حیدر قریشی
نہ جانے کیوں تمناؤں کی طغیانی میں رکھا ہے
ابھی تک دل نے خود کو عہدِ نادانی میں رکھا ہے
…
یہ کیسا آئنہ رُو اب کے میرے روبرو آیا
مجھے جس نے مسلسل ایک حیرانی میں رکھا ہے
…
کوئی خواہش ہو،اب کہتے ہی فوراً مان لیتا ہے
ستم گر نے مجھے اب بھی پریشانی میں رکھا ہے
…
عنایت میں بھی اک طرزِ ستم محسوس ہوتا ہے
نہ لاؤں تاب جس کی ایسی تابانی میں رکھا ہے
…
دکھائی شانِ فقراپنی تمہاری بادشاہی میں
فقیری عجز اپنے عہدِ سلطانی میں رکھا ہے
…
ہے میری روح میرے جسم کے ہر ذرّہ میں پنہاں
تو اپنے جسم کو اک شہرِ روحانی میں رکھا ہے
…
دیارِ حُسن میں خیرات کی خواہش نہیں رہتی
بخیلوں نے بخیلی کو فراوانی میں رکھا ہے
…
بہت سی بے نیازی اور اک یادوں بھری گٹھڑی
بڑا سامان اپنی خستہ سامانی میں رکھا ہے
…
یہاں سے رونقیں دکھ درد کی جاتی نہیں حیدر
دکھوں کا ایسا میلہ اپنی ویرانی میں رکھا ہے
تبصرے بند ہیں۔