راحت علی صدیقی قاسمی
’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بی جے پی نے کالے دھن کی واپسی کا نعرہ بلند کیا، ہندوستانیوں کی غربت کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا، ان کی مشکلات و پریشانیوں کے ازالہ کی منشاء ظاہر کی گئی، سماجی کارکنان بھی بی جے پی کے ان نظریات کی تائید کرتے ہوئے نظر آئے، چنانچہ انا ہزارے اور بابا رام دیوم نے پرچمِ احتجاج بلند کیا، لاکھوں ہندوستانی ان کے پرچم تلے جمع ہوئے، ان کے خیالات کی درستگی پر مہر ثبت کی، مسلسل کوشش کی گئی اور ملک کو کرپشن سے بچانے کے لئے لوک پال بل منظور کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایاگیا، بھوک کی شدت برداشت کی گئی۔
کالے دھن پر نکیل کسنے کے لئے پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا، ہر شعبہ سے وابستہ افراد اس تحریک میں انا ہزارے کی اقتدا کرتے ہوئے نظر آئے، دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج کے سامنے سرکار جھکتی ہوئی نظر آئی، پورے ملک میں کانگریس مخالف ماحول بنا، ملک کی حفاظت اور کرپشن کے خاتمہ کی تحریک بی جے پی کے لئے فائدہ کا سودا ثابت ہوئی، اس تحریک نے کانگریس کو لوگوں کے قلوب سے دور کردیا، جس کا نتیجہ 2014 کے اسمبلی انتخاب میں ظاہر ہوا، چنانچہ یہ مدّعا بی جے پی کا انتخابی ایجنڈا ثابت ہوا۔ ملک کو غربت، مہنگائی، سماجی صورت حال کی ابتری، گھٹتا تعلیمی معیار، متعدد قسم کی آلودگی، ان تمام مسائل کے ساتھ بی جے پی نے چار سال قبل اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، عوام نے ان مسائل کے خاتمہ کے لئے بی جے پی کو ووٹ دیا، ان سب کے ساتھ سب سے اہم مسئلہ جس کی وجہ سے بی جے پی لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے میں کامیاب رہی، ان کی پوری توجہ حاصل کر پائی وہ بلاشبہ کالے دھن ہی کا تھا، غرباء کو لگا تھا کہ ان کے کھاتوں میں پندرہ لاکھ آجائیں گے، وہ بھی پیٹ بھر کھا سکیں گے، اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا سکیں گے، اب کوئی غریب خودکشی کرنے پر مجبور نہیں ہوگا، کوئی باپ اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے نہیں ترسے گا، کوئی شخص درد و کرب کی شدت سے نہیں تڑپے گا، بلکہ اسے دوا میسر ہوگی، علاج میسر ہوگا، تمام غرباء کو پندرہ لاکھ کا سنہرا خواب نظر آنے لگا تھا۔
ان خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے عوام نے 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا اور بی جے پی نے تاریخ رقم کی، لوگوں کی آنکھیں پھٹ گئیں اور تاریخ کے سینہ پر وہ عبارت رقم ہوئی، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، یہ بی جے پی کی جملے بازی کا ثمرہ تھا، جس میں سب سے کامیاب جملہ تھا کہ ’’ہم دیگر ممالک میں جمع 80 لاکھ کروڑ کالا دھن واپس لائیں گے، اور صرف 100 دن میں واپس لائیں گے، اور ہر ہندوستانی کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے جمع کئے جائیں گے۔ ‘‘ یہ جملہ بی جے پی کا کامیاب ترین جملہ ثابت ہوا۔ بی جے پی حکومت کو چار سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، خواب ٹوٹ چکے، وعدے وفا نہیں ہوئے، دعوے سیاسی جملوں کی شکل اختیار کر چکے، پندرہ لاکھ آئے نہ تسلی اور دلاسا، بلکہ واضح کردیا گیا کہ وہ سیاسی جملے تھے، جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ان کا استعمال کیا گیا تھا، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، فضائی آلودگی بڑھتی جارہی ہے، سانس لینا دشوار ہورہا ہے، سماجی صورت حال بدتر ہوتی جارہی ہے، فضا میں نفرت کی بو محسوس ہوتی ہے، نفرت