مٹھی بھر آسمان میں ایک کھڑکی

عذرا نقوی

زہرہ!زہرہ ! دونوں   وقت مل رہے ہیں   نیچے آؤ!  کیسی باتیں   ہیں   تم لوگوں   کی جو ختم ہی نہیں   ہوتیں ، دن میں   کالج میں  دونوں   ساتھ رہتی ہو مگر پھر بھی نجمہ کے ساتھ گھنٹوں   چھت پر ٹہل ٹہل کر باتیں   کرنا ضروری ہے  ‘‘  دادی کی آواز آئی۔

دادی کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ لیکن نہ وہ مظفر نگر والا گھر تھا۔ ۔۔۔۔ نہ دادی۔۔۔، نہ اپنی دوست نجمہ کے ساتھ چھت پر ٹہلنا۔  توبہ ہے !  ذرا سی دیر کے لئے بھی آنکھ لگ جائے تو نہ جانے کہاں  کہاں   کے بھولے بسرے منظر خواب بن کریوں   چلے آتے ہیں   جیسے کل کی بات ہو۔ ۔۔۔ میں    نے آنکھیں   ملتے ہوئے چاروں   طرف دیکھا، لگتا ہے کہ مغر ب کی نماز کے بعد یونہی ذرا لیٹ گئی تھی تو شاید آنکھ لگ گئی ہو گی۔ میں   نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ میرے اس کمرے کی کھڑکی سے بس مٹھی بھر آسمان نظر آتا ہے، باہر نظر ڈالی تو اُداس سی شام رخصت ہورہی تھی، لمبی رات اپنی آمدسے مجھے ڈرا رہی تھی، بے خوابی کا عجب مرض پیچھے لگ گیاہے۔ ایک اونچی سی بلڈنگ کی چھٹی منزل ی پر یہ فلیٹ  ہے جس کی پشت پر یہ چھوٹا ساکمرہ  مجھے ملا ہے، جس کی کھڑکی سے بالکل قریب ہی ایک اونچی بلڈنگ کھڑی  میرا منہ چڑاتی ہے جس کے فلیٹوں  کی بالکنیوں   کو بھی لوگوں  نے لوہے کے جنگلے لگا کر بند کردیا ہے، بس اس کھڑکی اور ساتھ والی بلڈنگ کے درمیان ایک مٹھی بھر آسمان میرا ساتھی ہے۔

یادوں   نے پھر سے مجھے گھیر لیا۔۔۔۔۔بچپن سے جوانی تک دادی اماّں  اور میں   ایک کمرے میں  ر ہتے تھے ۔ ایک پورا کمرہ طاہر بھائی کے قبضے  میں   ہے۔ میراد ل چاہتا تھا کہ رات دیر تک لیٹ کر ناول پڑ وھوں  لیکن دادی کی نیند خراب ہونے کے ڈرسے نہیں   پڑھ سکتی تھی، اپنے چھوٹے سے ٹرانسسٹر پر گانے سننے کا تو سوال ہی نہیں  تھا، اور پھر رات بھر انکے خرانٹے۔ صبح وہ فجر کی نماز سے بہت پہلے جاگ جاتی تھیں  اور  نہ جانے کیا سٹر پٹر کرتی رہتی تھیں۔ امتحانوں   کے زمانے میں   جب مجھے دیر تک پڑھنا ہوتا تھا تب کمرے کے دروازے کے سامنے ہی برآمدے میں   تخت پر بیٹھ کر پڑھتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ بڑے کمرے میں   صوفے پر آرام سے لیٹ کر پڑھوں   مگر امیّ کہتی تھیں   کی دادی کمرے میں   اکیلی ہوں   گی، رات کو باتھ روم جا نے کے لئے ا ٹھیں   گی تو تم ساتھ چلی جانا ورنہ کہیں   گرپڑ گئیں   اور کوئی ہڈی وڈی توڑ بیٹھیں   تو اور مصیبت آجائے گی۔ جب  ہماری کوئی پھوپھی دادی سے ملنے آتی تھیں  تو ان کا ڈیرہ بھی میرے ہی کمرے میں   ہوتا تھا۔ میں  بدھ کی شام ریڈیو سیلون سے اپنا پسندیدہ پروگرام ’ بناکا گیت مالاـ‘ سننے کے لئے ٹرانسسٹر لے کر چھت پرجاکر سنتی تھی، مگر تب بھی دادی مستقل پکارتی رہتی تھیں۔

