وعدہ کر کے صنم نہ آتے ہو
پریم ناتھ بسملؔ
وعدہ کر کے صنم نہ آتے ہو
اس قدر کیوں ہمیں ستاتے ہو
…
غیر کے ساتھ ساتھ جاتے ہو
ہم عدو ہیں کہ آزماتے ہو
…
میرے رونے پہ مسکراتے ہو
دل میں اک آگ سی لگا تے ہو
…
عشق جب ہو گیا مجھے تم سے
بات کیا ہے کہ دور جاتے ہو
…
سوچتا ہوں میں ہر گھڑی تجھ کو
خواب میں تم ہی روز آتے ہو
…
جانے کیسا کیا سحر تم نے
رات دن تم ہی یا د آ تے ہو
…
میں تڑپتا ہوں دید کا تشنہ
تم رقیبوں کو مئے پلاتے ہو
…
دشنہ، دشنام اور ملامت سے
دشمنی خوب تم نبھاتے ہو
…
جو سمجھتے نہیں زباں دل کی
ان سے کیا حالِ دل سناتے ہو
…
اک ستمگر کے سامنے بسملؔ
اشک بے کار تم بہاتے ہو
تبصرے بند ہیں۔