سفر ہے شرط

ڈاکٹر شکیل احمد خان

۳۸ سالہ کیٹ کول ا مریکہ کی نہایت اہم ایکویٹی فرم ’’ فو کس برانڈس‘‘ کی گروپ پریسیڈینٹ ہے۔ یہ فرم کئی نامی برانڈیڈگروپ آف ریسٹورنٹس کی بھی مالک ہے جن کے خود بھی دنیا بھر میں سیکڑوں برانچس ہیں۔ اس طرح یہ فرم پوری دنیا میں لگ بھگ پانچ ہزار اسٹورس کی مختار ہے اور اسکا سالانہ ٹرن اور ایک بلین ڈالر ہے۔ اس سے قبل صرف ۲۶ سال کی عمر میں کیٹ ’’ ہوٹرس‘‘ نامی گروپ آف ریسٹورنٹس کی صدر بنائی گئی جس کے ۳۳ ممالک میں ۵۰۰  ریسٹورنٹس ہیں۔ ۳۲ سال ی عمر میں وہ اس فرم کی ملکیت بیکڈ فوڈ کی ریسٹورانٹ ’سننا بون‘ کی صدر منتخب ہوئی تھی۔ سننابون کے ۴۸ ممالک میں ۱۲۰۰ بیکری اسٹورس ہیں۔ کم عمر میں اہم ترین عہدوں پر رہتے ہوئے کارپوریٹ دنیا کی بلندیوں کو چھونے والی کیٹ کول کو ۱۹۱۳ میں مشہور میگزین فارچون نے ۴۰ سب سے زیادہ بااثر نوجوان بزنس مین کی فہرست میں شامل کیا۔ وہ ایک اچھے مقررا ور مصنف کی حیثیت سے بھی احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔ کیٹ کی اس شاندار ترقی کے بارے میں جان کر آپُ سونچ رہے ہونگے کی وہ کسی گورنر یا منسٹرکی دختر ہونگی یا پھر اس کے والدین بڑے صنعتکار یا  بااثر امیر افراد ہونگے۔ اگر آپ واقعی ایسا سوچ رہے ہیں تو آ پ نے کیٹ کول کو غلط سمجھا ہے اور آپ اِس غلط فہمی میں بھی مبتلا معلوم ہوتے ہیں کہ کامیابی و ترقی کے لئے اِن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کیٹ کول کا خاندانی پس منظر نہایت معمولی رہا ہے۔ ماہر ِ نفسیات پروفیسر اینجیلا ڈِک ورتھ، کیٹ کو ل کی داستان ِ حیات کو ’’ مفلسی سے مقصدیت تک‘‘ کا نام دیتی ہے۔

کیٹ کول نے ۱۸ مارچ  ۱۹۷۸ کو  ریاست فلوریڈا کے جیکسن ویلے میں ایک غریب گھرمیں جنم لیا۔انکے والد عادی شرابی تھے۔ والدہ نے تنگ آکراس وقت طلاق حاصل کر لی جب کیٹ صرف نو سال کی تھی۔ کیٹ اور دوسری دو بیٹیوں کی تن تنہا  پرورش کرنے کے لئے انھیں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سخت محنت و مشقت کے بائوجود تین سال تک ان کی آمدنی صرف  ۱۰  ڈالر  ہفتہ تھی۔ لہذا کیٹ نے جلد ہی ایک مال میں سیلس گرل کے طور پر اور پھر مشہور ریسٹورنٹ ’’ہوٹرس‘‘ میں ویٹریس کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔۱۸ سال کی عمر میں بطور ویٹریس کا م شروع کرنے والی کیٹ کے ساتھ پھر جو ہوا، وہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔ پر یہ سب کیسے ہوا؟  یہ کوئی سینڈریلا کی کہانی ہے نا  علائوالدین کے چراغ کی داستان۔ یہ نتیجہ ہے حسنِ کارکردگی، دیانتداری،شوق و جستجو، اور بے لوث مدد و تعاون کرنے کے جذبہ کا ۔  بقول خود کیٹ کول کے ایک دن ریسٹورنٹ کا باورچی اچانک شفٹ کے درمیان کام چھوڑ کر چلا گیا۔ مشکل وقت مین کیٹ فوراً کچن پہونچی اور ڈشیں تیار کرنے میں مینیجر کی مدد کرنے لگی۔ مدد اور تعاون کے فطری جذبہ نے اسے اس عمل پر ابھارا۔ساتھ ہی اسے نئی چیزیں سیکھنے،سمجھنے، کوشش کرنے کا بیحد شوق اور جستجو بھی تھی۔جلد ہی وہ کچن کے عملہ کی رہنمائی  اور بیک آفس کاموں میں بھی  مدد کرنے لگی۔ پھر ایک دن بارٹینڈر اچانک جلدی کام چھوڑ کر چلا گیا۔ کیٹ نے اس دن وہ کام بھی سنبھال لیا۔ پھر ایک دن مینیجر کو اچانک کہیں جانا پڑا اور کیٹ نے  پوری ڈمہ داری سے پوری ایک شفٹ کو چلانے کا تجربہ بھی حاصل کر لیا۔ غرض صرف چھ مہینے  میں کیٹ نے اپنا کام کرتے ہوئے ریسٹورنٹ سے متعلق تقریبا تمام دیگر کاموں کو بھی انجام دیا اور ان کاموں کی تربییت دینے کی صلاحیت بھی پیدا کر لی۔ اگرچیکہ کیٹ نے یہ عمل کسی مفاد یا باضابطہ منصوبہ کے تحت نہیں کیا تھا لیکن اسکے حسنِ کارکردگی، جذبہِ تعاون اور کمٹمینٹ نے  اسکے لئے ترقی کا زینہ کھول دیا۔ ’’ ہوٹرس‘‘ نے آسٹریلیا میں اپنی برانچ کھولنے اور اسکی ذمہ داری نبھانے کے لئے کسی قابل فرد کی تلاش شروع کی تو کیٹ کے مینیجر نے اسے بہترین ملازم قرار دیتے ہوئے اسکا نام تجویز کیا۔ وہاں اپنی ملنساری، اخلاق اور صلاحیت سے کاروبار کو بہت بڑھایا۔ جب فرم ٖفوکس برانڈ نے ہوٹرس کو خرید لیاتو اس وقت کیٹ کی کارکردگی کا ریکارڈ اتنا نمایاں تھا کہ فرم نے اسے اپنی اہم بزنس برانچ سننابون کی صدارت آفر کی۔ آج وہ فوکس برانڈ فرم کی ہی گروپ پریسیڈینٹ ہے۔