کتنا دل چاہتا  تھا  ہ ایک  میرا  اپنا کمرہ  ہو۔ ۔۔۔صرف  میرا۔ ۔۔۔۔ بلا شرکت ِغیرے۔ اس کی تنہائی، اس کی خاموشی بس میرے لئے ہو،جب تک چاہوں   جاگوں،  لیٹ کر اپنی پسند کی کتابیں   پڑھوں اپنے پسندکے گانے سنوں۔ ۔۔۔افوہ !  نہ جانے یہ اتنی پرانی یادیں   کیسے یوں   چلی آتی ہیں  جیسے کل کی بات ہو۔شادی کے بعد، بچوں   کی پیدائش اورپرورش کے زمانے میں   بھی اکثر یہ خواہش جاگ اٹھتی تھی۔ ۔۔۔میں   ہوں   اور میرا کمرہ ہو۔۔۔۔کسی کی دخل اندازی نہ ہو۔

 میری بہو کی آواز نے مجھے  یادوں   سے حقیقت کی دنیا میں   لا پہنچایا۔ وہ میری پوتی سارہ کو  ڈانٹ رہی تھی  ’’ کیا ہر وقت کمپیوٹر پر  چیٹنگ کرتی رہتی ہو۔باہر نکلو ، لو یہ کھانے کی ٹرے دادی کے کمرے میں   لے جاؤ،ان کے کھانے کا وقت ہوگیاہے، پھر ان کو دوا بھی کھانی  ہوتی ہے۔‘‘

 میں  سوچتی رہی  جیسے یاد اور خواب پل بھر میں   کہیں   سے کہیں   پہنچا دیتے ہیں   اس سرعت سے  زندگی بھی گذر گئی۔ شادی، بچوں   کی پرورش، بیٹیاں   اپنے اپنے گھر کی ہو گیئں  بلکہ کہنا چاہئے پردیس کی ہوگئیں ۔ ایک کناڈا میں   دوسری سعودی عرب میں ۔ وہ تو کہو کہ شوکت میاں   کی بہت اچھی ملازمت ہے ہندوستان میں   اس لئے بڑھاپے میں   اس کا ساتھ ہے۔ اپنا  چھوٹا سا گھرہمارے میاں   نے بنایا تھا بریلی میں   جہاں   وہ کالج میں   پڑھاتے تھے۔ دل تو چاہتا تھا کہ ان کے بعد ان کی یادوں   کیساتھ وہیں   رہوں   مگر بیچارہ شوکت میرے لئے پریشان رہتا تھا، اس کی ملازمت دہلی میں   تھی، اس لئے وہ بریلی والا گھر بیچ کر مجھے اپنے ساتھ دہلی لے آیا۔ اللہ اسے خوش رکھے میرا ہر طرح خیال رکھتا ہے، اور بہو بھی برُی نہیں   ہے۔ میرے آرام اور کھانے پینے اور دوا علاج کا سب بہت خیال رکھتے ہیں۔

ہاں  ! اس گھر میرا ایک کمرہ ہے۔۔۔ گھر ؟ اسے گھر نہیں   کہا جاسکتا، گھر تو دالان اور صحن والا ہوتا ہے ، یہ تو فلیٹ ہے،جی ہاں   اس فلیٹ میں   میرا ایک کمرہ  ہے، بلا شرکتِ غیرے۔وہی کمرہ جس کی کھڑکی سے بس مٹھی بھر آسما ن نظر آتا ہے۔ برابروالا  بڑا کمرہ میری پوتی سارہ کا ہے، ایک  چھوٹا سا کمرہ پوتے  شارق کا ہے اور بڑا کمرہ بیٹے بہوکا۔ ہمارے فلیٹ کی بالکنی بھی دوسرے فلیٹوں   کی طرح لوہے کی جالی لگا دی گئی ہے، چوری چکاری کے ڈر سے،حالانکہ ہم چھٹی منزل پر رہتے ہیں۔

