غرور انسانی کردار کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے!
(1۔ کِبر و غرور: اوّلین اور بدترین عیب، جو ہر بھلائی کی جڑ کاٹ دیتا ہے؛ کبر و فخر، غرور، خود پسندی اور تعلّی ہے۔ یہ ایک سراسر شیطانی جذبہ ہے جو شیطانی کاموں کیلئے ہی موزوں ہوسکتا ہے۔ خیر کا کوئی کام اس کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ بندوں میں بڑائی کا گھمنڈ ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ۔ جو شخص یا گروہ اس جھوٹے پندار میں مبتلا ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ہر تائید سے محروم ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کو سب سے بڑھ کر یہی چیز اپنی مخلوق میں ناپسند ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مرض کے مریض کو کبھی راہِ راست کی طرف ہدایت نہیں ملتی۔ وہ پے درپے جہالتوں اور حماقتوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آخر کار ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خلق خدا کے ساتھ برتاؤ میں اس سے تکبر کا جتنا جتنا اظہار ہوتا جاتا ہے اتنی ہی اس کے خلاف نفرت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ مبغوضِ خلائق ہو کر وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ اس کا کوئی اخلاقی اثر لوگوں میں قائم ہوسکے۔
خیر کیلئے کام کرنے والوں میں یہ بیماری کئی راہوں سے آتی ہے۔ کم ظرف لوگوں میں یہ اس راہ سے آتی ہے کہ جب ان کی دینی و اخلاقی حالت گرد و پیش کے معاشرے کی بہ نسبت کسی حد تک بہتر ہوجاتی ہے اور کچھ قابل قدر خدمات بھی بجالاتے ہیں جن کا اعتراف دوسروں کی زبانوں سے ہونے لگتا ہے تو شیطان ان کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے کہ اب واقعی بڑی چیز ہوگئے ہو اور شیطان ہی کی اکساہٹ سے وہ اپنی بڑائی اپنی زبان اور اپنے طرزِ عمل سے جتانے پر اتر آتے ہیں ۔ اس طرح وہ کام جس کا آغاز نیکی کے جذبے سے ہوا تھا، رفتہ رفتہ ایک نہایت غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔ دوسرا راستہ اس کے آنے کا یہ ہے کہ جو لوگ نیک نیتی کے ساتھ ایک طرف اپنی اور دوسری طرف خلق خدا کی اصلاح کیلئے کوشش کرتے ہیں ، ان کے اندر لا محالہ کچھ بھلائیاں پیدا ہوتی ہیں ، کسی نہ کسی حد تک وہ اپنے معاشرے کی عام حالت سے ممتاز ہوتے ہیں ، کچھ نہ کچھ ان کی خدمات قابل قدر ثابت ہوتی ہیں اور یہ ایسے واقعی امور ہیں جو بہر حال محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ امر واقعہ کا احساس بجائے خود فطری اور ناگزیر ہے مگر نفس کی ایک ذرا سی ڈھیل اور شیطان کی ایک ذرا سی اکساہٹ اسے تکبر اور خود پسندی میں تبدیل کر دیتی ہے پھر بسا اوقات ایسی صورتیں پیش آتی ہیں کہ جب ان کے مخالفین ان کے کام اور کام سے گزر کر ان کی ذات میں کیڑے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں مجبوراً اپنی مدافعت میں چند باتیں کہنی پڑتی ہیں ۔ جو چاہے بیانِ واقعی ہوں مگر اپنے محاسن کے اظہار سے خالی نہیں ہوتیں ۔ اس چیز کو ایک ذرا سی بے اعتدالی جائز حد سے بڑھاکر تفاخر کے حدود میں پہنچا دیتی ہے۔ یہ ایک خطرناک چیز ہے۔
