ہیں۔ مثلاًجب آپؐ سے یہ دریافت کیا گیا کہ کون سی کمایٔ سب سے زیادہ پاکیزہ ہے (أَیُّ الْکَسْبِ أَطْیَبُ)؟ تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہِ وَ کُلُّ بَیْعٍ مَبْرُوْرٍ‘‘ یعنی ’’آدمی کااپنے ہاتھ سے کویٔ کام کرنااور ہر وہ تجارت جو پاکبازی کے ساتھ ہو‘‘ یعنی شریعت اسلامیہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر کی جائے۔ (مسند احمد، دارلکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۸ ؁ء، رقم ۱۷۷۲۸، بروایت رافع بن خدیجؓ)۔

        آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے کویٔ شخص اگر رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا لائے پھر اسے فروخت کرے (اور اس سے اپنا گزر بسر کرے) اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی آبرو محفوظ رکھے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے اور اسے کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ (صحیح بخاری، کتاب المساقاۃ، بابُ بَیْعِ الْحَطَبِ وَالْکَلَاِ، رقم  ۲۳۷۳، بروایت زبیربن عوامؓ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب البیوع، بابُ مَاجَائَ فِی التُّجَّارِ وَ تَسْمِیَۃِ النَّبِیِّ ﷺ إِیَّاھُمْ، رقم ۱۲۰۹، بروایت ابو سعید خدریؓ)۔

        ان روایات سے تجارت کی فضیلت، روزی کے اسباب میں اس کی اہمیت، اس کے ذریعہ حاصل شدہ مال کی پاکیزگی اور تاجروں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام بالکل واضح ہے لیکن باوجود ان سب کے دیگر شعبوں کی طرح معیشت کے شعبے میں بھی امت مسلمہ نے رسول اکرم ﷺ کی رہنمایٔ کو قبول کرنے میں عملاً کوتاہی برتی۔ لیکن ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ حال میں مسلمان ایک بار پھرتجارت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں، گو کہ اس کے پیچھے کچھ دوسرے عوامل کارفرما ہیں، پھربھی یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس میں افسوس کا پہلو صرف یہ ہے کہ مسلمان دوسری قوموں کی طرح شرعی اور اخلاقی ضابطوں سے بے نیاز ہو کر تجارت کررہے ہیں حالانکہ اگر و ہ نبی کریم ﷺ کی سنتوں کو اپنی تجارت میں داخل کرلیں تو ان کی تجارت اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ذریعہ بن جائے گی، اس دنیا میں بھی اس کی برکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آخرت میں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے انعامات سے مالامال ہوں گے۔ اسی مقصد کے پیش نظر راقم نے آئندہ سطور میں تجارت کے اہم اسلامی اصول کو منظرعام پر لانے کی کوشش کی ہے کہ شاید یہ حقیر سی کوشش تجارت کے شعبے میں رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کو زندہ کرنے میں کچھ کام آجائے۔ چونکہ تجارت کا علم بہت ہی دقیق ہے اور کتب حدیث وفقہ میں اس کی بہت سی جزئیات ملتی ہیں اور سب کا احاطہ ایک مضمون میں ناممکن ہے، اس لئے راقم نے صرف تجارت کے عام اصولوں پر اکتفا کیا ہے۔

۱۔ تجارت کے علوم کا حاصل کرنا:

سب سے اول اور بنیادی بات یہ ہے کہ تجارت میں مشغول ہونے سے پہلے اس سے متعلق علوم کو سیکھنا چاہیے۔ رسول پاک ؐ کے فرمان ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ یعنی ’’علم (دین) طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمۃ، باب فضل العلمآء والحثّ علٰی طلب العلم، رقم ۲۲۴، بروایت انس بن مالکؓ) کی تشریح میں فقہاء نے لکھا ہے کہ آدمی کسب معاش کے لئے جو کوئی پیشہ اختیار کرے اس کا علم حاصل کرنابھی اس پر فرض ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے تجارت کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیاتو اس پر یہ فرض ہے کہ وہ بیع کے مسائل اور اس کی شرطیں معلوم کرے۔