        مجھے یہاں   آئے ہوئے تقریبا َ ایک سال ہوگیاہے۔ سب اپنے اپنے کاموں   میں   مصروف ہیں   رہتے ہیں  ۔ اپنے کمرے میں   لیٹی کافی دیر پڑھتی رہتی  ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی دیر پڑھوں ۔ ۔۔۔ آنکھیں   بھی اب جواب دے رہی ہیں۔  یہاں   اردو کے رسالے اور کتابیں   بھی مشکل سے ملتی ہیں   اور انگلش پڑھنے میں   اتنی روانی نہیں   ہے۔ دن میں  جب بچے اسکول کالج میں  ہوتے ہیں  ، کچھ دیر باہر نکل کر بیٹھ جاتی ہوں ۔ بہو سے کہتی ہوں   کہ لاؤ سبزی کاٹ دوں   مگر  وہ کہتی ہے امّی رہنے دیں   خواہ مخواہ یہاں  کوڑا  ہوگا۔ بہو کو گھر سجانے اور صاف رکھنے کا جنون ہے، میوزیم جیسا گھر ہے۔لاؤنج میں  کوئی کشن ادھر سے ادھر ہوگیا تو آفت آ جاتی ہے۔ ایک دیوان جو  لاونج میں   پڑا ہے اس پر بہو لیٹ کر دوپہر میں   اپنے ٹی وی ڈرامے دیکھتی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں   زیادہ دیر لاونج میں   لیٹ یا  بیٹھ جاتی ہوں   تو بہو کچھ الجھ سی جاتی ہے حالانکہ زبان سے تو کچھ نہیں   کہتی۔ شام  چار بجے سے  پوتے  شارق کے کارٹون شروع ہوجاتے ہیں   اور لاونج پر ان کا قبضہ ہوجاتا ہے میں   اس کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھی کارٹون دیکھ لیتی ہوں  ۔ اب تو ٹام اور جیری سے بھی  میری اچھی جان پہچان ہوگئی ہے۔ رات کو شوکت  اپنے پروگرام دیکھتے ہیں ،  اور اب تو عجیب عجیب قسم کے پروگرام اور اشتہار ٹی وی پر آتے ہیں  ۔ بیٹے بہو کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے میں   شرم آتی ہے اور جب کبھی اکیلی ہوتی ہوں   تو ان کمبخت کئی قسم کے ٹی وی کے ریموٹوں   کا کون سا بٹن دبائوں   سمجھ میں   نہیں   آتا۔ بہو کو بار بار پکارنا اچھا نہیں   لگتا۔

  مجھے یا د ہے کہ میری ساس برآمدے میں   پلنگ ڈال کر بیٹھتی تھیں   جہاں  سے آنگن کے دروازے پراور باورچی خانے پر نظر رہ سکے۔ گھر میں   کون آیا کون گیا ہر بات کی فکر رہتی تھی۔دروازے کی گھنٹی بجی  تو پوچھنا ضروری تھا کہ کون آیاہے۔ کبھی کبھی میں   اور بچے بھی الجھ جاتے تھے۔یہاں   شوکت کے ہاں   دن میں   ایک عورت جھاڑو پونچھا کرنے آتی ہے اور ایک بر تن دھونے، دونوں   جلدی جلدی اپنا کام ختم کرکے چلتی جاتی ہیں، بلڈنگ کے اور گھروں   میں   بھی کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ کوئی مٖظفر نگر یا بریلی نہیں   جہاں   جمعدارن اور گھر میں   کام کرنے والی بوائیں   پان کھانے کے بہانے دیر تک بیٹھی باتیں   بناتی رہتی تھیں ۔ یہ تو نیا فیشن ایبل علاقہ ہے نوئیڈا۔ یہاں   یوں   کوئی کسی کے گھر منہ اُ ٹھائے نہیں   چلا آتا۔ شہر میں   جرم بھی بڑھ گئے ہیں ، ہر وقت لوگوں   کے دروازے مقفل رہتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ روز باہر نکل کر ٹہل آؤں،

  مگر لفٹ میں   اکیلے آتے جاتے ڈر لگتا ہے، چھ منزل سیڑھیاں   چڑھنا تو اب میرے بس  میں   نہیں۔

