وہاٹس اپ یونیورسیٹی: ایک عمومی مطالعہ
سالک ادیب بونتی
ہم اس صدی میں سانس لےرہےہیں جو جدیدسائنس و ٹیکنالوجی نیز سوشل میڈیا کادور کہلاتاہے،سوشل میڈیاکےتوسط سے عالمی رابطےکےدروازےکُھلے اور انسان لگاتار اس کی زلفِ کاکل میں الجھتاچلاگیا.
سوشل میڈیاکی ایک شاخ وہاٹسپ بھی ہے، سہولت فراہمی کےسبب اس کی مقبولیت سےکسی طورانکارنہیں کیاجاسکتا،انسانی زندگی کےتقریباً ہرشعبے میں اس کاعمل دخل ہے حیرت تویہ ہے کہ نئی نسل بعض دفع اسےحوالہ کےطورپربھی بلاجھجک استعمال کرلیتی ہے اسی لیے میں نے اس(نیٹورک) کووہاٹسپ یونیورسیٹی سےتعبیرکیاہے ـآئیےاس یونیورسیٹی کی سیرکرتےچلیں .
اس یونیورسیٹی میں داخلےکےلیےزیادہ کچھ نہیں بس ایک آنڈرائیڈ مبائل اور ڈیٹاپیک موجودہوناچاہیے ـ
سماج پراس یونیورسیٹی کےاثرات:
1. جھوٹ کافروغ: وہاٹسپ یونیورسیٹی نےجھوٹ کی تبلیغ واشاعت میں جوکرداراداکیاہے وہ ناقابِل بیان ہے،بلاضرورت گھربیٹھے انسان کسی کوبھی بآسانی چونالگاسکتاہے ـ
راقم السطور نےاپنےایک شناساکوکسی ضرورت سے ایک سےتین بارکال کیاتوسوچاشایدموصوف مصروف ہیں اسی لیےکال ریسیونہیں کئے،دوچارمنٹ بعدان کامیسیج موصول ہُوا *بھائی ابھی سفر میں ہوں کال ریسیونہیں کرسکتا*، اتفاق سے مجھےکسی کام سےفوراً مارکیٹ جاناپڑا تودیکھاموصوف چائےکی دوکان میں مبائل پرنظریں جمائے چائےکی چسکی لےرہےہیں …. ایساتجربہ ہم میں سے ہرکسی کوہوتاہوگا یہ سب وہاٹسپ کےکرشمےہیں ـ
2۔ بلاتحقیق اطلاعات کی ترسیل:- وہاٹسپ سے قبل انسان بہت سنجیدہ ہوا کرتاتھا اور کسی بھی اطلاع پراعتمادہونےکےبعدہی دوسرے تک پہونچایاکرتاتھا مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے، اس یونیورسیٹی کےاکثرطلباءاس تگ ودو میں رہتےہیں کہ سب سے پہلے ترسیلِ اطلاع کاسہرااپنےسرآجائے،اس چکر میں جھوٹ اور سچ کی تفریق کئے بغیرہرخبرکوبرق رفتاری سے سماج میں پھیلادیاجاتاہے ـ
3ـ بدگمانی: وہاٹسپ سےپہلےکےزمانےمیں انسان کم ازکم اپنےمخاطب کےلیے عذر تلاش کرلیتاتھا اور مثبت اندازمیں معاملات کوسلجھانےکی کوشش کرتاتھا مگرآج وہاٹسپ پرفوراً جواب نہ ملنےپرلوگ دل میں سوسوطرح کی بدگمانی پالنے لگتےہیں مثلاً
میسیج دیکھ کربھی جواب نہیں دیا، میرا میسیج دیکھتےہی آف لائن ہوگیا یا شایداس کی نظرمیں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے وغیرہ ـ
4 ـ زندگی میں بے ترتیبی: پہلےکاانسان اپنےلیےذہن میں ایک نظام الاوقات لیے چلتاتھامگرجب سے وہاٹسپ کاجنون سرچڑھا تب سے ٹال مٹول انسان کی عادت میں شامِل ہوگیا مثلاً پہلےاس کوجواب دیتےہیں پھرکام میں لگتےہیں اور اس خیال میں پانچ منٹ کے بجائے ایک گھنٹہ نکل جاتاہےاور یہ بےترتیبی دن بھرکی مصروفیات کوکسی نہ کسی صورت متاثرکرکےہی چھوڑتی ہے ـ
5 ـ آپسی رابطےمیں خلش: اس یونیورسیٹی کےقیام سے قبل بندہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اپنےاہلِ خانہ،عزیزواقارب اوردوست واحباب کووقت دیےسکتاتھا یوں ایک دوسرےکےدُکھ سُکھ میں شرکت سے معاشرےمیں الفت اورہمدردی کی فضا قائم رہتی تھی مگراب تھوڑی سی فرصت ملی تو بندہ فوراً چیک کرنےلگتاہے کہ کہیں کسی کامیسیج تونہیں آیا اور اگرکسی کامیسیج نہیں بھی ہے تو چلوہم ہی کسی کویاد کرلیتےہیں پھرسامنےسےاگرجواب آگیاتواکثر مکالمہ حدسےزیادہ طویل بھی ہوجاتاہے ـ
