ویلنٹائن ڈے: شرم تم کو مگر نہیں آتی

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں اپنے زمانہ طالبعلمی تک بھی ( جس کو بیس سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہوا )کبھی بھی ویلنٹائن ڈے کا نا م تک نہیں سنا تھا ، اس وقت تک ویلنٹائن ڈے نام کی اس وباسے عموماً مسلم معاشرہ محفوظ تھا اور نوجوانان ملت اسلامیہ کے دل و دماغ کینسر سے زیادہ مہلک اس وبا کے مسموم جراثیم سے بالکل ہی پاک و صاف تھے ، لیکن برا ہو اس مغربی تہذیب کا کہ اس کی دجالی اور مصنوعی چمک دمک نے سب سے زیادہ اگر کسی کی نظروں کو خیرہ کیا ہے تو وہ نونہالان ملت اسلامیہ ہیں ۔اس بظاہر خوشنما اوربباطن زوال پذیر تہذیب نے مسلمانوں کے دلوں سے نہ صرف حمایت و حمیت اسلام کو ختم کرڈالا اور ان کے اندر سے اسلامی تہذیب و ثقافت ، ایمانی غیرت ، اخلاقی اقدار، روحانی بصیرت اور شرم وحیا کا جنازہ نکال دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس دجالی تہذیب نے مسلمانوں کے دلوں اور ان کی زندگیوں سے اپنے نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس سے کما حقہ محبت اور ان کی مبارک و روشن سنتوں سے وابستگی کو بھی تقریباً ختم کرڈالا ۔ قصہ مختصر یہ کہ جس دور میں ہمارے شب وروز بیتے جارہے ہیں وہ دور انسانیت کا بدترین دور انحطاط ہے جس میں اشرف المخلوقات کی ہمہ وقت فتنہ سامانیوں کو دیکھ کر زمین و آسماںحیران و سراسیمہ ہوئے جاتے ہیں، انسانیت اور اسلامی اقدار حالت نزع میں ہیں اور عام طور پر مسلمانوں کی زندگیوں میں ایمان ایک مریضِ جاں بلب کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔

گذشتہ کئی سالوں سے مختلف ذرائع ابلاغ اور خصوصاً مغربی میڈیا ویلنٹائن ڈے کے نام سے انسانی معاشرے میں بے ہودگی، آوارگی، ذہنی عیاشی، اخلاقی بے راہ روی اور ناجائز خواہشات کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں اس دن یعنی ۴۱ فروری کو نوجوانوں کے لئے عالمی یوم محبت اور یوم تجدید محبت کے طور پر منایا جاتاہے ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو تحائف اور ہدایا پیش کرتے ہیں ، سرخ گلاب دئے جاتے ہیں ، نئی نئی دوستیاں کی جاتی ہیں، ناآشناؤں سے شناسائی پیدا کی جاتی ہے اورپھر اس کی آڑ میں شہوت پرستی ، عیاشی ، ہوس رانی ، آبرو باختگی اور جنسی جذبات کی تسکین کا وہ غیر اخلاقی و غیر اسلامی اور ناجائز سامان کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ .

رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا(لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْراً بِشِبْرٍ، وَ ذِرَاعاً بِذِرَاعٍ، حَتَّی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ‘‘۔ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، اَلْیَہُودَ وَالْنَّصَاری؟ قَالَ: ’’ فَمَنْ ؟‘‘. صحیح بخاری 7320)۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ضرور تم لوگ پہلی امتوں کے نقش قدم پر چل کر رہوگے اور ان کے اتباع میں اتنا غلو ہوجائے گا کہ اگر بالفرض پچھلی امتوں میں کوئی کسی گوہ کے سوراخ میں گھسا ہے تو تم بھی بالضرور اس میں داخل ہوکر رہوںگے ۔ یعنی ان کے ایمان سوز ، اخلاق سوز، حیا سوز اعمال و حرکات کی نقل کرکے رہوں گے ۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ ائے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کیا آپ کی مراد یہود ونصاری ہیں ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا بھلا اور کون ہوسکتا ہے ۔ صادق و امین رسالت مآب صلى الله عليه وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو سامنے رکھ کر اگر آج ہم اپنے دیش بھارت کے مسلمانوں اور پوری دنیا میں موجود مسلمانوں کی عمومی معاشرت کا ایماندارانہ جائزہ لیتے ہیں تو فوراً اس حدیث مبارکہ کی تصدیق ہوجاتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ مسلمان مغربی تہذیب کے نہ صرف دلدادہ و خوشہ چیں بلکہ ’’سیلا بِ مغربیت‘‘ میں پوری طرح غوطہ زن نظر آتے ہیں، اور مغرب کی طرف سے آنے والے ہر جھونکے کو بادِنسیم تصور کرنے لگ جاتے ہیں اگرچہ وہ بادِ مخالف اور بادِ مسموم ہی کیوں نہ ہو۔ ویلنٹائن ڈے کی شکل میں مغرب کی طرف سے آنے والے محبت کے ان جھونکوں پر ہمارے مسلم نوجوان اور خصوصاً اسکول و کالجس کے طلبائ بے تحاشا پروانہ وار فدا ہوتے جارہے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے مرتکب ہورہے ہیں اور شریعت مطہرہ اور نبوی تعلیمات سے روگردانی کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور نادانستگی میں کافروں اور دشمنان ِ خدا ورسول کے مذہبی اور مشرکانہ تہوار کا حصہ بنتے جارہے ہیں جب کہ وہ ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور اس کے پس منظر سے پوری طرح واقف بھی نہیں ہیں کہ وہ کس قدر گھناؤنا ہے ۔

