وعدہ کر کے صنم نہ آتے ہو

 پریم ناتھ بسملؔ

وعدہ کر کے صنم نہ آتے ہو

اس قدر کیوں ہمیں ستاتے ہو

غیر کے ساتھ ساتھ جاتے ہو

ہم عدو ہیں کہ آزماتے ہو

میرے رونے پہ مسکراتے ہو

دل میں اک آگ سی لگا تے ہو

عشق جب ہو گیا مجھے تم سے

بات کیا ہے کہ دور جاتے ہو

سوچتا ہوں میں ہر گھڑی تجھ کو

خواب میں تم ہی روز آتے ہو

جانے کیسا کیا سحر تم نے

رات دن تم ہی یا د آ تے ہو

میں تڑپتا ہوں دید کا تشنہ

تم رقیبوں کو مئے پلاتے ہو

دشنہ، دشنام اور ملامت سے

دشمنی خوب تم نبھاتے ہو

جو سمجھتے نہیں زباں دل کی

 ان سے کیا حالِ دل سناتے ہو

اک ستمگر کے سامنے بسملؔ

 اشک بے کار تم بہاتے ہو

تبصرے بند ہیں۔