 میں   عشأ کی نماز پڑھی رہی تھی سار ہ کھانے کی ٹرے کمرے میں   رکھ کر چلی گئی۔ باہر لاونج میں   شوکت ٹی وی پرکوئی سیاسی تبصرہ سن رہے تھے، بہو کچن میں   تھیں۔ ڈائننگ ٹیبل پر، پوتا اپنے اسکول کا کوئی پراجکٹ بنا رہا تھا۔ سامان بکھرا ہوا تھا ورنہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ با ہر بیٹھ کر کھانا کھائوں ۔ لیکن کمرے میں   بیٹھ کر ہی کھالیا۔کھا نا کھانے کو جی تو نہیں   چاہ رہا تھا مگر دوا کھانی تھی اس لئے کچھ تو کھانا ہی پڑا۔ سوچا ٹرے اٹھا کر کچن میں   رکھ دوں ، کمرے سے نکلی تو پائیدان میں   پائوں   الجھ گیا اور ٹرے گر گئی۔ شکر ہے کہ میں   نہیں   گری ورنہ کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی تو اور لینے کے دینے پڑ  جاتے۔ ہنگامہ سا ہوگیا، شوکت گھبراکر اٹھا  ’’ اماں  ، کیوں   آپ کام کرتی ہیں ، کوئی ٹر ے لے جاتا۔‘‘، بہو دوڑی آئی، سارہ کو سخت ڈانٹ پڑی۔ میں   چور سی بن کر کمرے میں   چلی گئی۔

 مجھے رات کو نیند ویسے بھی کم آتی ہے، آج تو نیند کی گولی کھانے کے بعد بھی غائب تھی۔ بس وحشت سی ہوئی تو باہر لاونج میں   نکل آئی، سب سونے چلے گئے تھے۔ صرف سارہ کے کمرے میں   لائٹ جل رہی تھی۔ سوچا بے چاری بچی کو میری وجہ سے ڈانٹ پڑ گئی، جاکر اس سے بات کروں ، ڈرتے ڈرتے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر گئی۔ حسب معمول وہ اپنے کمپیوٹرکے سامنے بیٹھی تھی۔

 ’’کیا بات ہے دادی ! کچھ چاہئے ‘‘ وہ بہت ملائمت سے بولی۔ میں   سو چ رہی تھی کہ اس کا منہ پھولا ہوا ہوگایا وہ سمجھے گی کہ میں   اس کی ٹوہ لے رہی ہوں  ، کہیں   چڑ ِنہ جائے۔ اس کے لہجے نے میری ہمت بڑھائی،  میں   اس کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ کمرے کا جائزہ لیاصاف ستھرا، سجا بنا کمرہ، کبھی میں  نے غور سے دیکھا ہی نہیں   تھا۔

’’ سارہ بیٹی !سوری تمھیں   میری وجہ سے ڈانٹ پڑ گئی۔ ‘‘ میں   نے کہا۔

سارہ بولی  ’’  دادی ! آپ سوری کیوں   کہہ رہی ہیں ، میری غلطی تھی ‘‘

  میں   مزید حیران ہوئی یہ سارہ ہے جس کی کھڑم کھڑم قسم کا انگریزی بولنے کا لہجہ مجھے بہت گستاخ لگتا تھا۔ میری ہمت بندھی، میں   نے پوچھا

 ــ’’ کیا کرتی رہتی ہوکمپیوٹر پر ہر وقت‘‘  میں   نے پوچھا۔

 ا س نے بہت تمیز سے جواب دیا  ’’ اس وقت تو میں   فیس بک پر ہوں ۔ کناڈا والی سیمیں   پھوپی کی بیٹی امبرین کا میسج پڑھ رہی ہوں ۔ روزاس

سے بات ہوتی ہے‘‘ ۔ روز؟  میری بیٹی تو مجھ سے مہینے میں   بس ایک آدھ بار فون پر بات کرلیتی ہے، میں   نے سوچا۔

        سارہ اپنی کرسی چھوڑ کرکھڑی ہوگئی،مجھے اس پر بٹھا دیا’’ آئیے دیکھیئے، اتنے سارے فوٹو ہیں ۔  امبرین کی  برتھ ڈے تھی۔ گھر پر بڑی سی پارٹی تھی، رکئے  میں   دبئی والی پھوپی نسرین کے بیٹے کی تصویریں   بھی دکھاتی ہوں  ۔ ‘‘

