ووٹ کی اہمیت
سلیمان سعود رشیدی
کسی بھی جمہوری ملک میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتی ہے، عوام کے ووٹ سے حکومت بنتی ہے،ہندوستان میں یہ اصول بالکل الٹ ہے، یعنی عوام کی اکثریت ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتی۔ ہمیشہ ٹرن آؤٹ کم ہی ہوتا ہے۔ جو کہ قابل افسوس پہلو ہے۔ اگر آپ پڑھے لکھے ہیں تو یقیناً یہ تو جانتے ہی ہونگے کہ آپکا ووٹ آپکی طرف سے اپنے ملک،ملکی اثاثہ جات، ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری جیسی چیزوں کو امانت کے طور پر کسی کے حوالہ کرنے کے لئے اپکا اعتماد ہوتا ہے ۔ اس لئے اپنے ووٹ کو کسی بھی طرح کی جذباتیت، کسی ذاتی مفاد، کسی برادری ازم، کسی علاقائی و لسانی تعصب کی بنیاد پر ہرگز ہرگز مت دیں بلکہ پوری طرح سوچ سمجھ کر پورے شعور کے ساتھ، ہر طرح سے موازنہ کر کے اور باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی دیں ۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاست کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
ہر پارٹی اور اسکا ہر امیدوار خود کو فرشتے اور دوسروں کو شیاطیں ثابت کرنے کی پوری کوشش میں رہتے ہیں اور دوسری طرف ملک کو اس بدحالی کا شکار بنانے میں سب ہی برابر کے حصہ دار بھی نظر آتے ہیں تو ایسے میں عام آدمی کیلئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ ان سب میں سے بہتر امیدوار کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ ووٹ دینا ایک سنجیدہ نوعیت کی ذمہ داری ہے۔ جس کی حرمت غیر سنجیدہ سرگرمیوں سے ضائع کی جاتی ہے۔ ریاست کا ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمیں اپنے اور اپنے گھروالوں کے ووٹ کا درست استعمال کرنا چاہئے۔ اگر ہم لوگ ووٹ کا اہم استعمال سیکھ جائیں تو ووٹ کی طاقت اتنی مسلمہ ہے کہ صرف چند اہل اور قابل با صلاحیت افراد منتخب کر لئے جائیں تو قوم کا کارواں درست سمت کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ ہماری قوم بہت با صلاحیت ہے۔ قدرت نے بے بہا وسائل کی نعمت سے نوازا ہے۔
اگر آج ہمارے اندر خرابیاں اور مسائل ہیں تو وہ اپنے عوامی نمائندوں کے انتخاب کے وقت ہمارے غلط یا جذباتی چناؤ کے باعث ہی ہیں۔ہر سیاسی جماعت کے نمائندے کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل ہے، لہٰذا ووٹ انہیں ہی دیا جائے کیونکہ وہ منتخب ہوکر چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل کا فوری حل نکال لیں گے۔ جبکہ عوام اپنی تقدیر پر حیران و پریشان ہیں کہ ان کے ساتھ یہ مشق کب تک دہرائی جاتی رہے گی؟ کب تک انہیں ووٹ کے تقدس کے نام پر لوٹا جاتا رہے گا؟ منتخب نمائندوں کی جانب سے مسلسل وعدہ خلافیاں، محض کھوکھلے نعروں اور دعووؤں کی وجہ سے آج عوام کی نظر میں ووٹ کی اہمیت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
لوگ انتخابی عمل میں صرف روایتی طور پر شرکت کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، اس لیے وہ ہر بار نئے اور خوشنما دعووؤں کی دکان سجاتے، وعدوں کا نیا جال بنتے اور عوام کو اْس میں پھنسالیتے ہیں۔تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ بلاشبہ بہترین طرزِ حکمرانی اور جمہوریت ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔ سسٹم کو گالیاں دینے، اسے کوسنے کے بجائے سسٹم کو مؤثر اور فعال بنائیں۔ جمہوری نظام میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لیے ہر ہندوستانی اپنا کردار ادا کرے۔ استعمال ہونے کے بجائے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔ یقین کیجیے حالات بدلیں گے، بس تھوڑا خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