کیٹ کی مثال میں کیا ہمارے لیے کوئی معنویت ہے؟  اگر ہم بھی ترقی و کامرانی کو خواہاں ہے تو ہمیں کامیاب لوگوں کی زندگی، سوچ، عادات و اطوار،  رویوں اور نقطہ نظر کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ بقول  ایک مفکرکے   ’’ اگر آپ کہیں پہونچنا چاہتے ہیں تو پہلے اُس شخص کو تلاش کیجیے (ملیے) جو اِس سے قبل وہاں پہونچ چکا ہے‘‘۔ غور کیجیے وہ کون سی عاداتیں تھی جنہوں نے کیٹ کو ترقی میں مدد دی۔ وہ تھیں حسنِ کارکردگی، جذبہ تعاون، بڑھ چڑھ کر خوش دلی سے کام کرنا، اور بغیر کسی لالچ یا جھنجھلاہٹ کے اپنے متعین فرائض سے بڑھ کر کام اور خدمت کرنے کی ذہنیت۔ اب سوچئے ان معاملات میں ہمارا  ٹیریک ریکارڈ  مِن حیثیت القوم کیسا ہے؟  بس ایک مثال کافی ہے۔  ہمارے ایک کولیگ ہوا کرتے تھے جنھیں جب بھی کوئی کام دیا جاتا، نئے نئے بہانوں سے اُسے ٹال دیا کرتے اور پھر بڑے فخر سے کہتے کہ’’ دیکھیے مجھے فلاں کام دیا جا رہا تھا، میں نے کس چالاکی سے باس کو بے وقوف بنایا اور مزکورہ کام دوسرے شخص کو چپکا دیا ‘‘۔ہم کام کرنے کی بجائے کام بچانے (چرانے) میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور کام بچاکر ہم کیا حاصل کرلیتے ہیں ؟ گپ شپ کرنے اور تعصب کا رونا رونے کے لئے مزید وقت!   اب بتائیے ’’ کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘۔  یہ بات بھی اہم ہے کہ کیٹ کی تربیت میں انکی والدہ کا بڑا حصہ رہا ہے۔ جنہوں نے اُسے ہمیشہ تعلیم دی کہ، ’’ محنت کرو اور مدد کرو، بانٹوں ‘‘  Work hard and Give away۔ وہ آج بھی ہربار کیٹ کے سالگرہ کارڈ پر اُسے یہ تلقین کرتی ہیں کہ، ’’تم کہاں سے آئی ہو، (ماضی) اُسے کبھی مت بھولو، مگر اُسے اپنے راستے کی رکاوٹ بنانے کی حماقت کبھی مت کرنا ‘‘۔ بقول این لینڈرس  ’’سنہری موقع ہمیشہ کام (ذمہ داری) کا بھیس بدل کر آتا ہے، اسی لئے اکثر لوگ اسے پہچان نہیں پاتے یا اس سے دور بھاگتے ہیں‘‘۔

کیٹ کو اس بات کا شعور اور بصیرت تھی۔ابتداء میں بطورِ ویٹریس کام کرتے ہوئے کیٹ نے ہر نئے کام اور ڈمہ داری کوایک ’’ موقع‘‘سمجھ کر رضاکارانہ طور پر انجام دیا۔ اپنے ترقی کے دور میں بھی اس نے کئی  اداروں، تنظیموں اور انجمنوں کو بھی بلا معاوضہ وقت اور معلومات کا تعاون اور عطیہ دیا۔ اپنی صلاھیت کا لوہا منوانے اور گڈ ول حاصل کرنے کا نتیجہ بڑا خوش آئند تھا۔ گریجویٹ نہ ہوتے ہوئے بھی پوسٹ گریجویٹ ( ایم  بی  اے )  میں داخلہ کے لئے ملک کی کئی نامور شخصیتوں نے یونیورسٹی سے سفارش کی اور اسے اس میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ آیئے کیٹ کی زندگی سے بھی ہم کامیابی و ترقی کے کچھ گر سیکھیں، کیونکہ ’’علم مومن کی گمشدہ میراث ہے، یہ جہاں بھی ملے، حاصل کر لو‘‘۔  پس اٹھیے، سیکھیئے، چلیئے، راستے آسان ہوتے جائیں گے۔بقول  خواجہ حیدر علی آتش:

سفر ہے شر ط   مسافر نواز   بہتیرے

  ہزار ہا    شجرِ سایہ دار   راہ میں ہے

تبصرے بند ہیں۔