وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
ادریس آزاد
بات یہ ہے کہ سائنس دان پہلے یہ بات نہیں مانتے تھے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ البتہ قران نے چھٹی صدی عیسوی میں بتادیا تھا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔
وَٱلسَّمَآءَ بَنَيۡنَـٰهَا بِأَيۡيْدٍ۬ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ۔’’
اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم اِسے مزید وسعت دے رہے ہیں‘‘۔
سائنس دان پہلے یہ مانتے تھے کہ کائنات پھیل نہیں رہی، خلا (سپیس) مطلق ہے، ٹائم مطلق ہے۔ یہ سب نیوٹن کی بتائی ہوئی سائنس تھی۔ اس سے ہٹ کر سوچنا پاگل پن سمجھا جاتا تھا۔
سائنس دان پہلے اس نکتۂ نظر کو اتنا بُرا سمجھتے تھے کہ آئن سٹائن نے جب جنرل تھیوری ڈیولپ کی تو اس کی مساوات میں کائنات پھیلتی ہوئی نکل رہی تھی اور اس پھیلاؤ کے لیے جتنی توانائی درکار تھی آئن سٹائن کو اُتنی توانائی کہیں سے مل نہ رہی تھی تو اُس نے اس خرابی کو ختم کرنے کے لیے ایک کانسٹینٹ لیا، جسے آئن سٹائن بعد میں اپنی زندگی کا ’’بِگ بلنڈر‘‘ کہا کرتا تھا۔
’’کائنات پھیل رہی ہے‘‘ یہ بات سائنس دانوں نے کسی ریاضی کی مدد سے معلوم نہیں کی۔ جیسا کہ عموماً ہوتاہے۔ پہلے کوئی تھیوری ڈیولپ ہوتی ہے اور اس کی ریاضی کو دیکھتے ہوئے اس کی حقیقت کو دریافت کیا جاتاہے۔
لیکن ’’کائنات پھیل رہی ہے‘‘ وہ حقیقت ہے جسے انسان نے اپنی آنکھوں سے پہلے دیکھا اور اس کی ریاضی بعد میں ڈیولپ کی۔ ’’ہبل‘‘ نے 1923 میں اعلان کیا کہ اُس نے دُور بین سے دیکھا ہے اور اُسے صاف نظر آیا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ اس نے جو دیکھا اور سائنسدانوں کو بھی دکھایا۔ تب سب نے یقین کرلیا اور آئن سٹائن نے بھی اپنے کانسٹینٹ کو بِگ بلنڈر کہنا شروع کردیا۔
جب آنکھوں سے دیکھ لیا تو بعد میں اُن فاصلوں اور کہکشاؤں کو ریاضی کی مدد سے مزید سمجھنا شروع کردیا۔ ایسی ہی ریاضیاں ڈیولپ کرتے ہوئے سائنسدان بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر کائنات میں توانائی کی مقدار مخصوص ہے تو پھر جس رفتار سے یہ کہکشائیں دور بھاگ رہی ہیں، لازمی طور پر یہ رفتاروقت کے ساتھ ساتھ سلو (آہستہ) ہورہی ہوگی۔
کیونکہ اگر رفتار کو وقت کے ساتھ ساتھ سلو ہوتا ہوا نہ مانا جائے تو پھر اتنی توانائی کہاں سے لائینگے جو اس مسلسل پھیلتی ہوئی کائنات کو مزید پھیلنے کے لیے درکار ہے؟ یہ وہ سوال تھا جس کی وجہ سے حتمی طور پر یہ تسلیم کرلیا گیا کہ کائنات پھیل تو رہی ہے لیکن اب یہ پہلے سے آہستہ رفتار میں پھیل رہی ہے ۔ مسلسل سلو ہورہی ہے۔
یہ سب کچھ ریاضی دانوں کے تخمینے تھے۔ توانائی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے۔ اور یہ بات کہ کائنات سلو ہورہی ہے 1923 سے لے کر 1998 یعنی ہمارے دور تک سائنسدانوں کے حتمی یقین کا حصہ رہی۔ ریاضی کا یہ قیاس کے کائنات کے پھیلنے کی رفتار مسلسل آہستہ ہورہی ہے کئی عجیب و غریب نتائج اخذ کرنے پر مجبور کیا کرتا تھا۔
کائنات کو ایک پھُولتے ہوئے غبارے جیسا تصور کیا جاتا تھا اور یہ سوچا جاتا تھا کہ اگر اس غبارے کے پھیلنے کی رفتار مسلسل سلو ہورہی ہے تو ایک مقام پر پہنچ کر یہ غبارہ یا تو پھٹ جائیگا اور یا واپس اُلٹا سفر کریگا یعنی کائنات جس حد تک پھیل سکی پھیل جائے گی اور پھر واپس پلٹے گی، دوبارہ ایک نقطے کی طرف۔ اور ایسا ہونے سے تمام واقعات اُلٹے پیش آئینگے جیسا کہ بیٹا باپ سے پہلے پیدا ہوگا اور جس عمر میں مرا تھا اس میں پیدا ہوگا اور پھر اپنی پیدائش کے دن مر جائیگا۔