اگلے کچھ دنوں میں انتخابات کا بِگْل بجنے والا ہے ، جس کے پیش نظر کچھ قابل و ایماندار امیدواروں کے ساتھ ساتھ بہت سارے سیاسی شعبدہ باز اور بازیگر فریب دہی و ملمع سازی کے ذریعے سادہ لوح عوام کی نظروں کو خیرہ کرنے اور کھلا فریب دینے کی خاطر برساتی مینڈکوں کی طرح ٹرٹر کرتے ہوئے میدان میں اترچکے ہیں۔ جس طرف دیکھئے ایک شوروغل اورہنگامہ بپا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر ایک جشن لگا ہوا ہے۔ مشروبات کی بوتلوں کے کھلنے کی ٹھکاٹھک، قبیلوں و برادریوں کے اتحاد و یک جہتی کی باتیں ، کونوں کھدروں میں ہوتے مول تول، انتخابی دنگل میں اترنے کے لئے بال وپر تولنے والے خواہشمند امیدواروں کے عارضی دفاتر پر سالوں سے بچھڑے ہوئے بے روزگاروں کی یومیہ ملاقاتیں و شب بیداریاں ، نکڑوں اور کارنروں پرآویزاں ہورڈنگس اور بینروں کی بہتات، خوشنما وعدوں کے دلفریب نعرے۔ غرض یہ کہ ایک نئی مہم شروع ہوگئی ہے۔
عام طور پر ہم لوگ ووٹ کی طاقت واہمیت اور اس کی شرعی حیثیت سے لاعلمی کی بناء پر اس کو ایسے افراد کے حق میں استعمال کرڈالتے ہیں جو کسی بھی طرح اس کے اہل نہیں ہوتے ہیں ، جس کا خمیازہ ہم لوگ اگلے پانچ سالوں تک اسی دنیا میں بھگتتے رہتے ہیں اور آخرت میں بھی جس کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو جان کر اس کا صحیح استعمال کریں۔ ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے ، ووٹ دینے والا اس شخص کے متعلق جس کو وہ اپنا بیش قیمت ووٹ دے رہا ہے اس بات کی شہادت اور گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص اس عہدہ کے لئے ہر طرح لائق ہے، اور اس میں اس منصب کی قابلیت موجود ہے۔ اور یہ شخص لیاقت و قابلیت کے ساتھ ساتھ امانت دار و دیانت دار بھی ہے۔
اگر بالفرض وہ نمائندہ اہل نہ ہو ، یا اس میں اس کام کی قابلیت و اہلیت نہ ہو ، یا وہ امانت دار و دیانت دار نہ ہو ، اور ووٹ دینے والا ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی اگر اس کو ووٹ دیتا ہے تو گویا وہ جھوٹی شہادت دے رہا ہے ، اور جھوٹی گواہی یا شہادت کی قباحت و شناعت اور شریعت کی نظر میں اس کے گندے اور گھناؤنے ہونے کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ رسالت مآب ؐ نے اس کو شرک کے ساتھ کبیرہ گناہوں میں شامل فرمایا ہے۔
لہٰذا ووٹر حضرات کو چاہئے کہ اپنا بیش قیمت ووٹ دینے سے قبل اپنے ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو خوب اچھی طرح سمجھ کر کسی کو اپنا ووٹ دیں۔ خود غرضی ، عارضی مفادات ، قرابت و تعلقات ، دوستانہ مراسم یا کسی کی غنڈہ گردی کے ڈر و خوف کی وجہ سے جھوٹی شہادت جیسے حرام اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں۔نیز ہر محلے میں وٹر ایڈی بناکے کارندہ دسیاب ہیں وہاں جایئں اپنے نا م کی تصدیق کروایئںاور نہ ہو اندراج کروالیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