حضرت بھلے شاہؒ

ریاض فردوسی

عارفانہ کلام یا صوفیانہ کلام شاعری کا وہ کام ہے جو صوفیاء اور عارفین نے کی ہے۔ اس شاعری کی خاص بات اس میں پنہاں عشقِ حقیقی کے اسرار و رموز ہیں۔ جس میں صوفیا نے اپنے تجربات اور عشقِ حقیقی میں درپیش رکاوٹوں اور مراحل و مدارج بیان کیے ہیں۔ صوفی شاعری کا یہ کام مختلف زبانوں میں ہوا ہے اور ہر زبان میں پیش کیا  جانے والا صوفی کلام عوام میں بہت مقبول ہوا ہے۔ مختلف صوفیا کا کلام پنجابی، سندھی، اُردو، فارسی، عربی و دیگر زبانوں میں موجود ہے۔ یہ کلام نثر اور شعر دونوں صورتوں میں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ صوفیانہ کلام کے حوالے سے معروف چنیدہ شخصیات میں عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ کو منفرد مقام حاصل ہے۔

سید عبداللہ شاہ۔  لقب: بلھے شاہ۔ والد کااسمِ گرامی: سید سخی درویش محمد رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کے والد گرامی متقی عالمِ دین اور امام مسجد تھے۔ آپ کاتعلق ”اوچ  شریف ”کے ساداتِ گیلانیہ سے ہے۔ آپ کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف ہے،لیکن جو قریبِ قیاس ہے وہ 1680ء/1091ھ ہے۔ پنجابی معاشرے میں اصل ناموں سے عرف بنانا ایک عام سی بات ہے۔

چندواسطوں سے سلسلہ نسب امام الاولیاء حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مغلیہ سلطنت کے عروج میں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہو ئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد قصور کے قریب پانڈومیں منتقل ہو گئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والد کی نگرانی میں ہوئی۔ قرآنِ مجید انہی سے پڑھا۔ حافظ غلام مرتضٰی صدیقی علیہ الرحمہ سے مزیدتعلیم حاصل کی۔ حضرت وارث شاہ رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے شاگرد تھے،اور دونوں شاگرد عظیم شاعر بنے۔ آپ ان دونوں پر فخرکیاکرتے تھے۔ گلستان،بوستان، منطق، نحو، معانی، کنز قدوری،شرح وقایہ، سبقاء اور بحراطبواۃ بھی پڑھا۔ حضرت بلھے شاہ علیہ الرحمہ نے اس وقت کے تمام مروجہ علوم میں مہارت حاصل کی،آپ کاشمار اپنے وقت کے جید علماء کرام میں ہوتا تھا۔ ان کی  ذہنی نشوونما میں قادریہ کے علاوہ شطاریہ فکر نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اسی لیے ان کی شاعری کے باغیانہ فکر کی بعض بنیادی خصوصیات شطاریوں سے مستعار ہیں۔

 نا فع السا لکین”میں ہے: ”حافظ شیرازی ر حمتہ اللہ علیہ نے ”مسئلہ و حدت الو جود ”کو صو فیا ء کی اصطلاحات کے پردہ میں بیا ن کیا  ہے۔ اصلطلا حات ِصو فیا ء کے جا نے بغیر حافظ کا کلام سمجھ میں نہیں آسکتا۔ نیز فرمایا کہ بلھے شاہ ؒ  شمشیر ِبر ہنہ کی مانند ہیں کہ انہو ں نے مسئلہ و حدت الوجود کو بے پردہ بیا ن کیا ہے، دوسرے عارفین نے مسئلہ مذکورکو عر بی یا فارسی زبان میں بیا ن کیا ہے لیکن بلھیشاہ ر حمتہ اللہ علیہ نے ہندی میں بیان کیا ہے،ہندی سے آپ کی مراد پنجاب کے عوام کی زبان آپ کی شا عری میں پیار محبت امن رواداری اور اطا عت کا پیغام ملتا ہے، آپ کے کلام میں سو چ،رس سوز اور تڑپ، لطا فت سادگی اور پاکیزگی پائی جا تی ہے۔ آپ کا کلام معر فت حکمت دا نائی اورعبرت سے خالی نہیں ”۔

  پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی

ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی

مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی

او بلھیا!حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی

’’صوفی عنایت اللہ اپنی کتاب ’’ارمغان صوفی’’میں حضرت سید بلھے شاہ قادری ستاری رحمت اللہ علیہ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’آپ حضرت شاہ عنایت ولی قادری رحمت اللہ علیہ کے مرید تھے۔ آپ نہایت شریف النفس تھے، آپ انسانیت کے قائل تھے اور تمام مخلوق خدا کو یکساں اور برابر سمجھتے تھے۔ آپ کی تصانیف کا مجموعہ جو ’’قانون عشق’’کے نام سے مشہور ہے، پنجابی زبان کی جس میں مٹھاس بھری ہوئی ہے، لیکن بعض جگہ سچی بات مغرور لوگوں کو کڑوی بھی لگتی ہے۔ آپ کا کلام دریائے رموز، خزینہ توحید ربانی ہے۔ آپ کا کلام عاشقوں کے دل کا سرور، عارفوں اور صوفیائے کرام کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک اور نور ہے۔ ‘‘

مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی۔ ظاہر پسندی پر تنقید و طنز ہمہ وقت آپ کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ آپ کی شاعری میں شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں اور آپ کی ہمدردیاں ہمیشہ عشق کے ساتھ ہوتی ہیں۔ آپ کے کلا م میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جس کے آگے شرع بند نہیں باندھ سکتی۔ ایک موقع پر اپنی ذات کے متعلق بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں ’’بلھے شاہ او سدا ای جیوندے، جینا کیتیاں نیک کمائیاں نیں ’’یعنی بلھے شاہ وہ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنھوں نے زندگی میں نیکیاں کمائی ہوں۔ اور بعد میں حضرت شاہ عنایت قادری کی خدمت میں حاضر ہوکر روحاینت کی دولت سے مالا مال ہوئے،بابا بلھے شاہ نے اپنے صوفیانہ کلام سے لاکھوں انسانوں کو ہدایت بخشی۔ اپنی شاعری میں آپ مذہبی ضابطوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع کرنے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔ علم کی مخالفت اصل میں ’’علم بغیر عمل’’کی مخالفت ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ بلھے شاہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف رد عمل ہے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماؤں کی وحشیانہ مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لئے اس کا گہرا اثر آپ کے افکار پر بھی پڑا۔ آپ کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی، اور عالم گیر محبت کا جو درس ملتا ہے،وہ اسی معروضی صورت حال کے خلاف رد عمل ہے۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ سچے عاشقِ رسولﷺ،پابندِ شرع،اور باعمل داعیِ اسلام ہیں۔

اپنی شاعری میں وہ مذہبی ضابطوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع کر نے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔ علم کی مخالفت اصل میں ’’علم بغیر عمل‘‘ کی مخالفت ہے۔ بلھے شاہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف رد عمل ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماؤں کی وحشیانہ مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لیے اس کا گہرا اثر ان کے افکار پر بھی پڑا۔ ان کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی اور عالم گیر محبت کا جود رس ملتا ہے،وہ اسی معروضی صورت حال کے خلاف رد عمل ہے۔ ظاہر پرستی پر طنز، شرع اور عشق حقیقی، ان کے کلام میں ایسی زبردست قوت بن کر آتا ہے،ریا کاری کے تمام پردے ثاک ہو جاتے ہیں،

سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی

لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟

ترجمہ۔ نماز پڑھنے کو ٹوپی سر پر رکھتے ہو اور اپنی نیت نیک اعمال کے لیے صاف نہیں رکھتے۔ ایسے ٹوپی سر پر رکھنے کا کیا فائدہ

تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا

لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے

ترجمہ۔ تم ہاتھ میں تسبیح پکڑ کے اس کے دانے پھیرتے رہتے ہو مگر تمھارا دل ہوس کا غلام ہے ایسی تسبیح پھیرنے کا کیا نتیجہ

چلِے کیتے پر رب نہ ملیا

لینا کی چِلیاں وِچ وَڑھ کے

ترجمہ۔ سخت ریاضت اور چلے کی مشقت کرنے سے رب نہ ملا۔ اسے چلوں سے دوری بھلی

بُلھے شاہ جاگ بِنا دُدھ نہیں جمندا

پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے

ترجمہ۔ بلھے شاہ جب تک دودھ کو لسی سے جامن نہ لگایا جائے دہی نہیں بنتا چاہے چولہے پر پڑا گرم ہو ہو کر لال ہو جائے۔ ایسے ہی کسے اہل نظر رہبر کے بغیر تم مکمل نہیں ہو سکتے

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا

کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا نہیں

ترجمہ۔ تم کتابیں پڑھ کر عالم اور فاضل کہلاتے ہو مگر اپنے من کی دنیا کا مطالعہ نہیں کرتے ہو

جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر

کدی اپنڑے اندر توں وَڑیا ای نہیں

ترجمہ۔ تم کبھی مسجد اور کبھی مندر جاتے ہو مگر کبھی اپنے من کی دنیا میں داخل نہیں ہوئے

ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں

کدی نفس اپنڑے نال توں لڑیا ای نہیں

ترجمہ۔ تم روز شیطان کے خلاف لڑتے ہو مگر کبھی اپنے نفس کی خوہشات کے خلاف بھی لڑائی کی ہے؟

بُلھے شاہ اسمانی اُڈدیاں پھَڑدا ایں

جہڑا کہر بیٹھا اونوں پھڑیا ای نہیں

ترجمہ۔ بلھے شاہ تم گفتگو میں عالم بالا کی بات کرتے ہو مگر زمیں پر تمہارے اندر جو ایک طاقتور نفس ہے اس کو پکڑ کر قید کرو تو مانیں ?

پڑھی نماز تے نیاز نہ سِکھیا

تیریاں کِس کَم پڑھیاں نمازاں

ترجمہ۔ تم نماز پڑھتے ہو مگر تمھارے اندر ابھی تک عجز نہیں آیا۔ ایسی نماز کا کیا فائدہ

علم پڑھیا تے عمل نہ کیتا

تیریاں کِس کَم کیتیاں واگاں

ترجمہ۔ تم نے بہت ساری کتابیں پڑھ لیں ہیں مگر تم ان کے اندر لکھے ہوئے احکامات پر عمل نہیں کرتے ہو۔ اس سارے علم کا کیا فائدہ

نہ کَہر ڈِٹَھا نہ کَہر والا ڈِٹَھا

تیریاں کِس کَم دِتیاں نیازاں

ترجمہ۔ جب تمہیں خدا کے سخت عدل کا اندازہ ہی نہیں تو تمہارے دکھاوے کے صدقے اور خیرات کا کیا فائدہ

بُلھے شاہ پتہ تَد لگ سی

جدوں چِڑی پَھسی ہتھ بازاں

ترجمہ۔ بلھے شاہ تب پتہ چلے گا جب تم روز آخرت اپنا حساب کتاب پیش کرو گے

کھا آرام تے پڑھ شکرانہ

کر توبہ ترک ثوابوں

ترجمہ۔ تم رزق حلال کھاو اور اس خدا کا شکر ادا کرو۔ اور نیک اعمال کو محض ثواب کی خاطر مت کرو

چھڈ مسیت تے پکڑ کنارہ

تیری چُھٹے جان عذابوں

ترجمہ۔ بے مغز عبادت تجھے کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ایسی عبادت سے سے نہ کرنا اچھا ہے