’’  بیٹی میرا پڑھنے کا چشمہ نہیں   ہے‘‘  میں   نے کہا۔

’’ ویٹ اے منٹ  ! دادی کہاں   ہوگا آپ کا چشمہ، سائیڈٹیبل پر نا، دواؤ ں   کے ڈبے کے پاس نا۔ ‘‘

وہ دوڑ کر میرا چشمہ لے بھی آئی۔ وہ ایک ایک کرکے تصاویر دکھا رہی تھی، سب کے نام بتاتی جارہی تھی، یہ دیکھئے آپ کی پاکستان والی کزن کے بیٹی اور بہو، وہ بھی ٹورانٹو میں   رہتے ہیں ، یہ ان کے فیملی فرینڈ ہیں ۔ ‘‘

وقت کا پتہ ہی نہیں   چلا، میں   کسی اور ہی دنیا میں   گھوم رہی تھی، سارے بچھڑے لوگ یوں   روبرو تھے۔

’’ اوہ ! آپ کا تواب سونے کا وقت ہوگیا‘‘ سارہ نے گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا۔

 اسے کیا معلوم تھا کہ اپنے کمرے میں  جانے کا مطلب یہ نہیں   کہ میں   سو جاتی ہوں ۔ میں   کمرے سے نکلنے لگی تو اچانک مڑ کر میں   نے سارہ کی پیشانی پر پیار کیاجو اس سے پہلے کبھی نہیں   کیا تھا۔  پوتے شارق کو تواکثر پیار سے لپٹا لیتی تھی لیکن نہ جانے کیوں    سارہ سے کچھ جھجک سی تھی۔سارہ نے میرے گلے میں   باہیں   ڈال دیں ۔ ارے ! یہ سارہ تھی، جس کو میں   اکھڑ اور اکیل کھری سمجھتی تھی۔ ایک عجیب سی خوشی کی لہر میرے جسم میں   دوڑ گئی، میں   نے اسکو لپٹا لیا۔ اس طرح والہانہ انداز میں   شاید میں   نے کبھی  شاروق کو بھی گلے نہیں   لگایا تھا۔

٭٭٭

اب ہفتے میں   کم از کم ایک بار سارہ کے ساتھ میں   فیس بکُ میں   اپنے رشتہ داروں   اور ان کے بچوں  کی تصویریں   اور پیغام دیکھتی ہوں  ، وہ میرے لئے کہاں   کہاں   سے ڈھونڈ کر رشتہ داروں   کا پتہ چلاتی ہے، میرے پیغامات لکھتی ہے۔ میرے پرانے البموں   سے نکلا کر ساری  تصویریں   نہ جانے کس طرح کمپیوٹر پر سجا دیں ، سب رشتے داروں   کی بھیج دیں ۔ سارہ کو اب شعر و شاعری کا شوق ہوگیا ہے،مجھ سے پوچھ کر انگریزی رسم الخط میں   اردوشعر اپنے دوستوں   کو بھیجتی ہے، وہ حیران ہوتی ہے کہ اتنے شعر مجھے کیسے یاد ہیں ۔ اسے یہ جان کر  بہت حیرت ہوئی کہ مجھے انگریزی بھی آتی ہے۔ وہ میرے بچپن کی باتیں  کھوج کھوج کر پوچھتی ہے،اپنے کالج کے قصے مجھے سناتی ہے۔

کاش! میں   پہلے ہی سارہ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی ہوتی۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے صرف مٹھی بھر آسمان ہی نظرآتا ہے تو کیا ہوا۔ اب سارہ نے میرے لیے ایک اورکھڑکی کھول دی ہے۔

٭٭٭

1 تبصرہ
  1. shahnaz rahman کہتے ہیں

    عمدہ افسانہ ،زمانی فاصلے ،دو نسلوں کے درمیان کی یکسانیت ،تضاد اور تصادم کو بڑی خو بصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔تنہا رہنے اور ذاتی کمرہ کی دیرینہ اور شدید خواہش جب پوری ہوئی تب اندازہ ہوا کہ جو کچھ پیچھے چھوٹ گیا یا گزر چکا کتنا اہم تھا ۔

تبصرے بند ہیں۔