پھر بڑھا دیں نہ پیچ و تاب سوال
افتخار راغبؔ
پھر بڑھا دیں نہ پیچ و تاب سوال
مت کر اے عقل یوں جواب سوال
…
اُس نے پھر مسکرا کے ٹال دیا
ہو گئے پھر سے آب آب سوال
…
مطمئن ہو کے بیٹھنا ہے موت
کھولتے علم کے ہیں باب سوال
…
وہ ترا جرح تھا کہ خوشبو تھی
لگ رہے تھے مجھے گلاب سوال
…
دو بدو بے رُخی و بے تابی
اور لاتے گئے عذاب سوال
…
کوئی ملتا نہیں جواب اے دل
دردِ دل ہے کہ لا جواب سوال
…
اُن سے پوچھوں کہ کون ہے دل میں
اور ہو جائے باریاب سوال
…
کتنا اچھا ملا جواب اُسے
پھر نہ پوچھے گا وہ خراب سوال
…
ہے مخاطب تمھاری خاموشی
اور بڑھاتے ہیں اضطراب سوال
…
میں نے پوچھی تھی خیریت راغبؔ
ہو گیا باعثِ عتاب سوال
…
اُس کے ہونٹوں پہ کچھ نہیں راغبؔ
اُس کی آنکھوں میں بے حساب سوال
تبصرے بند ہیں۔