چشمِ غیرت کا ہے اثاثہ کیا
افتخار راغبؔ
چشمِ غیرت کا ہے اثاثہ کیا
ابر سے چاہتا ہے دریا کیا
…
ہر ملاقات آخری سمجھو
سانس کی ڈور کا بھروسا کیا
…
کیوں گریزاں ہو اِس قدر مجھ سے
سرد پڑجائے گا یہ شعلہ کیا
…
دل نے سمجھا ہے کیا محبت کو
اور سمجھا رہی ہے دنیا کیا
…
ضبط کیا چاہتا ہے دل سے مرے
بے قراری کا ہے تقاضا کیا
…
سبز پتّو! ڈرو ہواؤں سے
میں تو ٹوٹا ہوا ہوں میرا کیا
…
مجھ سے خائف ہیں وحشتیں راغبؔ
مجھ کو دکھلا رہے ہو صحرا کیا
تبصرے بند ہیں۔