         امام غزالیؒ لکھتے ہیں : ’’واگر بمثل پیشہ دارد، علم آن پیشہ بروی واجب شود تا اگر بازرگان بود علم ربوا بروی واجب شود، بلکہ واجب شود کہ جملہ شروط بیع بداند تا از بیع باطل حذر تواند کرد‘‘۔ (مفہوم): ’’اسی طرح اگرآدمی کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو اس پیشہ کا علم بھی اس پر واجب (یعنی فرض) ہوجاتا ہے جیسے کہ اگر تاجر ہے تو سود کے مسائل کا علم اس پر واجب ہوجاتا ہے بلکہ اس پر یہ بھی واجب ہوجاتا ہے کہ بیع کی جملہ شرائط سے واقف ہو تاکہ بیع باطل سے بچ سکے‘‘۔ (کیمیای سعادت، کتابخانہ و چاپخانہ مرکزی، تہران، اشاعت دوم، ۱۳۳۳ ؁ھ، صفحہ ۱۱۵)۔ ایک جگہ امام غزالیؒ یہاں تک لکھتے ہیں کہ بیع کے مسائل جاننا سب پر فرض ہے کیوں کہ ہر ایک کو اس سے واسطہ پڑسکتا ہے، کوئی شخص اس سے بری نہیں ہوسکتا: ’’و علم بیع حاصل کردن فریضہ است کہ ہیچکس را ازین چارہ نباشد‘‘۔ (کیمیای سعادت، صفحہ ۲۵۹)۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ رقم کیا ہے کہ جب وہ بازار جاتے تو تاجروں سے بیع کے مسائل پوچھتے اور جو نہیں بتاتا اسے کوڑے لگا کر علم سیکھنے کے لئے بھیجتے اور فرماتے کہ جو بیع کے احکام نہ جانے اسے بازار میں نہیں ہونا چاہیے یعنی تجارت نہیں کرنا چاہیے کہ لاعلمی میں حرام اور سود میں مبتلا ہوجائے گا اور اسے خبر بھی نہ ہوگی۔ (حوالہ سابق، صفحہ ۱۱۵)۔

        امام ترمذیؒ نے بھی اپنی سنن میں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’لَا یَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّہَ فِي الدِّیْنِ‘‘ یعنی ’’ہمارے بازارمیں خریدو فروخت نہ کرے مگر وہ شخص جس نے دین میں خوب سمجھ بوجھ حاصل کرلی ہو‘‘۔ (سنن ترمذی، کِتَابُ الْوِتْرِ، بابُ مَاجَآئَ  فِي فَضْلِ الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ، رقم ۴۸۷)۔

        یہاں دین کی سمجھ سے ان کی مراد معاملات اور بیع و شراء (یعنی خرید و فروخت) کے مسائل سے آگاہ ہونا ہے۔ گویا حضرت عمرؓ کی رائے میں صرف ایسے شخص کے لئے تجارت کرنا درست اور جائز ہے جو معاملات اور بیع و شراء کے مسائل سے پوری طرح واقف ہو کیوں کہ جو شخص ان سے واقف نہیں ہوگا وہ کاروبار میں بے اصولیاں کرے گا جو معاشرے میں معاشی بگاڑ کا سبب بنیں گی۔ اس لئے ہر مسلمان تاجر بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بیع و شراء کے مسائل کو جانے کیوں کہ اپنے بشری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری اشیاء کی خرید و فروخت کے معاملات میں ملوث ہونا کسی کے لئے بھی ناگزیر ہے۔

۲۔ نیت کی درستی:

