مشتاق احمد یوسفی: طنز و مزاح کا بے تاج بادشاہ

عبدالباری شفیق

اردو ادب کی دنیا میں فن طنزو مزاح کے بے تاج بادشاہ مشتاق احمد یوسفی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، وہ اردو کے بھارتی نزاد پاکستانی مزاح نگار تھے، ان کی ولادت ۴؍ستمبر ۱۹۲۳ ؁ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر جے پور، ٹونک، راجستھان کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں ہوئی، ان کے والد محترم جناب عبدالکریم خان یوسفی جے پور بلدیہ کے صدرنشین تھے اور بعد میں جے پور قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر مقرر ہوئے۔

مشتاق احمد یوسفی نے راجپوتانہ میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ بی اے کیا، پھر اعلیٰ تعلیم (ایم اے ) کرنے کے لئے آگرہ کا رخت سفرباندھا اور وہاں کے مشہور کالج سینٹ جانس کالج سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی ( وکالت ) کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ہندوستانی پبلک سول سرویسز (پی سی ایس ) کا امتحان پاس کرکے ۱۹۵۰ ؁ء تک ہندوستان میں مسلم کمرشیل بینک سے متعلق ہوئے اور ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ چونکہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان کے افراد واحباب پاکستان ہجرت کرگئے تھے، لہذا انھوں نے بھی ۱۹۵۰ ؁ء میں بھارت کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرگئے اور پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یوسفی صاحب پاکستان میں رہتے ہوئے ذریعہ معاش کے لئے بینک کی نوکری کو ترجیح دی اور وہاں ایک بینک میں ملازمت اختیار کرلی، بینک میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے ۱۹۶۵؁ء میں الائڈ بینک میں بحیثیت مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے، اسی  طرح ۱۹۷۴ ؁ء میں یونائٹیڈ بینک کے صدر اور ۱۹۷۷؁ء میں پاکستان بینکنگ کونسل کے صدر نشین منتخب کئے گئے۔

چونکہ یوسفی صاحب بہت مخلص، امانت دار ودیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت محنتی بھی تھے، جس کی وجہ سے بینک کے شعبہ میں کئی سال تک کام کرنے اور ان کی غیر معمولی خدمات پر انھیں پاکستان کا اعزازی ڈگری قائد اعظم میموریل تمغا عطاکیاگیا۔ یوسفی صاحب ملازمت کی خاطر لندن بھی تشریف لے گئے اور وہاں گیارہ (۱۱) سال اپنی خدمات انجام دینے کے بعد جب عمر کافی ڈھل گئی اور بچوں نیزاعزہ واقارب کی یاد ستانے لگی تو لندن کو خیرآباد کہہ کر ۱۹۹۰؁ء میں اپنے وطن کراچی، پاکستان لوٹ آئے۔

مشتاق احمد یوسفی عصر حاضر کے بہت بڑے مزاح نگار تھے ان کی وفات سے اردو دنیا میں جو خلا پیداہواہے اسے پر ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ انھوں نے ایک بینکر ہونے کے باوجود اردو ادب میں مزاح نگاری کا جو اعلیٰ معیار قائم کیااور اپنے پیچھے پانچ جن ادبی شہ پاروں کو چھوڑا ہے وہ اردودنیا کے لئے ایک نایاب تحفہ ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’ چراغ تلے ‘‘ ۱۹۶۱ ؁ء میں چھپی جب کہ دوسری ’’ خاکم بدہن ‘‘ ۱۹۶۹ ؁ ء، ’’ زرگزشت ‘‘۱۹۷۶ ؁ء، ’’ آب گم ‘‘ ۱۹۹۰ ؁ء اور آخری کتاب ’’ شام ِ شعرِ یاراں ‘‘ ۲۰۱۴ ؁ءمیں چھپی۔ یہ اردوادب اور فن مزاح نگاری میں ایسی لاثانی ونایاب کتابیں ہیں، جس نے اردو دنیا میں تہلکہ مچادیا اورجن کے وسیلے سے یوسفی صاحب اردو ادب کا ایک مستقل باب بن گئے اور اپنی ان تصانیف کے ذریعہ تقریبا پون صدی تک فن طنز ومزاح پر حکمرانی کرتے رہے۔ چنانچہ ان کے ان ادبی وگرانقدر خدمات اور ان کے کارہائے نمایاں کو سراہتے ہوئے انھیں صدر پاکستان کے ہاتھوں ۱۹۹۹ ؁ء میں ’’ ستارہ امتیاز ‘‘ اور ۲۰۰۲ ؁ء میں صدر پاکستان کے ہاتھوں ’’ ہلال امتیاز ‘‘ سے نوازا گیا اور ان کی بھر پور عزت افزائی کی گئی۔