احساسِ بندگی: جس سے ہر شخص اور جماعت کو خبردار رہنا چاہئے۔ جو خلوص کے ساتھ اصلاح کا مقصد لے کر اٹھے اور ایسے ہر شخص میں فرداً فرداً اور ایسی ہر جماعت میں مجتمعا عبدیت کا احساس نہ صرف موجود بلکہ زندہ اور تازہ رہنا چاہئے۔ اسے کبھی یہ حقیقت فراموش نہ کرنی چاہئے کہ کبریائی صرف خدا کی ذات کیلئے مخصوص ہے۔ بندے کا مقام عجز و نیاز کے سوا اور کچھ نہیں ۔ کسی بندے میں اگر فی الواقع کوئی بھلائی پیدا ہو تو یہ اللہ کا فضل ہے۔ فخر کا نہیں ، شکر کا مقام ہے۔ اس پر اللہ کے حضور اور زیادہ عاجزی پیش کرنی چاہئے اور اس تھوڑی سی پونجی کو خیر کی خدمت میں لگا دینا چاہئے تاکہ اللہ مزید فضل سے نوازے اور یہ پونجی ترقی کرے۔ بھلائی پاکر غرورِ نفس میں مبتلا ہونا تو در اصل اسے برائی سے بدل لینا ہے اور یہ ترقی کا نہیں بلکہ تنزل کا راستہ ہے۔
محاسبۂ نفس: احساسِ بندگی کے بعد دوسری چیز جو انسان کو تکبر کے رجحانات سے بچاسکتی ہے وہ محاسبۂ نفس ہے، جو شخص اپنا ٹھیک ٹھیک حساب لگائے اور اپنی خوبیوں کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھے کہ وہ کن کمزوریوں اور خامیوں اور کوتاہیوں میں مبتلا ہے، وہ کبھی خود پسندی و خود پرستی کے مرض کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اپنے گناہوں اور قصوروں پر کسی کی نگاہ ہو تو استغفار سے اس کو اتنی فرصت ہی نہ ملے کہ استکبار کی ہوا اس کے سر میں سماسکے۔
اعلٰی افراد پر نظر: اس غلط رجحان کو روکنے والی ایک اور چیز یہ ہے کہ آدمی صرف ان پستیوں ہی کی طرف نہ دیکھے جن سے وہ اپنے آپ کو بلند پاتا ہے، بلکہ دین و اخلاق کی ان بلندیوں کو بھی دیکھے جن کے مقابلے میں وہ ابھی بہت پست ہے۔ اخلاق و روحانیت کی پستیاں بھی لامتناہی ہیں اور بلندیاں بھی لامتناہی۔ برے سے برا آدمی بھی نیچے کی طرف دیکھے تو کسی کو اپنے سے بدتر پاکر اپنی برتری پر فخر کرسکتا ہے مگر اس فخر کانتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہوکر بہتر بننے کی کوشش چھوڑ دیتا ہے بلکہ اس سے گزر کر نفس کی شیطنت اسے یہ اطمینان بھی دلاتی ہے کہ کچھ اور زیادہ نیچے اتر جانے کی بھی ابھی گنجائش ہے۔ یہ نقطۂ نظر صرف وہی لوگ اختیار کرسکتے ہیں جو اپنی ترقی کے دشمن ہوں ۔ ترقی کی سچی طلب رکھنے والے ہمیشہ نیچے دیکھنے کے بجائے اوپر دیکھتے ہیں ۔ ہر بلندی پر پہنچ کر مزید بلندیاں ان کے سامنے آتی ہیں جنھیں دیکھ کر فخر کے بجائے اپنی پستی کا احساس ان کے دل میں خلش پیدا کرتا ہے اور یہی خلش انھیں اور زیادہ اوپر چڑھنے پر آمادہ کرتی ہے۔
ان سب چیزوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت ہر وقت اس معاملے میں چوکنی رہے اور اپنے دائرے میں کبر اور تعلّی اور فخر وغرور کے ہر ظہور کا نوٹس لے کر بر وقت اس کا تدارک کرے، مگر تدارک کی یہ کوشش کبھی ایسے طریقوں سے نہ ہونی چاہئے کہ لوگوں میں بناوٹی انکسار اور نمائشی تواضع کی بیماری پیدا ہوجائے۔ کبر کی اس سے بدتر کوئی قسم نہیں ہے جس پر تصنع کے ساتھ عجز و انکسار کا پردہ ڈالا گیا ہو۔
(2۔ نمود و نمائش: دوسرا بڑا عیب جو خیر کی جڑوں کو کھاجانے میں کبر سے کسی طرح کم نہیں ، یہ ہے کہ کوئی شخص اور گروہ بھلائی کا کام نمود و نمائش کیلئے کرے اور اس کام میں اسے خلق کی تحسین حاصل کرنے کی فکر یا اس کی پروا ہو۔ یہ چیز صرف خلوص ہی کی نہیں ، حقیقت میں ایمان کی بھی ضد ہے اور اسی بنا پر اسے چھپا ہوا شرک قرار دیا گیا ہے۔ خدا اور آخرت پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف خدا کی رضا کیلئے کام کرے۔ اسی سے اجر کی آس لگائے اور دنیا کے بجائے آخرت کے نتائج پر نگاہ رکھے، لیکن ریا کار انسان خلق کی رضا کو مقصود بناتا ہے۔ خلق ہی کے اجر کا طالب ہوتا ہے اور دنیا ہی میں اپنا اجر، نام و نمود، شہرت، ہر دل عزیزی، نفوذ و اثر اور حشمت و جاہ کی شکل میں پالینا چاہتا ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس نے خلق کو خدا کا شریک یا اس کا مد مقابل بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں آدمی خدا کے دین کی خواہ کتنی اور کیسی ہی خدمت کرے، بہر حال وہ نہ خدا کیلئے ہوگی نہ اس کے دین کی خاطر ہوگی اور نہ اس کا شمار خدا کے ہاں نیکیوں میں ہوگا۔
