فیضی اعظمی
اردو دنیا اپنے ماضی کے اعتبار سے کافی خوش قسمت ثابت ہوئی ہے، اس کی تاریخ میں ایسے ایسے لعل پیدا ہوئے ہیں کی اردو ادب ان پہ پھولے نہیں سماتا، ولی دکنی کے عہد سے پرورش پانے والی زبان نے اب تک کئی دور دیکھے ہیں. غالب ؔو میر، سودا سب نے اردو کو سر ماتھے پہ بٹھا کر رکھا، نئے دور میں احمد فراز، فیض احمد فیض یا دوسرے شعراء نے اردو زبان کو ایک نئی جہت دی۔
اسی کڑی میں انیسویں صدی میں پیدا ہونے والے ایک شاعر چکبست لکھنوی کو اردو تاریخ کا ایک اہم حصّہ سمجھا جاتا ہے، اردو شاعری میں انکی خدمات کے اعتراف میں اردو داں طبقہ اج ان کے نام پہ جشن کی تیاریاں کررہا ہے، واضح ہو کہ بحرین میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے سرگرم تنظیم ’’مجلس فخرِبحرین برائے فروغ اردو‘‘ کے بانی جناب شکیل احمد صبرحدی صاحب نے اس سال کے جشن کو چکبست لکھنوی سے منسوب کرنے کا اعلان کیا ہے، چکبست لکھنوی کی حیات و خدمات مختصر پیرائے میں پیش کی جا رہی ہے. چکبست لکھنوی جنھیں ایک محب وطن شاعر کے روپ میں پہچان ملی، وطن پرستی میں عقیدت کی حد تک پہونچنے والے پنڈت برج ناراین چکبست نے اتحاد و اتفاق اور زندہ دلی کی لازوال مثال پیش کی.
پنڈت برج ناراین چکبست 1882ء میں ایک کشمیری پنڈت خاندان میں پیدا ہوئے، نا مساعد حالات میں پلے بڑھے، بچپن میں سایہء پدری سے محروم ہوگئے. عہدِ تعلیم میں شادی ہوئی، مگر پیدائش میں بیوی کا انتقال ہوگیا، اور کچھ دن بعد بچہ بھی گزر گیا۔
یہ انکی زندگی کے مختصر احوال ہیں جو چکبست کی ساری زندگی پر حاوی رہے، چکبست کی شاعری کو سمجھنے کے لیے انکی زندگی کے یہ گوشے ذہن میں ضرور رہنے چاہیے، کیونکہ بعض لوگوں نے چکبست کو صرف وطن پرست شاعر مانا ہے جبکہ ایسا کرنے سے چکبست کے دوسرے دور جو انتہائی اہم ہیں وہ پردہء خفا میں چلے جاتے ہیں. بلا شبہ چکبست نے حب الوطنی میں اپنی پوری ترجیح دی، اور بنسبت غزلوں اور اشعار کے انکی نظمیں بہت زیادہ ہیں، اور انھوں نے آ خری دم تک انقلابی شاعری کی۔نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتے اور انمیں اپنی نظموں کے ذریعہ جوش بھرتے، انھیں آزادی پر ابھارتے، انکے یہاں ہندو مسلم کی کوئی درجہ بندی نہیں تھی. وہ دونوں کو ہندوستان کی دوآنکھوں کے طور پر دیکھتے تھے، اگر رامائن کے گیت گاتے تو امام باڑے پر خوبصورت نظمیں کہتے، ان کی زندہ دلی اور روشن خیالی کا عالم یہ تھا کی بیوہ عورتوں کی شادی کروانے کا بیڑا اٹھالیا، حالانکہ بیوہ عورتوں کی شادی اکو اس وقت ا ن کے مذہب میں گناہ تصور کیا جاتا تھا، غرض مختصر یہ کی پنڈت برج نارائن چکبست ایک ترقی پسند اورآزاد خیال ذہنیت کے مالک تھے. وہ اصلاحِ معاشرہ اوروطن کی فکر میں گھلے جاتے. چکبست کا مشاہدہ بے پناہ تھا، انھوں نے غلامی کے دور دیکھے. ظلم و ستم کے سارے معاملے جو انگریزوں نے روا رکھے تھے سب پہ انکی دقیق نظر تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں قومیت و وطنیت کا عنصر غالب ہے، حافظہ غیر معمولی اور جزئیات پر گہری نظر رکھتے تھے.
