مکافات عمل

 ممتاز میر

آج کی تازہ مگر ہولناک و اندوہناک خبر یہ ہے کہ لاس ویگاس میں ایک 64 سالہ امریکی شہری اسٹیفن پیڈوک نے اردو اخبارات کے مطابق 58 اور الجزیرہ کے مطابق۵۹لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ مزید 512 لوگ زخمی ہوئے ہیںجن میں سے کئی کی حالت انتہائی نازک ہےچ یعنی یہ قتل عام مزید کئی جانیں لے سکتا ہے۔چونکہ قاتل عیسائی بھی ہے اور امریکی بھی اسلئے اسے دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔ دہشت گردی تو صرف مسلمان کرتے ہیں۔جو بھی ہو ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔اسلئے کے ہمارا دین کہتا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک انسان کو قتل کیا تواس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور کسی شخص نے ایک انسان کو بچایا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔اور ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم بنیاد پرست ہیں۔اس واقعے کی مذمت کرنے کا حق اگرکسی کو ہے تو مشرقی ممالک کو ۔مغربی ممالک یہ حق نہیں رکھتے۔کم سے کم وہ ممالک تو بالکل بھی نہیں رکھتے جو گذشتہ تین دہائیوں سے امریکہ کے دم چھلے بنے ہوئے ہین اور انسانیت کے قتل عام میں بلا چوں و چرا امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حیرت اورافسوس کی بات ہے کہ امریکہ کی جدید تاریخ میں 11؍9 کے بعد یہ سب سے بڑا قتل عام ہوا ہے اور اب بھی افواہیں یہ اڑائی جا رہی ہیں کہ اس قتل عام کی ذمے داری داعش نے قبول کرلی ہے۔

 آج دنیا کے باخبر افراد جانتے ہیں کہ داعش امریکہ اور اسرائیل کی کھڑی کی گئی کٹھ پتلی ہے ۔خود اسرائیلی حکام نے ہسپتالوں میں علاج کی بات قبول کی ہے شاید اسے لئے ایف بی آئی نے مارے شرم کے اس واقعے میں داعش کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔لاس ویگاس کا  منڈالے بے ریسورٹ اینڈ کاسینو کا یہ علاقہ عموماً سیاحوں سے بھرا ہوتا ہے ۔اس وقت ریسورٹ میں میوزک کنسرٹ چل رہا تھا جس میں شائقین کی تعداد 22 ہزار تھی۔ قاتل نے اس سے متصل ہوٹل کے 32 ویں منزلے سے سامعین پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور بعد میں شاید خود کو بھی گولی مار لی ،کم سے کم پولس کی کہانی سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔پولس کا کہنا ہے کہ جب وہ قاتل کے کمرے میں گھسی تو  اسے مردہ پایا۔پولس کا قاتل کے تعلق سے کہنا ہے کہ وہ(امریکی اصطلاح میں )Lone Wolf تھا یعنی اس کا کسی تنظیم یا تحریک سے  کوئی تعلق نہیں تھا۔مگر پھر بھی پولس کو کسی مشتبہ خاتون کی تلاش ہے۔

  یہاں تک تو تازہ واقعے کی کہانی تھی ۔سوال یہ ہے کہ یہ امریکہ کا اکیلا واقعہ تھا یا جدید امریکہ میں اس قسم کے واقعات عام ہیں ۔سچ یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے مسلم ممالک میں قتل غارتگری کا کھیل شروع کیا ہے قدرت نے (جسے مغرب مانتا نہیں)امریکہ میں بھی اس قسم کے واقعات عام کر دئے ہین۔امریکہ چونکہ قاتلوں کے ٹولے کا سرخیل ہے اس لئے سب سے زیادہ قتل و غارتگری وہیں ہو رہی ہے ورنہ اکا دکا واقعات ان ممالک میں بھی پیش آرہے ہیںجو اس کے حلیف ہیں۔امریکی شہریوں اور فوجیوں کی تو نفسیات ہی بگڑ کر رہ گئی ہے کبھی افغانستان سے خبر آئی تھی کہ امریکی فوجیSanitry Nepkins باندھے رہتے یںکبھی خبر آتی ہے وہ اتنے خوفزدہ رہتے ہیں

کہ زرا سی آواز پر یا سائے سے ڈر کر گولی چلا دیتے ہیں۔اس طرح کبھی اپنے ہی ساتھیوں کو مارڈالتے ہیں۔یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے  کہ ظالم بزدل ہوتا ہے اور طاقت جب بزدل کے دماغ پر چڑھتی ہے تو اسے طاقت کی قے ہوتی ہے ۔امریکی تاریخ جاننے والا کوئی کہتا ہے کہ سفید فاموں نے امریکہ پر قبضے کے لئے ۱کروڑ ریڈ انڈینس کا خون بہایا تھا ۔کوئی دو کروڑ اور کوئی پانچ کروڑ کی تعداد بتاتا ہے ۔ جو  بھی ہو اس سے امریکی خمیر کا پتہ چلتا ہے ۔ان جرائم کے ساتھ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکی حکمراں اپنی قوم کو امن پسند بناتے مگر ہوا یہ کہ بزدل کے ہاتھوں طاقت کی چھڑی فطری طور پر جوگل کھلاتی ہے وہی امریکی حکمراں قریب ایک صدی سے کرتے آرہے ہیں۔اور اپنی قوم کو بھی انھوں نے جنگ پسند بنا دیا ہے ۔تو صاحب قدرت کا بھی ایک قانون ہے جسے مکافات عمل کہتے ہیں ۔اب وہی ان کے ساتھ بھی ہو رہا ہے اور مکافات عمل کا یہی ایک پہلو نہیں ہے ۔گذشتہ مہینوں میں پے درپے کئی سمندری طوفانوں نے امریکہ میں جم کر تباہی مچائی