پھرایک دن، بعینہ پہلے حادثے کی طرح جو ’’ھبَل‘‘ کے ساتھ پیش آیا تھا یعنی آنکھوں سے دیکھا تو پتہ چلا کہ کائنات پھیل رہی ہے، ایک اور حادثہ 1998 میں پیش آیا جب پتہ چلا کہ کائنات پھیل بھی رہی ہے اور اِس کے پھیلنے کی رفتار سلو نہیں ہورہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
تب تو فزکس کی دنیا میں بھونچال آگیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بالکل ناممکن ہے؟ اگر کائنات مسلسل پھیل بھی رہی ہے اور اسکی رفتار مسلسل بڑھ بھی رہی ہے یعنی ایکسیلیریٹ بھی ہورہی تو پھر اتنی توانائی کہاں سے آئی جو کائنات کے مادے کو ایک دوسرے سے پرے دھکیلتی جارہی ہے؟ اتنی زیادہ توانائی، جس کا تصور بھی محال ہے آخر کہاں سے آئی؟ اس خوفناک سوال کے جواب کے طور پر ’’ڈارک انرجی‘‘ کا تصور متعارف ہوا۔
سائنسدانوں نے کہا، ’’بیچارہ آئن سٹائن‘‘ خود کو غلط سمجھتا رہا اور اپنے کانسٹینٹ کو اپنا ’’بِگ بلنڈر‘‘ کہتا رہا لیکن آج وہ ہوتا تو کتنا خوش ہوتا کہ اس کا کانسٹینٹ بِگ بلنڈر نہیں تھا۔ اگر اُس نے کانسٹینٹ نہ لیا ہوتا تو آج ہم ڈارک انرجی کی ایگزیکٹ اماؤنٹ کا پتہ کیسے لگا پاتے؟
غرض آج دنیا کی ساری سائنس یہ بات مانتی ہی نہیں بلکہ اپنے ’’سمع و بصر‘‘ سے مشاہدہ کرچکی ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور ایک تاریک توانائی (ڈارک انرجی) ہے جو اسے اور تیزی کے ساتھ پھیلا رہی ہے۔ پہلے کی طرح اب بھی نئے نئے نتائج اخذ کیے جارہے ہیں۔
جن میں سب سے مقبول اور لاجیکل یہ ہے کہ اگر کائنات اِسی رفتار سے پھیلتی رہی تو بہت جلد تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے اتنی دور ہوجائینگی کہ ایک دوسرے کو نظر ہی نہیں آئیں گی۔ یہ کائنات ایک ٹھنڈی ، خاموش اور کالی رات میں بدل جائے گی اور ہم بالکل تنہا رہ جائینگے۔
ڈارک انرجی کے بارے میں ابھی کوئی سراغ نہیں ملا کہ وہ فی الواقعہ وجود بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ البتہ اُس کی تلاش جاری ہے۔ اورلیبارٹریز میں ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کے ذرّات کو دریافت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مشکل یہ ہےکہ یہ ذرّات زمین سے بھی آر پار ہوجاتے ہیں ۔
اس لیے اِن کا کسی شئے کے ساتھ ٹکراؤ ممکن نہیں اور کسی بھی آلے سے پیمائش ممکن نہیں۔ پھر بھی افریقہ کی ایک پرانی، متروک سونے کی کان میں، جو زمین کے اندر سترکلومیٹر گہری ہے، نہایت ٹھنڈے عناصر(ایلیمنٹس) کی پلیٹوں پر کئی سال سے ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کے ذرّات ککو پکڑنے کی کوشش جاری ہے۔ اور ابھی تک اِن ذرّات کا سراغ نہیں مل سکا۔
سترکلومیٹر گہرائی میں، یہ کوشش اِس لیے کی جارہی ہے کہ وہ جگہ ہر طرف کی ریڈی ایشن سے پاک ہے اور دیگر تمام قسم کے ذرّات جو مادے اور توانائی کے ہیں، وہاں کم سے کم ہیں۔ اُن پلیٹوں سے کسی دن کوئی ایک ذرّہ بھی ٹکرایا تو گویا ہم ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کو دریافت کرلینگے۔
تبصرے بند ہیں۔