یہ چکبست کے پوری زندگی کے احوال تھے، گویا چکبست انھیں کے گرد چکر لگاتے تھے، انکی شاعری بھی ان ہی تمام اجزاء و عناصر کا مجموعہ تھی، کسی ایک صنف میں کمال پیدا کر لینا ان کی خصوصیت تو ہو سکتی ہے مگر اسکی وجہ سے دوسرے تمام پہلووں کو نظر انداز کر دینا ان کے ساتھ انصاف نہیں ہے.
چکبست کی شاعری مخصوص طور پر وطنی شاعری ہے، لیکن کلی طور پر چکبست کو صرف وطنی شاعر کہنا مناسب نہیں، چکبست کے یہاں حکمت و فلسفہ، عشق و محبت، وصال و فراق تمام رنگ عمومی طور پر موجود ہیں، چکبست کا ایک مشہور زمانہ شعر ان کی فلسفیانہ بصیرت کی تائید کرتا ہے.
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزاء کا پریشاں ہونا
غم زمانہ و غم روزگار پر سبھی شعراء نے قلم اٹھایا مگر حکمت ِبشریت کے ساتھ غم ِروزگار کا آئینہ دکھانا شاید کسی کے یہاں نہ ملے. اس سلسلے میں چکبست کا یہ شعر بھی انکی حکمت و فلسفہ کا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔۔۔
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشتِ خاک کو غم دو جہاں کے ہیں
ایسے ایسے نہ جانے کتنے اشعار ہیں جو چکبست کی علمی فضیلت اور برتری کو تسلیم کرنے پر مجبور کرتے ہیں، نظموں کے مقابلے میں چکبست کے غزلیہ اشعار کم ہیں مگر جو ہیں ان میں وہ کمال کو پہونچے ہیں، حکیمانہ و فلسفیانہ کلام نے جہاں ان کو ایک پہچان دی وہیں عشق و محبت، وصال وفراق، میخانے و پیمانے اور وفا و بے وفائی پر ا نکے اشعار ان کے دردِ نہاں کو اجاگر کرتے ہیں، یہی کسی بھی شاعر کا سب سے بڑا کمال ہے کہ اپنے درد کو اس فن سے بیان کرے کہ اس کا درد زمانے کا درد معلوم ہو، جو سنے ا سمیں اسے اپنا عکس نظرآئے۔
ہزاروں جان دیتے ہیں بتوں کی بیوفائی پر
اگر ان میں سے کوئی با وفا ہوتا تو کیا ہوتا
۔۔۔۔۔۔
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسمِ شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
نہ صرف عشق سے جاں بلب ہیں بلکہ آہ وزاری کی عمدہ تعبیر پیش کی ہے۔ آہ و زاری کا ایسا نمونہ جس میں دل روتا ہے مگر آنکھیں اشکوں سے خالی ہوتی ہیں، جو نہان خانۂ دل کے زخموں کا بین کرتی ہیں.
رلایا ا ہلِ محفل کو نگاہِ یاس نے میری
قیامت تھی جو اک قطرہ ان آنکھو ں سے جدا ہوتا
اسی مزاج کا ایک شعر استاد شاعر شیخ ابراہیم ذوقؔ کا یہاں پیش کردینا ضروری سمجھتا ہوں جو اس تعبیر کی فنی خوبی کا ادراک خود ہی کروائے گا. لفظوں کی مختلف صورتوں میں اس مضمون پر بہت سے استاد شعراء نے قلم اٹھایا ہے، مگر چکبست کے اندر کی آگ سب پر حاوی دکھ رہی ہے.
ایک آنسونے ڈبویا مجھ کو انکی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی
(مومن خان مومن)
غزلوں کے علاوہ انکی خوب صورت نظموں نے انھیں ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کا روپ دیا، انکی نظموں نے انھیں عالمگیر بنایا، وہ وطنی نظموں کے علاوہ سماج میں مروّجہ بہت سے پرانے اور دقیانوسی رواجوں پر چوٹ کرتے، اتحاد و اتفاق کا درس دیتے، انکی نظموں کے مخاطب نہ صرف ہندو ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی انھوں نے للکارا ہے.
دکھادو جوہر اسلام اے مسلمانوں
وقار قوم گیا قوم کے نگہبانوں
ستون ملک کے ہو قدر فوقیت جانو
جفا وطن پہ ہے فرضِ وفا کو پہچانو
نبی کے خلق مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم
انکی اکثر نظمیں مسدس بند ہوتیں، اوربیحد خوبصورتی کے ساتھ مافی الضمیر ادا ہوتا، ایک نظم میں یورپ کی تہذیب پر چوٹ کی ہے اور اپنی حب الوطنی کو ہر چیز سے بالا تر رکھا ہے.