سماج کا جز لا ینفک بن چکا ہے، آئے دن قتل و غارت گری کے واقعات لوگوں کو ہراساں کر رہے ہیں، عدم تحفظ کی فضا ملک میں عام ہوتی جارہی ہے، ترقی کے جو وعدے بی جے پی نے کئے تھے، ان کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے میں اب بھی وقت ہے، اب بھی وعدے ہی کئے جارہے ہیں، بی جے پی اپنے حکومتی سفر کے آخری مرحلہ میں ہے اور اب بھی جملوں اور وعدوں کا کھیل جاری ہے، کچھ اقدامات بھی کئے گئے، لیکن خاطرخواہ ان کے فوائد نظر نہیں آئے، روپیہ کمزور ہوتا جارہا ہے، معاشی مسائل اور بے روزگاری آئندہ انتخابات کے بڑے مدعا ثابت ہوسکتے ہیں۔
بی جے پی نے نوٹ بندی کے ذریعے کالے دھن کو ختم کرنے کی کوشش کی، اگر چہ اس فیصلہ نے پورے ملک کو مشکل میں ڈال دیا تھا، غریب روٹی کے لئے پریشان ہوگئے تھے، ڈولیاں ارتھیوں میں تبدیل ہوگئیں، بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نہ کرنے کے غم میں بہت سے لوگوں نے موت کو گلے لگایا، تقریباً سو لوگوں کی جان گئی، پورا ملک قطاروں میں کھڑا ہوا نظر آیا، وزیر اعظم دعویٰ کررہے تھے کہ چند دن کی قربانی اس کے بعد کالا دھن ختم ہو جائے گا، آپ کی قربانی اور محنت ضائع نہیں ہوگی، ملک کے لئے یہ محنت انتہائی خوش کن صورت حال کی تمہید ہے، کشمیر سے پتھر بازی ختم ہو جائے گی، دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا، پورا ملک ان وعدوں پر یقین کرکے محنت کرتا رہا، حالانکہ معاشیات کے ماہرین اس فیصلے پر سوالات کھڑے کررہے تھے اور اسے معاشی ایمرجنسی گردان رہے تھے۔
نوٹ بندی کو عرصہ ہو چکاہے، اس کے فوائد و نقصانات بھی عیاں ہو چکے، اب سوئس بینک نے 2017 میں جمع رقم کی تفصیلات پیش کی ہیں، جو حیرت زدہ کرنے والی ہیں، سوالات کو جنم دینے والی ہیں، جن کا جواب خاموشی ہوا، تو 2019 میں بی جے پی کو یقینی طور پر نقصان ہوگا، چونکہ چار سال قبل جو وعدے ہوئے، ان کی تکمیل باقی ہے اور لوگ منتظر ہیں۔ سوئس بینک کے مطابق گذشتہ برس ہندوستان کی جانب سے سوئس بینک میں جمع شدہ رقم میں 50 فی صد اضافہ ہوا ہے، موجودہ رقم 700 کروڑ ہے، اس معاملے پر مرکزی وزیر خزانہ صفائی پیش کررہے ہیں، اور دعوی کررہے ہیں کہ سال کے اختتام پرسوئس بینک انہیں تفصیلات مہیا کردے گا، گذشتہ چار سالوں میں امسال سب زیادہ رقم سوئس بینک میں کیسے جمع ہوئی؟ کیا نوٹ بندی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا؟ کیا سوئس بینک میں جمع رقم کالا دھن نہیں ہے؟ کیا ملک سے کالا دھن اور بدعنوانی ختم ہوچکی ہے؟ جواب ہاں ہے تو پھر روپیہ کیوں کمزور ہوا؟ ملک میں غربت کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ انتخابات کے موقع پر ان مسائل پر گفتگو کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ کالا دھن کب آئے گا؟ کب غربت ختم ہوگی؟ کب مشکلات کا ازالہ ہوگا؟ کب روپیہ اس معیار پر پہنچے گا جس کا بی جے پی نے وعدہ کیا تھا؟
بی جے پی کو ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، طلاق ثلاثہ کی مخالفت، نکاح حلالہ کی مخالفت، مسلم عورتوں کے حقوق کے دعوے یہ سب ترقی کے ایجنڈے نہیں ہیں، ترقی کرنی ہے، ملک کو اعلیٰ معیار پر پہنچانا ہے تو کالے دھن کو واپس لائیے، بدعنوانی کا خاتمہ کیجئے، اسی وقت اچھے دنوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، ورنہ 2019 کا انتخاب آپ کے لئے برے دنوں کا آغاز ہو سکتا ہے، چنانچہ ملک کو ترقی دیجئے، غربت و افلاس کا خاتمہ کیجئے، کرپشن اور بدعنوانی کو ختم کیجئے، اچھے دنوں کی تعمیر کیجئے، تب ہی خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتے ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