صرف یہی نہیں کہ یہ ناپاک جذبہ نتیجہ کے اعتبار سے عمل کو ضائع کر دیتا ہے بلکہ درحقیقت اس کے ساتھ کوئی صحیح عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس جذبے کی فطری خاصیت یہ ہے کہ آدمی کو کام سے زیادہ کام کے اشتہار کی فکر ہوتی ہے۔ وہ اسی کو کام سمجھتا ہے جس کا ڈھنڈورہ دنیا میں پٹے اور تحسین و آفرین کا خراج وصول کرکے لائے۔ خاموش کام جس کا خدا کے سوا کسی کو پتہ نہ ہو اس کے نزدیک کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس طرح آدمی کے عمل کا دائرہ صرف قابل اشتہار اعمال تک محدود ہوجاتا ہے اور اشتہار کا مقصود حاصل ہوجانے کے بعد خود ان اعمال کے ساتھ بھی اسے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی۔ آغازِ کار میں خواہ کتنے ہی خلوص کے ساتھ عملی زندگی کی ابتدا کی گئی ہو یہ بیماری لگتے ہی خلوص، اس طرح غائب ہونا شروع ہوجاتا ہے جیسے دق کی بیماری آدمی کی قوتِ حیات کو کھاتی چلی جاتی ہے۔ پھر اس کیلئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ منظر عام سے ہٹ کر بھی نیک رہے اور اپنا فرض سمجھ کر بھی کوئی فرض بجالائے۔ وہ ہر چیز کو اس کی نمائشی قدر اور تحسین خلق کی قیمت کے لحاظ سے جانچتا ہے۔ ہر معاملے میں صرف یہ دیکھتا ہے کہ دنیا کس روش کو پسند کرتی ہے اور کسی ایسے کام کا تو تصور کرنا بھی اس کیلئے ناممکن ہوتا ہے جو دنیا میں اسے غیر مقبول بنا دے، خواہ ایمان داری کے ساتھ اس کے ضمیر کی آواز یہی ہو کہ وہ ہے کرنے کا کام۔
گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کیلئے اس فتنے سے بچنا نسبتاً بہت آسان ہے مگر جو لوگ پبلک میں آخر اصلاح اور خدمت اور تعمیر کے کام کریں وہ ہر وقت اس خطرے میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس اخلاقی دق کے جراثیم ان کے اندر نفوذ کر جائیں ۔ انھیں بہر حال بہت سے وہ کام کرنے ہوتے ہیں جو منظر عام پر آتے ہیں انھیں عوام الناس کو اپنا ہم نوا بنانے اور ان کے اندر اثر حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ ان کے کام کی بہت سی ضروریات اس بات پر بھی انھیں مجبور کرتی ہیں کہ اپنے کاموں کی رودادیں شائع کریں ۔ ان کی کچھ نہ کچھ خدمات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ان کی طرف خلق کا رجوع بڑھاتی اور زبانوں سے ان کیلئے تحسین کے کلمات نکلواتی ہیں ۔ انھیں مخالفتوں سے بھی سابقہ پیش آتا ہے۔ اور اپنی مدافعت میں بادل ناخواستہ ہی سہی، انھیں مجبوراً اپنے اچھے پہلوؤں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ شہرت ہو مگر شہرت کی چاٹ نہ لگے۔ نمودو و نمائش ہو مگر نمود و نمائش کی خاطر کام کرنے کی بیماری نہ لگے۔ مقبولیت ہو مگر وہ مقصود نہ بننے پائے۔ تحسین خلق ہو مگر اس کے حصول کی فکر یا اس کی پروا نہ ہو۔ ریا کی پیدائش کے اسباب چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں مگر ریا سے دامن بچا رہے۔ اس کیلئے بڑی کاوش، بڑی توجہ اور بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ ایک ذرا سا تساہل بھی اس معاملے میں ریاکاری کے جراثیم کو گھس آنے کا راستہ دے سکتا ہے۔