تجارت میں نیت کی درستی بھی بہت ضروری ہے۔ اول یہ کہ ا پنی تمام تر محنت، مشقت اور جدوجہد کے باوجودصرف اللہ تعالیٰ کی ذات پرتوکل و اعتماد رکھے کہ رزاق مطلق اسی کی ذات ہے اور کسب وتجارت صرف ایک ظاہری وسیلہ کے درجہ کی چیز ہے اور اس کے پردے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کارفرما ہے۔ لہٰذا اپنے پیشہ و کسب کو رزاق ہرگز نہ سمجھے کیوں کہ یہ شرک خفی ہے۔ (مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف اردو، مطبوعہ ادارہ اسلامیات، دیوبند، ۱۹۸۶ ؁ء، جلد۳، صفحہ ۴۲۸)۔ دوئم یہ نیت کرے کہ تجارت اس لئے کرتا ہوں تاکہ خود کی اوراہل وعیال کی معاشی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوجائے، لوگوں کی محتاجی نہ رہے اور اس قدر فراغت میسر آجائے کہ دلجمعی کے ساتھ اللہ عزوجل کی عبادت کرسکوں۔ علماء نے اس قدر کمانے کو فرض لکھا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے: ’’طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ‘‘ یعنی حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے۔ (الجَامِعُ لِشُعَبِ الأِیْمَانِ لِلبَیْہَقِيؒ، مکتبۃ الرّشد، الریاض، ۲۰۰۳ ؁ء، رقم ۸۳۶۷، بروایت عبداللہ بن مسعودؓ)۔ آپؐ سے اس کی بڑی فضیلت بھی منقول ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا حَلَالًا اسْتِعْفَافًا عَنِ الْمَسْأَلَۃِ، وَ سَعْیًا عَلٰی عَیَالِہِ، وَ تَعَطُّفًا عَلٰی جَارِہِ، لَقِيَ اللّٰہَ وَ وَجْھُہُ کَالْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ، وَ مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا حَلَالًا مُکَاثِرًا مُرَائِیًا لَقِيَ اللّٰہَ وَ ھُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ‘‘ جس کا مفہوم یہ ہیکہ جو شخص خود کو سوال سے بچانے، اپنے اہل و عیال (کی کفالت) کے لئے سعی کرنے اور اپنے پڑوسی پر شفقت و مہربانی کرنے کے لئے دنیا کو حلال اور جائز طریقے پر طلب کرتا ہے وہ (بروز قیامت ) اللہ جل شانہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا اور جو شخص کثرت مال اور ریاکاری (تفاخر) کی نیت سے حلال دنیا طلب کرتا ہے تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ (المُصَنَّفُ لِابْنِ أَبِي شَیْبَۃَ، کِتَابُ الْبُیُوْعِ وَالأَقْضِیَۃِ، باب فِي التِّجَارَۃِ وَالرَّغْبَۃِ فِیْھَا، بروایت ابوہریرہؓ)۔

        علامہ غزالیؒ نے فضیلت کسب کے تعلق سے اپنی مایہ ناز تصنیف احیاء علوم الدین میں یہ روایت نقل کیا ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ان لوگوں کی نگاہ ایک طاقتور اور مضبوط جسم والے نوجوان پر پڑی جو صبح سویرے ہی طلب معاش کے لئے بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف تھا تو بعض صحابہ کرامؓ نے کہا کہ افسوس ہے اس پر، کاش اس کی جوانی اور طاقت اللہ کی راہ میں صرف ہوتی۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کہو! کیوں کہ اگر وہ محنت و کوشش اس لئے کررہا ہے کہ خود کو سوال کرنے سے بچائے اور لوگوں سے بے نیاز ہوجائے تو وہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ اس لئے محنت کررہا ہے تاکہ اپنے ضعیف والدین یا کمزور و ناتواں اولاد کو لوگوں سے بے نیاز کردے اور ان کی کفایت کرے تو بھی وہ اللہ کی راہ میں ہے اور (ہاں) اگر وہ دوسروں پرمفاخرت اور کثرت مال کی غرض سے بھاگ دوڑ کررہا ہے تو (یقینا) وہ شیطان کی راہ میں ہے۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ، صفحہ ۵۰۳)۔

        اسی مضمون کی روایت حافظ سلیمان بن احمد الطبرانیؒ نے معاجم ثلاثہ میں کعب بن عجرہؓ سے، امام بیہقیؒ نے سنن الکبریٰ میں انس بن مالکؓ سے اور امام ابن ابی الدنیاؓ نے کتاب العیال میں ابی المخارقؓ سے نقل کیا ہے۔ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صرف امام طبرانیؒ کی روایت نقل کی جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک صاحب کا نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزر ہوا تو (موجود) صحابہ کرامؓ ان کے جسم کی ساخت اور چستی کو دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ! کاش کہ یہ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں ہوتا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے رزق کی تگ و دو میں نکلا ہے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کی کوشش میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ اپنی ذات کو سوال و محتاجی سے بچانے کی سعی میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور اگر اپنے گھر والوں ( کی کفایت) کے لئے محنت کی خاطر نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے اور (ہاں ) اگر تفاخر اور بسیار طلبی کی کوشش میں نکلا ہے تو طاغوت کی راہ میں ہے‘‘۔ (المعجم الصغیر للطبرانیؒ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۸۳ ؁ء، الجزء الثّانی، ص۶۰)۔