ویلنٹائن ڈے کا پس منظر : اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلاڈیس ثانی کے دور حکومت میں ایک عیسائی پادری سینٹ ویلنٹائن رہتا تھا، ویلنٹائن کی کسی بغاوت یا جرم کی پاداش میں کلاڈیس ثانی نے اس کو پابند سلاسل کرکے اسیرِ زنداں کردیا ، قید و بند کی اس مدت کے دوران سینٹ ویلنٹائن کی شناسائی داروغہ جیل کی لخت جگر سے ہو گئی اور یہ شناسائی رفتہ رفتہ گہری ہوتی چلی گ · اور شاعر کے الفاظ میں اس کا حال کچھ اس طرح ہوگیا :
دھیرے دھیرے آپ میرے دل کے مہماں ہوگئے
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہوگئے

یہ شناسائی اور تعلقات کی یہ گرمی یکطرفہ نہیں تھی بلکہ دونوں ہی طرف آگ برابر لگی ہوئی تھی، لڑکی بھی پادری کے دیدار سے شادکام ہونے کے لئے سرخ گلاب تھامے ہوئے ہر دن قید خانے پہنچ جایا کرتی، ملاقاتوں کا یہ سلسلہ کچھ اس قدر دراز ہوا، اور دیوانگی کچھ اس حد تک بڑھی کہ وصال یار کی خاطر اس لڑکی نے مذہب نصرانیت کو قبول کرلیا اور پھر اس لڑکی کی وجہ سے اس کے خاندان کے تقریباً ۶۴ افراد نے بھی نصرانیت قبول کرلی۔ رومی بادشاہ کلاڈیس ثانی کو جب اس بات کی خبر لگی تو اس نے ویلنٹائن کو تختۂ دار پر لٹکانے کا حکم صادر کردیا، ویلنٹائن کو جب اس شاہی فرمان سے آگاہ کیا گیا اور آخری خواہش دریافت کی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنے آخری لمحات سے قبل وصال یار چاہتا ہوں ، چنانچہ اس نے اپنی معشوقہ کے نام ایک کارڈ بھیجا جس پر لکھا تھا (آپ کے عاشق زار مخلص ویلنٹائن کی طرف سے)۔ اس کی اس خواہش کی تکمیل کے بعد 14 فروری سال 072 عیسوی کو ویلنٹائن کو سولی پر چڑہا دیا گیا ۔ اس کے بعد سے یوروپ کے اکثر وبیشتر مقامات پر ہرسال اسی تاریخ کو آوارہ مزاج منچلے نوجوانوں کی طرف سے لڑکیوں کو تحفے تحائف ، سرخ گلاب اور مختلف اشاروں اور مقاصد پر مشتمل کارڈز بھیجنے کا رواج چل پڑا ۔ شاید ان کے ذہنوں میں یہ بات ہو کہ کارڈ بھیجنے سے ویلنٹائن جس طرح وصال یار سے سرشار ہوا اسی طرح ہم بھی اپنے شہوانی جذبات کی تسکین کا سامان حاصل کرسکیں گے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں سینٹ ویلنٹائن کے متعلق چند سطری تعارف کے بعدویلنٹائن ڈے کے متعلق تذکرہ محض ان الفاظ میں ملتا ہے ’’ سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار (Lover’s Festival) کے طور پر منایا جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی جو نئی روایت چل نکلی ہے ، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپرکالیا کے حوالے سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بارآواری یا پرندوں کے ایام اختلاط(Meating Season) سے ہے‘‘۔(بحوالہ کیا ویلنٹائن ڈے منانا ضروری ہے از عطائ اللہ صدیقی).

ویلنٹائن ڈے کو خواہ رومی دیوتا لوپرکالیا کی یاد میں منایا جاتا ہو یا ایک کافر نصرانی شخص سینٹ ویلنٹائن کی یادگار میں منایا جاتا ہو دونوں ہی وجوہات اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف حرام بلکہ عقیدہ اسلام اور عقیدہ ایمان کے منافی عمل ہے ۔ اور پھر اس تہوارکو علامتی طور پر عاشقوں کے دن اور محبت کے دن سے متعارف کرکے اس مخصوص دن کی آڑ میں جو شہوت پرستی ، ہوس رانی، آبرو باختگی، فحش کاری اور فسق و فجور ک کا ننگا ناچ ناچا جاتا ہے اور جو طوفانِ بدتمیزی پیدا کیا جاتا ہے کیا اسلام کسی بھی طرح سے اس کو برداشت کرسکتا ہے ۔ بالکل بھی نہیں ۔ لہذاہرمسلم نوجوان کو چاہئے کہ وہ ایسی تمام غیر اسلامی رسومات سے پرہیز کرے ۔ ویلنٹائن ڈے منانا، اس کی مبارکباد دینا،اس کے نام پر ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا ، سرخ گلاب پیش کرنا، ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے منعقد کردہ پارٹیوں میں شریک ہونا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے اور سرتاسر کفاروں کی مشابہت ہے ۔ اور رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے فرمادیا ہے (من تشبہ بقوم فہو منہم) جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہے ۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