احمد نثار
ٹوٹ کر میرا سبو یوں بھی کبھی بکھرا نہ تھا
وہ مِرا ہو یا نہ ہو میں بھی یہاں میرا نہ تھا
فرقت شب یوں طویل ایسی بھی ہے جانا نہ تھا
عمر بھر کا فاصلہ ہوجائے گا سوچا نہ تھا
کون ہے یادوں میں جس کی کیفیت ایسی بنی
میں تو تھا لیکن مِرا وہ آئینہ میرا نہ تھا
فرقتیں، یادیں، شب غم، وصل کی بے چینیاں
ذہن و دل کے آئنے میں ایک میں تنہا نہ تھا
لاکھ پردوں میں چھپا ہے اس کی فطرت بے مثال
دل کی خلوت میں جو دیکھا تو کوئی پردہ نہ تھا
کیا کریں شمعِ فراست ڈھل رہی ہے آج کل
اب وہ پروانے مچلنے کا سماں دکھتا نہ تھا
اشک یہ کس کے تھے دامن جو بھگوئے ہیں مِرا
درد دل میں تھا جو میرے، درد وہ میرا نہ تھا
زندگی کو یوں بسر کرتا رہا جیسے نثارؔ
راستہ ہوتے ہوئے بھی، راستہ جیسا نہ تھا
تبصرے بند ہیں۔