آزادی و اصلاح کے جب آتے ہیں افکار
تقلید ہو یورپ کی یہی رہتی ہے گفتار
موجود اگر ان میں وہ جوہر نہیں زنہار
مغرب میں وہ تہذیب و ترقی کے ہیں اسرار
وہ حب وطن خون میں شامل نہیں رکھتے
گو ولولے رکھتے ہیں مگر دل نہیں رکھتے
چکبستؔ نے کل 54 نظمیں کہی ہیں، ان میں اکثر نظمیں حب الوطنی پرکہی گئی ہیں، لیکن چکبستؔنے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اسکی ایک اور مثال انکی 54 نظموں میں 8 وہ مرثیے ہیں جو انھوں نے لیڈروں اور دوستوں کی وفات پر کہے ہیں چکبست ؔکے کلام کا سوز و گداز انھیں معتبر بناتا ہے اور انکے دل کی سچی ترجمانی کرتا ہے، انھوں نے اپنی نظموں میں درد و الم، وطن پرستی کے علاوہ قدرتی مناظر کی دلکش تعبیریں، جذبات کی دل افرینی اور مظاہر حیات کو بڑی خوش اسلوبی اور چابکدستی سے بیان کیا ہے. ’’مرقع عبرت‘‘ اور ’’جلوہ صبح‘‘ جیسی نظمیں تشبیہات و استعارات کا بہترین نمونہ ہیں.
مرقع عبرت سے ایک بند:
ہے خطہ سرسبز پہ اک نور کا عالم
ہر شاخ و شجر پر شجر طور کا عالم
پرویں ہے یہ خوشہ انگور کا عالم
ہر خار پہ بھی ہے مڑہ حور کا عالم
نکلے نہ صدا ایسی مغنی کے گلو سے
آتی ہے جو آوازِ ترنم لب جو سے
چکبست نے نثر نگاری میں بھی قلم اٹھایا ہے، مگر انکی کوئی قابل ذکر خدمت نہیں ملتی، کچھ مضامین اور ایک ’کملا‘ نامی ڈرامہ ملتا ہے مگر ان کی زندگی پر ان چیزوں نے کوئی خاص اثر نہ چھوڑا، لیکن اگر شاعری کے حوالے سے چکبستؔکی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو انھوں نے اگرچہ کم ہی سہی مگر شاعری کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے، انکی شاعری مدح، ھجو، وصف اورمرثیہ نگاری کا حسین مرقع ہے، نظموں کے سہارے انھوں نے بہت بڑے بڑے مرحلے سر انجام دئیے ہیں، سب سے بڑھ کر تاریخ میں انھیں ایک محب وطن شاعر کے طور پر جگہ ملی، اس کے بعد غزلیہ شاعری نے انھیں اور بھی محترم اور معتبر شاعر کا مقام دلایا، ان کے ہر اشعار میں انکی زندگی کا عکس نمایاں ہے، انھوں نے جو دیکھا اسے شاعری میں ڈھال دیا، ان کے یہاں حکمت و فلسفہ کا رنگ بھی ہے، زندگی کے فن کوحقیقت کا جامہ پہنانے کا فن بھی، کبھی استعارے و کنایے کے پیرائے میں بات کی تو کبھی اپنے درد کا زندہ دلی سے اظہار کیا، شاید یہی وجہ ہے کہ کم اثاثے کے باوجود چکبست کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
نوٹ :- بحرین میں اردو کی خدمت میں سرگرداں نہایت متحرک تنظیم مجلس فخرِ بحرین برائے فروغ اردو نے رواں سال اپنے سالانہ جشن کو چکبست سے منسوب کرنے کا اعلان کیا ہے …مجلس جس شاعر کو منتخب کرتی ہے اس کے نام پورا سال.کر دیا جاتا ہے. چار طرحی نششتیں سال کے الگ الگ حصوں میں ..اور آخر میں ایک عالمی مشاعرہ .اس کے علاوہ کتابوں کی اشاعت اور منتخب شاعر کی زندگی اور اس کی شاعری کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار بھی منعقد کیے جاتے ہیں.
چکبست سے منسوب دو طرحی نششتوں کے کامیاب انعقاد کے بعد مجلس اکتوبر میں تیسری نششت کی پوری تیاری کر چکی ہے.بانیِ مجلس جناب شکیل احمد صبرحدی کی انتھک محنت سے اب تک 5شعرا سے موسوم عالمی مشاعرے منعقد کیے جا چکے ہیں
پنڈت برج نرائن چکبست کاایک شعرجومجھےبچبن سےاب تک نہیں بھولا,سوچاقارئین کوبھی سنادوں,تاکہ محظوظ ہوں.
حق پرستی کی جومیں نےبت پرستی چھوڑکر
برہمن کہنے لگے الحاد کا بانی مجھے.