یہ وہاٹسپ کی دین ہے کہ ہم بُری طرح لاپرواہی کےدلدل میں پھنسےہوئے ہیں، سب اپنی دنیامیں مگن ہیں، والدین کےپاس اتناوقت نہیں بچتاکہ درست طور پر بچوں کی تربیت کرسکیں، رشتےداروں کےپاس اتنابھی وقت نہیں کہ کسی کی عیادت کرسکیں اور دوستوں کواتنی فرصت کہاں کہ کسی کی خبرگیری کرسکیں، یہ سب وہاٹسپ کی کرم فرمائی اور مہربانی ہے ـ
6 ـ شب بیداری: گزرےدنوں کی بات ہے کہ انسان وقت پرسوتااوروقت پر جاگتاتھا مگروہاٹسپ یونیورسیٹی نے ہم سے یہ دولت بھی چھین لی، اس میں داخلےکےبعد رفتہ رفتہ بندہ بےخوابی اور اضطراب کاشکارہوجاتاہے کیوں کہ اس درسگاہ میں اکثرلوگ دیرشب تک محوِ افادہ و استفادہ ہوتےہیں ـ
اس یونیورسیٹی کانصاب:- جتنےگُل اتنی مہک کےموضوعات وہاٹسپ یونیورسیٹی میں شامِل نصاب ہوتےہیں جومختلف طبقات( گروپس) کی شکل میں ہوتےپیں مثلاً
1. ہنسی مذاق:- اس نصاب میں ہنسی مذاق کےنت نئے طریقے اور زاویوں سے متعارف کروایاجاتاہے، جس میں اخلاق، تمیز اور ادب کوڑےدان کی نذرہوجاتےہیں ـ
2. خبریں :- اس نصاب کے تحت روز ملک و بیرونی ملک کی دلچسپ اور کھٹی میٹھی خبریں ترسیل کی جاتی ہیں ہاں کچھ درست خبریں بھی موصول ہوتےہیں مگر %۹۸ لوگ ایک سے دو صفحے پڑھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے ـ
3ـ بنامِ پڑھائی:- اس کےزیرِاہتمام کم وقت میں بہتر تیاری اور مختصروقت میں زیادہ فوائدکےحصول کے چکرمیں اچھے خاصے پڑھنےوالے لوگ بھی پی ڈی ـ
ایف فائل سےمطمئن ہونےکی ناکام کوشش کرتےہیں، اور یہ ممکن ہی نہیں کہ پی ڈی ایف کتاب کا بدل ہوجائے ـ
یہی سبب ہےکہ امتحانات کےدورمیں بھی اکثرطلباء اپناساراوقت اسی سوچ میں بربادکردیتےہیں کہ کہیں نہ کہیں سے توپی ڈی ایف مل ہی جائےگی اس دُھن میں بسااوقات کتاب کی صورت تک بھی نہیں دیکھتے یاپھریہ خیال کہ رات میں گروپ ڈِسکس میں تیاری توہوہی ہوجائے گی ـ
الغرض اس کےنصاب سےکچھ اچھےنتائج ہمارےسامنے نہیں ہیں ـ
سب سے بڑاخسارہ:- کسی بھی قوم کااصل سرمایہ اس کانوجوان ہوتاہے مگر اس یونیورسیٹی کےطفیل نئی نسل تعلیمی بیداری اور یکسوئی سے محروم ہوچلی ہےجس کے سبب والدین کےدردِسر،معاشی بدحالی،کردارکُشی،اور عدمِ فہم وفراست میں اس قدراضافہ ہواہے جس کاتصوربھی محال ہےاور اجتماعی طور پر ہم سب اس کی سزا بھگت رہےہیں ـ
کرنےکاکام:
اس سے قبل کہ ہم مستقل مریض ہوجائیں، دردلادواجائے اور سماج کازخم ناسور ہوجائے ہمیں بیدارہوناہی پڑےگا اور ازسرِنو گلشنِ ہستی کی آبیاری کےلیےمضبوط اقدام کرناہوگا ـ
ہمارامعاشرہ مسلسل آہ و بکیٰ کی زدمیں ہے ـ غالب کی زبان میں
ابنِ مریم ہُواکرےکوئی
میرےدُکھ کی دواکرےکوئی
بےحسی کی ایک آندھی ہے جوتھمنےکانام نہیں لےرہی ہے،درد کی ایک لہرہے جس سے ہم دامن بچانےکی کوشش میں لگےہیں ـ ایک چیخ ہےجسےہم شعوری یاغیرشعوری طورپر نظرانداز کررہے ہیں
ایسانہ ہویہ درد بنےدردِ لادوا
ایسانہ ہوکہ کوئی مداوا نہ کرسکے
نجی طورپر یہ سوچناہوگاکہ وہاٹسپ سےمیں نےکیاپایااورکیاکھویا؟
یہ میرےلیےکہاں اور کتنامعاون ہے؟ اگریہ ضروری ہےبھی توکہاں اور کتنا؟
اگرہم نے اس خط کو پالیاتوپھرآگےکی راہ آسان ہوجائےگی (ان شاءالله)اور ہم خودکو اوراپنےسماج کوتحفظ فراہم کرنےمیں کامیاب ہوسکیں گےـ
مشکل میں نسلِ نوکی ہےتصویربچائیں
مل جُل کےآؤ قوم کی تقدیربچائیں
تبصرے بند ہیں۔