کورونا بحران میں تعلیم سے دور ہوتے بچے
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کورونا وبا کی دوسری لہر نے پچھلے سال سے بھی زیادہ قہر برپا کیا ہے۔ اس نے ملک کی معیشت سے لے کر غریب کے چولہے تک کا بجٹ بگاڑ دیا۔ لوگوں کے روزگار برباد ہو گئے، یومیہ مزدوری کرنے والوں کی معیشت لگ بھگ ختم ہو گئی۔ حکومت کے ذریعہ کی جا رہی کوششیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ راحت کا بڑا حصہ راشن کارڈ اور دستاویزات کے بیچ پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ منفی اثر ملک کے نونہالوں پر پڑ رہا ہے۔ ایک طرف مارچ 2020 سے اسکول بند ہیں۔ دوسری طرف تالا بندی اور روزگار کی کمی نے غریب خاندانوں کے سامنے فاقہ کشی کے حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ اس سے ابھرا اقتصادی دباؤ نونہالوں کے ننھے ہاتھوں کو بھی کام کرنے کے لئے مجبور کر رہا ہے۔ ملک میں ان لاک ہوتے ہی کام اور بھیک مانگنے کے لئے نکلی بچوں کی بڑی تعداد اس کی گواہ ہے۔ ایسا صرف بھارت میں ہی نہیں ہے بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وبا نے دنیا بھر کے ممالک میں بچوں کی زندگی پر مزدوری کا شکنجہ کس کر مشکل بنا دیا ہے۔
نجی اسکولوں نے آن لائن تعلیم شروع کر دی اور بچے مصروف ہو گئے۔ سرکاری اسکولوں نے بھی بچوں تک پہنچنے کے کئی جتن شروع کئے جن میں محلہ کلاس اور دوردرشن موبائل کے ذریعہ پڑھانا وغیرہ شامل ہے۔ مگر یہ تجربات کامیاب نہیں ہوئے۔ بچوں کے پاس اینڈرائڈ موبائل کا نہ ہونا یا موبائل کسی بڑے کے پاس رہنا اور بچوں کی پڑھائی میں اپنی عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ تعلیم سے دور ہوتے گئے۔ ان لاک شروع ہونے پر بازار، مال، سیلون، سنیما گھر، میرج ہال، عبادت گاہیں وغیره سب کچھ کھل گیا نہیں کھلے تو اسکول۔ اسکولوں کو نہ کھولنے کے پیچھے یہ دلیل دی گئی کہ بچوں کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا دشوار ہے۔ ان کے اسکول جانے سے وبا کے پھیلنے کا خطرہ ہے۔ شروع میں والدین بھی بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن اب والدین چاہتے ہیں کہ انتظامیہ اور حکومت کورونا سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرکے اسکول کھولے۔ کیوں کہ بچوں کی تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہی نہیں ہو رہا بلکہ اسکول نہ جانے سے ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن تعلیم ریگولر تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتی۔ کیوں کہ اس طریقہ تعلیم میں بچوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر نہیں پڑھایا جاتا بلکہ سب کو یکساں طریقہ سے تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر اس نے سماج کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وہ جن کے پاس انٹرنیٹ کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں۔ دوسرے وہ جن کی ان وسائل تک محدود رسائی ہے یا پھر وہ ان سے محروم ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں ایک جیسی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ جبکہ اسکول بچوں کے درمیان اس طرح کی تفریق پیدا نہیں ہونے دیتا۔ گزشتہ دو برسوں سے کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے پیش نظر بغیر امتحان کے ہی بچوں کو پاس کیا گیا ہے۔ جن بچوں نے سال بھر دل لگا کر پڑھائی کی ہے امتحان نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوس ہوئے ہیں۔ گو کہ حکومت نے غیر مطمئن طلبہ کے لئے امتحان دینے کا راستہ نکالا ہے۔ مگر اس کا فائدہ سب بچے نہیں اٹھا پائیں گے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جس طرح آن لائن تعلیم کا نظم کیا گیا اسی طرح امتحان کا انتظام کیا جاتا۔ جن بچوں کو سہولیات دستیاب نہیں ہیں ان کے لئے حکومت سینٹر بنا کر سہولیات فراہم کرتی۔ کئی حضرات آن لائن امتحان پر یہ کہہ کر اعتراض کرتے ہیں کہ بچے گھر پر بیٹھ کر امتحان کے سوالات کا کتاب دیکھ کر جواب دے سکتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کتاب سے جواب بھی وہی تلاش کر سکتا ہے جس نے پڑھا ہوگا۔ دوسرے اس سے بچوں کو پڑھے ہوئے کو دوہرانے کا موقع مل جائے گا۔ عارضی طور پر اسکولوں کے بند ہونے سے صرف بھارت کے نہیں بلکہ 130 سے زیادہ ممالک کے ایک ارب سے زیادہ بچے اس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں۔