ہے۔ کیونکہ امریکہ اس دنیا میں ماحولیات کے بگاڑ کا اسب سے بڑا ذمے دار ہے۔گرین ہاؤس گیسوں کی سب سے زیادہ پیدائش امریکہ میں ہوتی ہے ۔اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر ماحول کی اصلاح کی ذمے داری سے بھاگتا بھی ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کی پیداوار کو کم کرنے پر تیار بھی نہیں ہوتا۔اب شاید امریکہ کو سدھارنے کی ذمے داری قدرت نے خود لے لی ہے۔مگر امید کم ہے کہ وہ کچھ سمجھیں کیونکہ اس قسم کی طاقتیںسدھرنے کی بجائے تاریخ کے کوڑے دان میں جانا پسند کرتیں ہیں۔ذیل میں ہم کچھ اہم واقعات دے رہے ہیں جو گذشتہ 20 برسوں کے دوران امریکہ میں پیش آئے ہیں اور جو مکافات عمل کا ثبوت ہیں۔(1)12 جون 2016 میںپلس نائٹ کلب میں 49 لوگ مارے گئے۔ قاتل ایک امریکی شہری عمر متین تھا۔(2) سان برناڈینو کیلی فورنیا میں دسمبر 2015 میں ایک پاکستانی جوڑے رضوان فاروق اور اس کی بیوی تشفین ملک نے جو کہ امریکی شہری ہی تھے ایک شوشل سروس سینٹر کی آفس پارٹی مین 24 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 22 لوگوں کو زخمی بھی کردیا۔(3) ستمبر 2013 میں سابق فوجی آرون الکسس نے جو کہ امریکی شہری تھا نیوی یارڈ ہیڈکوارٹرس میں 12 لوگوں کو مار دیا۔(4) جولائی 2012 میں اورورا۔کولوراڈو میںجیمس ہومس نامی امریکی شہری نے ایک سنیما مین گھس کر فائرنگ بھی کی اور آنسو گیس بھی کھول دیا۔جس میں 12 شہری جاں بحق ہوئے۔(5)ایک 20 سالہ امریکی شہری آدم لانزا نے دسمبر 2012 میں 20 بچون اور 6 بالغوں کو سینڈی ہک ایلمنٹری اسکول میں گولیوں سے بھون دیا جس مین قاتل کی ماں بھی شامل تھی۔اور اسے غصہ اپنی ماں پر ہی تھا۔

(6)ورجینیا ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ایک 23 سالہ ساؤتھ کورین امریکی طالب علم نے 27 طلبہ اور 5 اساتذہ کو فائرنگ میں مار ڈالا تھا(7) نومبر 2009 میں امریکی فوجی سائکیاٹرسٹ ندال حسن نے امریکی فوجی بیس میں فائرنگ کرکے 13 فوجیوں کو مار دیا تھا ۔ڈاکٹر ندال حسن فوجی بیس مین بہت مقبول تھا مگر تھا افغانی۔گورے فوجیون نے اس کے سامنے اس کی قوم کے تعلق کچھ ایسی باتیں کی جسے غیو رقوم کا فرد برداشت نہ کرسکا ۔افغان تو اس معاملے میںعالمی شہرت یافتہ ہیں اسی لئے آج تک ان پر کوئی غیر قوم حکمراں نہ ہو سکی۔(8)جیورلی انٹریس وونگ جو کہ ایک ویتنامی مہاجر تھا،نے بنگھمٹن میں اپریل 2009 میں 13 لوگوں کو مار کر خود کو بھی گولی مار لی تھی۔

  ہمین یقین ہے کہ ان کے علاوہ کچھ چھوٹے واقعات بھی ہوتے ہونگے جو میڈیا مین رپورٹ نہ ہوتے ہونگے یا دبا دئے جاتے ہونگے کبھی ایک کتاب پڑھی تھی جس مین امریکی تھنک ٹینکس کا مختصر تعارف تھا۔۔اس مضمون میں ہم نے امریکی قوم کو لاحق مختلف عوارض کا ذکر کیا ہے۔ہماری قوم کے لال بجھکڑ اکثر امریکی قوم کی تعریف مین رطب اللسان رہتے ہیں خاص طور پر وہ جو امریکہ رٹرن ہو جاتے ہیں۔ ہم نے کہیں پڑھا نہ سنا کہ جو پے درپے واقعات وہاں پیش آرہے ہیں اس کے تدارک کے لئے بھی کوئی تھنک ٹینک وجود میں لایا گیا ہو۔

  ہمین نہ مسلمانون سے لینا دینا ہے نہ غیر مسلموں سے۔ ہم تو بس اسلام کے شیدائی ہیں، غیروں سے کیا شکوہ۔ ان کے پاس تو زندگی کا اللہ کا فراہم کردہ آخری قانون ہی نہیں ہے گلہ تو اس قانون کے حاملین سے ہے جو برسوں پہلے اس نتیجے پر پہونچ چکے ہیں کہ دنیا سے امن و شانتی ناپید ہی اس لئے ہوتی گئی کہ حکمرانوں نے ، دانشوروں نے قرآن کو مہجور بنانا شروع کر دیا تھا۔آج بھی مسلمانوں کی سب سے بڑی مصیبت ہی یہ ہے کہ اسلام کو مانتے تو ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کے درمیان اسلام کو جاننے ماننے والے کم کم ہی ہیںاور اس پرعمل کرنے والے تو بہت ہی کم ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