یوسفی صاحب کی دیگر تصانیف کے علاوہ ان کی سب سے آخری کتاب ’’ شامِ شعرِیاراں ‘‘ ۲۰۱۴ء؁ میں شائع ہوئی جو معیاری اور قارئین کے مزاح کے خلاف ہونے کی صورت میں ان پر کافی طعن وتشنیع کے تیر برسائے گئے، کچھ لوگوں نے ’ شامِ شعرِیاراں ‘‘ کو ان کی کتاب ماننے سےہی انکار کردیا، اس لئے کہ یوسفی صاحب کی یہ کتاب ان کی چاروں کتابوں سے قدر مختلف ہے یہ کتاب دراصل ان کے مختلف مواقع پر لکھےگئے مضامین کا مجموعہ ہے جسے اس میں یکجا کردیاگیا ہے۔

ویسے تو یوسفی صاحب کانام اردو دنیا میں بہت بڑا اور معتبرہے اس کی وجہ ان کی اعلیٰ ظرفی، فن کاری اور طنزومزاح ہے جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہیں انھوں نے اپنی قلم کی جولانیوں کو مہمیز دےکر اردو زبان کے مزاحیہ ادب کو نہ صرف فروغ دیاہے بلکہ اس کے پیچ وتاب کو بھی درست کیا اور اسے بام عروج پر پہنچایا ہے، انھوں نےمضامین میں سماجیات، سیاسیات، ملک ومذہب اور دیگر شعبہ ہائے حیات میں پائی جانے والی خامیوں وکمیوں کو ہدف بناکر بھر پور طنز کیااور اس طرح سماجی بے راہ روی کو آشکارا کیاہے کہ قاری پڑھتے ہی چلا جائے اور اپنے آپ میں گم ہوجائے۔

انھوں نے اپنی کتاب ’’ آب گم ‘‘ میں ظرافت نگاری کا ایسا شاہکار پیش کرتے ہوئے جگہ جگہ اپنے مختلف کرداروں کے ذریعے معاشرے کی ان سچائیوں کو بے نقاب کیاہے جوسماج کے لئے ناسور بن چکی ہیں۔ مثلا رشوت خوری کے تعلق سے مکالماتی اندازمیں ان کا مضمون ’’ اسکول ماسٹر کا خواب‘‘، ’’ کار کا بلی والا اور الہ دین بے چراغ ‘‘ جس میں ایک کھٹارا کار اور ان پڑھ پٹھان وغیرہ پر مشتمل داستان اور اس کے علاوہ دیگر مضامین صرف داستان نہیں بلکہ فکشن اور سچے واقعات کا دلآویز مرقع ہیں۔

اسی طرح ان کی دیگر کتابیں بھی طنزومزاح کے فن میں اپنا ایک مقام ومرتبہ رکھتی ہیں، ان کی کتابوں میں بذلہ سنجی، برجستگی، ندرت خیال، مناسب الفاظ کا برمحل استعمال، واقعات کی تصویر کشی وغیرہ احسن طریقے سے موجود ہیں جس سے یوسفی صاحب کا معیار کافی بلند نظرآتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوسفی صاحب ایک شخصیت نہیں، ایک انجمن نہیں بلکہ ایک عہد کا نا م ہے، جس کی داستان حیات تقریبا پون صدی پر محیط ہے، بالآخر ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ کے تحت اردو ادب کا یہ مایہ ناز، معروف ظرافت نگاراورفن طنزومزاح کا بے تاج بادشاہ اپنے ہم عصروں، قارئین اور دیگر احباب کو ہنساتا رلاتا ہوا ۲۰ ؍جون ۲۰۱۸ ؁ء بروز بدھ کو کراچی، پاکستان میں ۹۵؍سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

’’انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘

اور اسی دن سلطان مسجد کراچی میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ہزاروں کی موجودگی میں سپردخاک کیاگیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین !

تبصرے بند ہیں۔