نہ کہو کلمہ جہیڑا کہندا مُنکر

وے تو ہو روں اِک ثوابوں

ترجمہ۔ اور تکبر کے کلمات منہ سے مت نکالو ورنہ تمہاری ساری نیکیاں ضائع ہو جائیں گی۔

مکّے گیا گل مک دی ناہی

    پویں سو سو جمعے پڑھ آئیے

  گنگاگیا گل مک دی ناہی

پویں سو سو غوتے کھائیے

 بھلے شاہ گل تاعیوں مک دی

جدوں مے نو دلوں گوائیے

ترجمہ۔      مکہ جانے سے (اللہ کا قرب حاصل نہیں ہوتا)اگرچہ سو سو جمعے پڑھ لو،   گنگا جانے سے دل اور جسم صاف نہیں ہوتا، اگرچہ سو سو ڈبکی مارو۔  بھلے شاہ کہتے ہیں جب تک دل سے ’’ انا‘‘کی گندگی ختم نہیں ہوگی ان عملوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

راتی جاگے تے شیخ سدا ویں،  پر رات نو جاگن کتّے،تئیں تھی اتّے

راتی بھونکوں بس نہ کردے،   پھر جا رار ن وچ ستّے، تئیں تھی تو اتّے

یار دا بوہا مول نہ چھٹ دے،  پاویں مارو سو سو جتّے، تئیں تھی اتّے

بھلے شاہ اٹھ یار منا لے،   نئے تے بازی لے گئے کتّے، تئیں تھی اتّے

ترجمہ، رات کو جاگتے ہو اور عبادت میں مشغول بھی رہتے ہو یہ جاگنا تو کوئی کمال نہیں۔ اگر جاگنا ہی عبادت کی دلیل ہے تو رات کو کتے بھی جاگتے ہیں یوں وہ تم سے اُتم یعنی اوپر ہیں۔ وہ رات بھر مالک کی چوکیداری کرنے میں بھونکتے رہتے ہیں اپنے فرض کی ادائیگی کے بعد وہ گندگی کے ڈھیر پر سو رہتے ہیں یوں وہ تم سے اُتم ہیں یعنی اوپر ہیں۔ ان کا مالک خواہ انہیں جوتے مار کر بھگائے تب بھی وہ اپنے مالک کا در چھوڑ کر نہیں جاتے یوں وہ تم سے اُتم ہیں یعنی اوپر ہیں۔ بلھے شاہ۔ ۔ تُو بھی کچھ نیک اعمال کا سامان کر لے ورنہ کتے تم سے بازی لیے جاتے ہیں یوں وہ تم سے اُتم ہیں یعنی اوپر ہیں۔

مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کچھ دسدا

  ایک بندے کا دل نہ ڈھائن، کیوں کہ رب دل وچ رہیندا

ترجمہ۔ مسجد مندر توڑ دو اور جب غصّہ آئے تو سب توڑ دو، جو تمہیں نظر آئے، لیکن ایک بندے کا دل نہ توڑو کیوں اللہ تعالیٰ اس میں رہتا ہے۔

تاریخِ وصال کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بقول تذکرہ اولیائے پاکستان،1181ھ ہے۔ (بمطابق،6صفرالمظفر)۔ آپ کا مزار مبارک ” قصور” ریلوے روڈ پر زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔

(خزینہ الاصفیا ء، از،مفتی غلام سرسرور،۔ ماخذومراجع:  تذکرہ اولیائے پاک وہند۔ تذکرہ اولیائے پاکستان۔ اولیائے قصور،کلیات بلھے شاہ،از۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر،، پنجابی صوفی شعراء  از۔ ڈاکٹر لاجونتی راما کرشنا۔ ۔ کتابچہ،  C.F. AASBORN و ددیگر مضامین سے ماخوذ)

تبصرے بند ہیں۔