        مذکورہ احادیث سے جہاں کسب معیشت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے وہیں یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اپنے اور اہل و عیال کی ضرورت سے زیادہ اس نیت سے کمانا تاکہ عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور فقراء و مساکین کی خبرگیری کروں گا نیز زائد مال اللہ تعالیٰ کے دین کو زندہ کرنے میں لگائوں گا، مستحب اور مندوب ہے البتہ صرف مال و دولت جمع کرکے فخر تکبر کے اظہار کے لئے زیادہ کمانا حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، صفحہ ۴۲۶)۔

        سوئم یہ کہ اپنی تجارت سے حصول منفعت کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً، خدمت اور حاجت روایٔ کی نیت رکھے تو اس کی تجارت عبادت کی ایک صورت بن جائے گی کیونکہ کسی بھی جگہ ضروریات زندگی کی تکمیل سے جڑی اشیاء کی فراہمی کے واسطے تجارت ایک ناگزیر عمل ہے اور اگر یہ نہ ہو تو نظام زندگی کے معطل ہوجانے بلکہ درہم برہم ہوجانے اور بنی نوع انساں کے مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوجانے کا شدید خدشہ ہے۔ مثلاًاگر کسی جگہ دوا کی دکان نہ ہوتو لوگ کسی کے بیمار ہوجانے پر دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا ہوں گے، اگر کسی جگہ کپڑے کی تجارت نہ ہو تو لوگ کسی میت کے کفن یا دیگر انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے پریشان ہوں گے، اسی طرح شہروں میں اگرغلہ اور دیگر اشیائے خوردنی کی تجارت نہ ہو تولوگوں کے لئے روپیہ پیسہ رہتے ہوئے بھوکوں مرنے کی نوبت آسکتی ہے۔ انہیں مثالوں پر دیگر کاروبار اور پیشوں کو قیاس کیا جاسکتاہے۔ اسی لئے علماء نے ہر جائز پیشہ کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور ان میں لگنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ امام غزالیؒ کے مطابق بعض محدثین نے حدیث رسولؐ ’’اِخْتِلَافُ اُمَّتِي رَحْمَۃٌ‘‘ یعنی ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے کہ مختلف صنعتوں اور پیشوں کے معاملے میں ان کی پسندوں کا مختلف ہونا رحمت ہے کیوں کہ اگر سب لوگ ایک ہی پیشہ کی طرف متوجہ ہوجائیں یا ایک ہی طرح کی تجارت اختیار کرلیں تو باقی پیشے اور باقی تجارتیں سب معطل ہوکر رہ جائیں گی اور انسانیت پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ، صفحہ ۵۲۸ – ۵۲۹)۔

         اس لئے اپنی صنعت و تجارت میں ان فرائض کفایہ میں سے ایک کو قائم کرنے، انسانیت کو مصیبت و پریشانی سے بچانے اور راحت و آرام پہنچانے کی نیت کرنی چاہیے۔

        چہارم نیت یہ کرے کہ تجارت اس لئے کررہا ہوں تاکہ اس شعبے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام اوررسول اکرم ﷺ کی سنتوں کو عملاً زندہ کروں۔ پنجم نیت یہ بھی کرے کہ بازار میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوں گا اور ایسے کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے بھی نہ دے۔ ان نیتوں کے ساتھ بازار میں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوگی اور اس کی تجارت بھی عبادت کی ایک صورت بن جائے گی بس شرط یہ ہے کہ نیتوں میں اخلاص ہو اور تمام کاروباری سرگرمیوں پر اس کے اثرات بھی ہوں۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