اب جب اسکول کھلیں گے تو کچھ خاندان بچوں کی پڑھائی کا خرچ برداشت کرنے کی صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پائیں گے۔ بچے اسکول نہیں جائیں گے تو ان کے مزدوری میں دھکیلے جانے کا امکان بڑھ جائے گا۔ کیوں کہ لوگوں کی مالی حالت پہلے سے زیادہ خستہ ہوئی ہے۔ غریب اور غریب ہو گیا ہے، اے ڈی بی کے اندازہ کے مطابق کورونا وبا کے دوران 24.2 کروڑ نوکریاں ختم ہوئی ہیں۔ جس کا سیدھا اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔ سماج اور سرکار کو اس کا کوئی پختہ حل نکالنا چاہئے۔ ورنہ سماج کا ایک بڑا طبقہ جب اسکول فیس اور آن لائن کلاس کی تیاریاں کر رہا ہوگا تو دوسرا بڑا طبقہ اپنے معصوموں کا اسکول چھڑا کر انہیں روٹی کی تلاش میں لگا چکا ہوگا۔ کیوں کہ بچہ مزدوری کی بڑی وجہ بھوک اور غریبی ہے۔ امریکی سماجی کارکن گریس ایبٹ کا کہنا ہے کہ اگر آپ بچہ مزدوری کو غریبی مٹانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو آپ بچہ مزدوری اور غریبی کے ساتھ آخر تک جئیں گے۔ بچہ مزدوری اور غریبی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بچہ مزدوری نو عمروں سے اسکول جانے کا حق چھین لیتی ہے۔ وہ نسل در نسل غریبی کے چکرویو سے باہر نہیں نکل پاتے۔ بچہ مزدوری تعلیم میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں 5 سے 14 سال عمر کے بچوں کی تعداد 260 ملین ہے، جن میں لگ بھگ 10 ملین (یعنی 4 فیصد) بچہ مزدور ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ 15 سے 18 سال عمر کے قریب 29 ملین بچے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف 2020 کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ 2000 سے 2016 کے بیچ بچہ مزدوروں کی تعداد میں 9.4 کروڑ کی کمی آئی تھی۔ پچھلے بیس سالوں میں پہلی بار پوری دنیا میں یہ تعداد بڑھتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے۔ اس میں گزشتہ چار سال میں 84 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں 5 سے 11 سال کے بچہ مزدوروں کی بڑھوتری پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ بال مزدوری مخالف مہم (سی اے سی ایل) مدھیہ پردیش کے کوارڈینیٹر راجیو بھارگو کہتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے پچھلے سال بھی بچوں کے کام پر جانے کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔ اس سال بال مزدوروں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے کا شک ہے۔ سی اے سی ایل کے 23 اضلاع (مدھیہ پردیش کے 21 ضلعے، چھتیس گڑھ کے 2 ضلعے) کے مطالعہ پر مشتمل مطابق 86 فیصد بچے کسی نہ کسی طرح کی اقتصادی سرگرمی میں ملوث پائے گئے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف کی رپورٹ میں جو شک ظاہر کیا گیا تھا وہ اب سچ ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے مطابق کووڈ 19 متعدی وبا 2022 کے آخر تک دنیا میں 90 لاکھ نئے بچوں کو بال مزدور بنا دے گی۔ جو بچے پہلے سے محنت مزدوری کر رہے ہیں ان کے کام دھندے کے حالات بھی اور زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔ سال 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ایک کروڑ ایک لاکھ بچے بال مزدوری کر رہے تھے۔ اس وقت بھارت میں بچوں کی کل تعداد 47 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ ان میں سے کتنے بال مزدوری کرتے ہیں اس کے اعداد موجود نہیں ہیں۔ عام طور پر شکایت کی جاتی ہے کہ بھارت کی آبادی میں بچوں کا تناسب 40 فیصد ہے، مگر مرکزی حکومت کے 21-2022 کے بجٹ میں ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے 2.46 فیصد کا التزام کیا گیا ہے۔ مرکز کے ساتھ بچوں کی تعلیم وترقی اور فلاح و بہبود کی ذمہ داری ریاستی سرکاروں کی بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنا فرض پوری لگن اور ایمانداری سے ادا کر رہی ہیں یا نہیں؟
بھارت کے بال مزدوری قانون میں ترمیم نے بچہ مزدوری کا راستہ صاف کیا ہے۔ قانون کے مطابق 5 سے 14 سال کے بچوں کو کسی طرح کے کام میں نہیں لگایا جا سکتا لیکن اگر وہ اپنے خاندانی کام میں مدد کر رہے ہیں تو انہیں بال مزدور کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ آئی ایل او یونیسیف کی رپورٹ کا ماننا ہے کہ بچہ مزدوری سماجی نابرابری اور بھید بھاؤ کو بڑھاوا دیتی ہے۔ بچے محنت مزدوری کے کام کرتے ہیں تو ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بال مزدوری کا غریبی سے سیدھا تعلق ہے، بچہ مزدوری پر قابو پانے کے لئے غریبی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ غریبی پر انکش لگانے کے لئے لوگوں کی آمدنی بڑھانی ہوگی۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ سیاست دان عوام کے مفاد کو ترجیح نہ دیں۔ بچوں کی بہتر نشوونما اور تعلیمی ترقی کے لئے حکومت کو جنگی سطح پر کوشش کرنی ہوگی۔ اس سے مزدوری میں لگے اور آگے آنے والے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو گا۔ اگر مرکزی و ریاستی حکومتیں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھائیں تو بچے جو ملک کا مستقبل ہیں ان کی بہتر زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