واقعۂ کربلا سے حالات حاضرہ تک
امام علی مقصود فلاحی
ہر سال محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کے اذہان میں اس عظیم معرکے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو آج سے ہزاروں سال قبل سن 61 ہجری میں عراق کے ایک بے آب و گیاہ تپتے صحرا میں پیش آیا تھا اور حق و باطل کی قوتوں کے مابین ایک عظیم الشان واقعہ رونما ہوا تھا۔
انسانیت حسینؓ اور دیگر شہداء کربلا کو گزشتہ چودہ صدیوں سے خراج عقیدت پیش کرتی رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔
کیونکہ یہی وہ حسین ہیں جنہوں نے کربلا کے تپتے ہوئے میدان میں دشمن کی فوجوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اے لوگو! تم میرا نسب تو دیکھو میں کون ہوں، کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا تمہارے لیے جائز ہے کہ مجھے قتل کرڈالو مجھے بتلاؤ کہ کیا میں نے کسی کو قتل کیا ہے؟ یا میں نے کسی کامال لوٹا ہے، یا کسی کو زخمی کیا ہے؟”
بات ہو ہی رہی تھی کہ دشمن کی جانب سے تیراندازی شروع ہو گئی ،اس طرح گھمسان کی جنگ شروع ہوئی، ظہر کے وقت تک حضرت حسینؓ کے اکثر رفقا شہید ہوچکے تھے، نماز کے بعد پھر جنگ شروع ہوئی، اسی دوران حضرت حسین ؓ کے بڑے صاحبزادے علی اکبر بھی شہید ہو گئے، حضرت حسین ؓ بہادری کے ساتھ ڈٹے رہے، یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کے ایک شقی القلب مالک بن نسیر نے آگے بڑھ کر حضرت حسین ؓ کے سرپر تلوار چلائی، اس کے باوجود حضرت حسینؓ بہادری کے ساتھ لڑتے رہے ، اس وقت حضرت حسینؓ کی پیاس اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، آپ پانی پینے کیلئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے بدبخت حصین بن عمیر نے آپ کے منہ پر نشانہ لگا کر تیر پھینکا او رمنہ سے خون جاری ہوگیا، اس کے بعد دشمنوں نے پھر حضرت حسینؓ کی طرف بڑھا مگر انہوں نے اس حالت میں بھی سب کا مقابلہ کیا، تاریخ جنگ کا یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس شخص کی اولاد اور رفقا اس کی آنکھوں ستے سامنے قتل کردیئے گئے ہوں اور خود شدید طور پر زخمی ہو، اسے پیاس کی شدت نے بے چین کررکھا ہو پھر بھی وہ ثابت قدم اور ڈٹا رہا ہو۔
دشمن نے جب یہ دیکھا کہ حضرت حسینؓ کسی طرح قابو میں نہیں آرہے ہیں تو اس نے اپنے کئی ساتھیوں کو للکار کہ کہا کہ وہ سب ملکر یکبارگی حملہ کریں ،چنانچہ بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور انہوں نے نیزوں اور تلواروں سے حملہ کر کے ان کو شہید کرڈالا، اسکی علاوہ ابن زیاد کا حکم بھی تھا کہ قتل کے بعد انکی لاشوں کو روندا جائے ،یہ کام بھی کیا گیا، اس کے بعد حضرت حسینؓ کا سرمبارک ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا ، پھر کوفے کے بازاروں میں گھمایا گیا ،پھر یزید کے پاس شام روانہ کیا گیا، جب یہ خبر شام پہنچی تو ہر طرف ماتم برپا ہوگیا ، خود یزید کا محل آہ وبکا سے گونجنے لگا ۔
قارئین! نواسہ رسول نے باطل، جابر اور ظالم کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سر کٹانے کی جو لازوال مثال قائم کی اور وہ قیامت تک کے لیے تاریخ میں امر ہو گئی۔
فاطمۃ الزہرہ کے لعل نے اپنے لہو سے حق و باطل کے درمیان سچائی کی جو فیصلہ کن لکیر کھینچی اس نے یہ ثابت کر دیا کہ تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو ظالم، باطل، آمر اور جابر قوتوں کے سامنے س جھکانے کے بجائے سر کٹانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال گزارنے کے بعد بھی سانحہ کربلا اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ لوگوں کے قلب و ذہن میں ترو تازہ ہے۔
معزز قارئین! اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج بھی اسی قسم کے حالات ہمیں در پیش ہیں کہ یزیدی لشکر پورے کروفر کے ساتھ موت کا رقص کررہا ہے،اور انسانوں پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، کیونکہ یزید کوئی شخض مخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ ایک علامت اور ایک کردار ہے، جو ہر زمانے میں موجود رہا ہے۔ پہلے تو ایک ہی یزید تھا مگر اب تو ہر قوم میں، ہر ملک میں، بلکہ ہر خطے میں کوئی نہ کوئی یزید کسی دوسرے نام سے مل جائے گا، لیکن نام میں کیا رکھا ہے، اصل تو اس کا کردار اور اعمال ہے۔
آج بھی اس دنیا میں یزیدی صفات کے حامل لوگ موجود ہیں،جو ہماری جان و مال اور عزت وآبرو پر ہی دست درازی ہی نہیں، بلکہ ہمارے دین و مذہب کے ساتھ کھلواڑ بھی کر رہے ہیں، وہ مکہ مدینہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی جیسے مذہبی مقدسات اور ہماری عبادت گاہوں کے خلاف سازشوں کا دہانہ بھی کھول رہے ہیں اور ان کی عظمت و تقدس کو پامال کر رہے ہیں،ان یزید صفت افراد سے کسی ایک قوم یا مذہب کے نام لیواؤں کو ہی خطرہ نہیں، بلکہ پورا انسانی کنبہ خطرے میں ہے۔
اسی لئے ہمیں حسینی جوش و جذبے کی ضرورت ہے، ورنہ موجودہ سامراجی گروہ یزید کی شکل میں پوری انسانیت کو لقمہ بنالے گا۔
طاقت وقوت اور مال ودولت کے نشے میں بدمست ممالک اور عالمی سرمایہ پر قابض اقوام کو اگر اس حسینی جذبے سے روشناس نہیں کرایا گیا تو نہ صرف ہماری جان ومال، بلکہ ہماری قیمتی متاع دین و مذہب کے بھی چھن جانے کا قوی اندیشہ ہے۔
اس لئے لوگوں کو حسینی جذبے سے روشناس کرانا ہے، اور بتلانا ہے کہ حضرت حسینؓ صرف ایک فرد یا ایک شخص کا نام نہیں تھا، وہ ایک عہد اور ایک زمانہ تھا، ان کی شہادت میں صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ ساری اقوام وملل کے لیے درس اور پیغامتھا۔
یہی وجہ تھی کہ ہندستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا:
”حسین کی قربانی ہر فرقے اور قوم کے لیے مشعل راہ ہے”۔
لہذا ہر ہندوستانی قوم اور فرقے کو چاہیے کہ وہ یزیدی صفات شخص کو ملک سے ختم کر کے امن و امان کو قائم کریں۔
تبصرے بند ہیں۔