انفرادی کوشش: اس سے بچنے کیلئے انفرادی کوشش بھی ہونی چاہئے اور اجتماعی کوشش بھی۔ انفرادی کوشش کا طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ ایسے نیک اعمال کا التزام کرے جو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ ہوں اور ہمیشہ اپنے نفس کا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ اسے زیادہ دلچسپی ان مخفی نیکیوں میں محسوس ہوتی ہے یا ان نیکیوں میں جو منظر عام پر آنے والی ہوں ۔ اگر دوسری صورت ہو توآدمی کو فوراً خبر دار ہوجانا چاہئے کہ ریا اس کے اندر نفوذ کر رہا ہے اور اللہ سے پناہ مانگتے ہوئے پوری قوت ارادی کے ساتھ نفس کی اس کیفیت کو بدلنے کی سعی کرنی چاہئے۔
اجتماعی کوشش: اجتماعی کوشش کی صورت یہ ہے کہ جماعت اپنے دائرے میں ریاکارانہ رجحانات کو کبھی نہ پنپنے دے۔ اپنے کاموں میں اظہار و اعلان کو بس حقیقی ضرورت تک محدود رکھے۔ شوقِ نمائش کا ادنیٰ سا اثر بھی جہاں محسوس ہو فوراًاس کا سد باب کرے۔ جماعتی مشوروں اور گفتگوؤں میں یہ بات کبھی اشارتاً و کنایتاً بھی برداشت نہ کی جائے کہ فلاں کام اس لئے کرنا چاہئے کہ وہ مقبولیت کا ذریعہ ہے اور فلاں کام اس لئے نہ کرنا چاہئے کہ اسے لوگ پسند نہیں کرتے۔ جماعت کا داخلی ماحول ایسا ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کی تعریف اور مذمت ہر دو سے بے نیاز ہوکر کام کرنے کی ذہنیت پیدا کرے اور اس ذہنیت کی پرورش نہ کرے جو مذمت سے دل شکستہ ہو اور تعریف سے غذا پائے۔ اس کے باوجود اگر کچھ افراد جماعت میں ایسے پائے جائیں جن میں ریا کی بو محسوس ہو تو ان کی ہمت افزائی کرنے کے بجائے ان کے علاج کی فکر کی جانی چاہئے۔
3 ۔ نیت کا کھوٹ: تیسرا بنیادی عیب نیت کا کھوٹ ہے جس پر کسی خیر کی عمارت قائم نہیں ہوسکتی۔ خیر کا کام صرف اس خالص نیت ہی سے ہوسکتا ہے کہ دنیا میں بھلائی پھیلے اور ہم اس کیلئے سعی کرکے اللہ کے ہاں سرخرو ہوں ۔ اس نیت کے ساتھ اپنی کوئی ذاتی یا گروہی غرض شامل ہونی چاہئے۔ اپنا کوئی دنیوی مفاد پیش نظر نہ ہونا چاہئے۔ حتیٰ کہ کسی تاویل کے ساتھ بھی اس مقصد خیر کے ساتھ اپنے لئے کسی منفعت کی طلب یا امید کی لاگ لگی نہ رہنی چاہئے۔ ایسا ہر لوث نہ صرف یہ کہ اللہ کے ہاں آدمی کے اجر کو ضائع کر دے گا بلکہ دنیا میں بھی اس آلودگی کو لئے ہوئے کوئی صحیح کام نہ ہوسکے گا۔ نیت کی خرابی لامحالہ کردار پر اثر انداز ہوگی اور کردار کی خرابی کے ساتھ اس جدوجہد میں کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے جس کا اصل مقصود برائی کو مٹاکر بھلائی کو قائم کرنا ہے۔
یہاں پھر وہی مشکل پیش آتی ہے جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں ۔ جزوی بھلائیوں کیلئے کام کرنے کی صورت میں نیت کو اس کھوٹ سے پاک رکھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔ تھوڑا سا تعلق باللہ اور جذبۂ صادق بھی اس کیلئے کافی ہوسکتا ہے مگر جن لوگوں کے پیش نظر یہ ہو کہ ایک پورے ملک کے نظام زندگی کی اصلاح کی جائے اور اسے بحیثیت مجموعی ان بنیادوں پر استوار کیا جائے جو اسلام نے ہمیں دی ہیں ، وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے صرف تعمیر افکار یا صرف ’’تبلیغ و تلقین‘‘ یا صرف اصلاح اخلاق کی کوششوں پر اکتفا نہیں کرسکتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھیں لامحالہ ملک کے سیاسی نظام کا رخ بھی اپنے مقصد کی طرف موڑنے کیلئے بالواسطہ یا بلا واسطہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے، تاکہ اقتدار یا تو براہ راست ان کے ہاتھ میں آئے یا کسی ایسے گروہ کی طرف منتقل ہو جسے ان کی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو۔ دونوں صورتوں میں سے خواہ کوئی صورت بھی ہو اقتدار کا تصور سیاسی نظام کی تبدیلی سے منفک نہیں ہوسکتا۔ اب تو قعر دریا میں رہ کر دامن تر نہ ہونے دینے کا معاملہ ہے کہ ایک جماعت یہ کام کرے اور پورے انہماک کے ساتھ کرے اور پھر بھی اس کے افراد انفرادی نیتوں اور پوری جماعت کی مجموعی نیت کو ’’اپنے لئے اقتدار کی طلب‘‘ کا لوث نہ لگنے پائے۔ یہ چیز بڑا مجاہدۂ نفس اور بڑا تزکیۂ قلب و روح چاہتی ہے۔
اس معاملہ میں صحیح نقطۂ نظر پیدا کرنے کیلئے دو بظاہر متماثل چیزوں کا جوہری فرق اچھی طرح ذہن نشین ہونا چاہئے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ مجموعی نظام زندگی کی تبدیلی چاہنے والا دوسری تبدیلیوں کے ساتھ سیاسی نظام کی تبدیلی چاہنے سے کسی طرح صرف نظر نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سیاسی نظام کی تبدیلی آپ سے آپ اس امر کی مقتضی ہے کہ اقتدار ان لوگوں کی طرف یا ان کی پسند کے لوگوں کی طرف منتقل ہو جو اس تبدیلی کے خواہش مند ہوں مگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے ’’اپنے لئے‘‘ اقتدار چاہنے اور اپنے اصول و نصب العین کیلئے اقتدار چاہنے میں ۔ اصول کا اقتدار چاہے عملاً اصول کے علم برداروں ہی کا اقتدار ہو، پھر بھی ’’اصول کا اقتدار‘‘ چاہنا اور اس کے علمبرداروں کا ’’اپنے لئے اقتدار چاہنا‘‘ حقیقتاً دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ جن میں روح اور جوہر کا بہت بڑا فرق ہے۔ نیت کا کھوٹ دوسری چیز میں ہے نہ کہ پہلی چیز میں ۔ اور مجاہدۂ نفس جس چیز پر مرکوز ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ پہلی چیز کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے پر بھی دوسری چیز کا ذہن میں شائبہ تک نہ آنے پائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے مجموعی نظام زندگی کو بدل کر اسلام کے اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ یہ چیز سیاسی غلبہ و اقتدار کی بھی متقاضی تھی کیونکہ دین کو پوری طرح غالب کر دینا اس کے بغیر ممکن نہ تھا اور عملاً اس جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا بھی لیکن اس کے باوجود کوئی ایمان دار آدمی یہ شبہ تک نہیں کرسکتا کہ ان کی جدوجہد کا مقصود ’’اپنا اقتدار‘‘ تھا۔ دوسری طرف اپنے اقتدار کے طالبوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اور تاریخ میں ان کو ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ دنیا میں موجود ہیں ۔ عملاً اقتدار پانے کو اگر صرف ایک واقعہ کی حیثیت سے لیا جائے تو دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں لیکن نیت کے لحاظ سے دونوں میں عظیم الشان فرق ہے۔ اس فرق پر دونوں کا کردار … جدوجہد کے دور کا کردار بھی اور کامیابی کے دور کا کردار بھی، ناقابل انکار شہادت دے رہا ہے۔
جو لوگ صدق دل سے اصولِ اسلام کے مطابق نظام زندگی کا ہمہ گیر اقتدار چاہتے ہوں انھیں فرداً فرداً بھی اس فرق کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی نیت درست رکھنی چاہئے اور ان کی جماعت کو مجموعی طور پر بھی اس امر کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ’’اپنا اقتدار چاہنے‘‘ کی نیت کسی شکل میں بھی اس کے دائرے میں جگہ نہ پاسکے۔
تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ … ترتیب: عبدالعزیز
تبصرے بند ہیں۔