کورونا وائرس اور کیمونٹی کلاسز
الطاف حسین جنجوعہ
گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بچوں کی وائرل ہوئی ویڈیو دیکھی جس میں ایک بچہ دوسرے کا انٹرویو لے رہا ہے۔ پنجابی زبان میں ایک بچہ دوسرے سے پوچھتا ہے کہ ’’آپ کورونا کے بارے میں کیا جانتے ہیں…؟۔ بچے نے جواب دیا’’کورونا ایک بیماری کا تہوار ہے، ہرسال مارچ ماہ میں منایاجاتاہے،بیس افراد کو کچھ نہیں کہتا، اگر 21ہوگئے تو دوڑ کے آجاتاہے،کھلی دکانوں پر دوڑ کے آجاتا ہے لیکن شراب کے ٹھیکوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں،اس کے علاوہ لیڈروں کو بھی کچھ نہیں کہتا اور اسکولی طلبا کی طرف دوڑ کے آجاتاہے، پتہ نہیں یہ کورونا کیسا بھوت ہے جوصرف اسکول میں بیٹھاہے‘‘۔ یہ مزاحیہ ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوئی ہے جس میں ایک تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے بچے نے معصومانہ سوال کیا ہے کہ کورونا کیسی بیماری ہے جس کا صرف اثراسکولوں میں ہے…؟ ویڈیو دیکھنے کے بعد ضروری سمجھا کہ اِس موضوع پر کچھ لکھ کم سے کم اپنے ضمیر کو تو تسلی دیں، باقی اِس کا اثر ارباب اقتدار کو ہوگا اِس کے آثار نہ کے برابر ہیں، ہاں ہوسکتا ہے کسی حساس دل اور باضمیر شخص کو بات چھو جائے۔
مارچ 2020سے عالمگیر مہلک وباء کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے جن میں دو سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی درس وتدریس کا نظام بحال نہ ہوسکا ہے۔ زندگی کے دیگر شعبہ جات کو معمول پر لانے کے لئے حکومتی وعوامی سطح پر جو کوششیں کی گئیں یا اقدامات اُٹھائے گئے، وہ شعبہ تعلیم سے متعلق نظر نہ آئے۔ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے شعبہ ’تعلیم ‘کو موجودہ نظام ِ حکومت نے فہرست کے آخر میں کر دیا ہے۔ کورونا کے دوران تعلیم کو جاری رکھنے ککے لئے جموں وکشمیر میں حکومت نے آن لائن کلاسز، ریڈیو کلاسزاور کیمونٹی کلاسز کا تصور دیاگیا۔ اس کے علاوہ محکمہ اسکول نے چند اُساتذہ کی مدد سے نصاب میں شامل مضامین متعلق لیکچرز تیار کروا کر اُنہیں یوٹیو ب پر ڈالا۔ ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن جموں نے لرنرز کو انسٹریکٹرز کے ساتھ جوڑنے کے لئے ہوم کلاسز، آن لائن ویڈیو کلاسز، ہفتہ وار کام کی مانیٹرنگ، ٹیلی گرام چینل وغیرہ کے اقدامات اُٹھائے، کونسلنگ ہلپ لائن نمبر’آو بات کریں‘ بھی شروع کیا گیا لیکن یہ سب کرنے کے باوجود گاؤں دیہات کے طلبا کی اکثریت تعلیم سے محروم رہی۔ آن لائن کلاسز کا فائیدہ محدود طلبا ہی اُٹھاپائے کیونکہ دور افتاد ہ گاؤں دیہات میں بیشتر طلبا وطالبات ایسے ہیں جن کے پاس موبائل فون نہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا وطالبات نے کچھ حد تک آن لائن طریقوں سے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا ۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی زیر تعلیم گیارہویں۔ بارہویں یاکالجوں میں زیر تعلیم طلبا نے کسی نہ کسی طریقے سے کچھ نہ کچھ پڑھنے سیکھنے کی کوشش کی لیکن سب سے زیادہ تعلیمی نقصان اول سے لیکر دسویں جماعت تک کے اُن بچوں کا ہوا ہے، جوسرکاری اسکولوں میں زیر ِ تعلیم ہیں۔ یہ بچے اپنے اسکول کا راستہ بھی بھول چکے ہیں اور اُنہیں یہ بھی یاد نہ رہا ہے کہ آخری مرتبہ اسکول کب گئے تھے۔
ماہرین اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کو بھی اس بات کا احساس رہا کہ یہ سارے اقدامات صرف اُنہیں طلبا تک پہنچ پائیں گے جن کے پاس سمارٹ موبائل فونز ہیں، اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ’کیمونٹی کلاسز ‘کا نظام متعارف کروایا گیا، جوکہ بہت ہی اچھا تصور ہے، جس کے تحت سرکاری ٹیچروں سے کہاگیاکہ وہ جہاں جس محلہ، وارڈ یا گلی میں رہتے ہیں، وہاں کویڈ ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے اپنے اڑوس پڑوس کے بچوں کو جمع کر کے اُنہیں پڑھائیں۔ ساتھ ہی یہ کہاگیاکہ اگر کوئی بچہ کیمونٹی کلاس میں نہیں آسکتا تو اُس کو گھر جاکر سبق بتا کر آئیں اور کام بھی دیں۔ کیمونٹی کلاسز ہورہی ہیں کہ نہیں، اس کے لئے کلسٹر ہیڈز، زیڈ ای او سطح پر وہائٹس ایپ مانیٹرنگ گروپس بھی بنائے گئے جس میں اُساتذہ سے کہاگیاکہ آپ جہاں بھی کیمونٹی کلاسز لے رہے ہیں، یا بچوں کو پڑھارہے ہیں، اُس کی تصاویر یا ویڈیوز بناکر گروپ میں اپ لوڈ کر دیں لیکن کس جذبہ کے ساتھ ٹیچروں، ماسٹروں اور لیکچرر حضرات نے کیمونٹی کلاسز لی ہیں، اُس پر تفصیلی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ٹیچرز جن کی اوسطاًتنخواہ چالیس سے 65ہزارماہانہ ہے، ماسٹرز گریڈ جن کی تنخواہ 75سے 85ہزار کے درمیان ہے، لیکچرر حضرات جوکہ لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار تک تنخواہ لیتے ہیں، نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے تو کوئی کثر باقی نہ چھوڑی لیکن جن کے عوض سرکار اُنہیں اتنی خطیر رقم دے رہی ہے، کے ساتھ وہ زیادتی ونا انصافی کی جس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ کیمونٹی کلاسز کا تصور اگر کسی مغربی ملک میں ہوتا تو سب سے کامیا ب طریقہ ِتعلیم ثابت ہوتا۔
حکومت اچھی پالیسیاں اور منصوبے تو بناسکتی ہے لیکن مزہ تو تب ہے کہ زمینی سطح پر عملی جامہ پہنایاجائے اور اِس کے لئے جذبہ، فرض شناسی، اخلاص، صدق دلی، نیک نیتی چاہئے جس کا فقدان ہرجگہ نظر آتاہے ۔ ہمارے ملک میں آپ اگر قوانین، ترقیاتی منصوبے، فلاحی پروگرام کا مطالعہ کریں گے تو آپ حیران ہوگے کہ اِس سے بہتر دُنیا کے کسی ملک میں نظام ہوہی نہیں سکتا مگر یہ قوانین، پروگرام ومنصوبے صرف کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔ قوانین وضوابط سب سے اعلیٰ مگر ’’قانون کی حکمرانی‘‘بہت کم۔ ہر نقصان کا ازالہ ہوسکتا ہے لیکن تعلیم کے نقصان کی بھرپائی مشکل ہے۔ جنوبی افریقہ کے سابقہ صدر نیلسن منڈیلہ جنہیں نوبل امن انعام، بھارت رتن، نشان ِ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے بڑے انعامات سے نوازا ہے، کا مقبول قول ہے کہ’’کسی بھی ملک وقوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم یا دور تک مار کرنے والے میزائل کی ضرورت نہیں،اِس کے لئے صرف یہ درکار ہے کہ اُس کا تعلیمی معیار کم کردیں یا طلبا کو امتحانات میں نقل کرنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہاتھاکہ تعلیم ایک طاقتور ہتھیار ہے جس سے آپ دنیا بدل سکتے ہیں۔ یہی سب تو ہم کر رہے ہیں۔
یوم ِ جمہوریہ، یوم ِ آزادی اور دیگر سرکاری تقریبات کے لئے جب طلبا کو جمع کرنے کی ضرورت پڑی تو اُس وقت کورونا پھیلا ؤیاد نہیں آیا، کثیر تعداد میں جگہ جگہ اُساتذہ نے بچوں کو گھر سے لایا۔ بڑے بڑے سیاسی جلسے، ریلیاں ہورہی ہیں، سماجی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر لوگ حصہ لے رہے ہیں، بازاروں، شہر وقصبہ جات میں لوگوں کی بھیڑ دیکھی جاسکتی ہے لیکن صرف کورونا اسکولوں میں گھس گیا ہے۔ اسکولوں میں پچاس فیصدی سٹاف کو حاضر بھی رکھاجارہا ہے، جودن بھر بیٹھے رہتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ عوامی حلقوں میں یہ باتیں بھی ہورہی ہیں کہ اساتذہ کا ایک کثیر طبقہ ایسا بھی ہے جواِس حق میں ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے نام پر اسکول بند ہی رہیں۔ پچھلے دو سالوں کے دوران جب ایک دو مرتبہ اسکول کھولنے کی کوشش بھی کی گئی تو سوشل میڈیا کا سہارا لیکر کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کے نام پر بڑا وبال کھڑا کیاگیا، جس کے درپردہ ایسے ہی عناصر تھے۔ جموں وکشمیر کی ریاستی ایگزیکٹیو کمیٹی کی طرف سے وقتاًفوقتاًکورونا ایس او پیز کے لئے گائیڈلائنز جوکہ کئی صفحات پر مشتمل ہوتی ہے، کا لمبا چوڑا فرما ن جاری ہوتا ہے، ہرشعبہ کا ذکر ہوتا ہے لیکن تعلیم کا کہیں نہیں۔ اِن سب چیزوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت تعلیمی نظام کو برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تعلیم نظام زندگی کا احاطہ کرتی ہے، ساتھ ہی معاشرے میں شعور اُجاگر کرنے اور بچوں کی اچھی تربیت میں بھی معاون ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اُس کی شرح خواندگی سے لگایاجاسکتا ہے۔ قرآن مجید میں لگ بھگ پانچ سومقامات پر حصول تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علم کی فرضیت کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ سول سوسائٹی اور مختلف تنظیموں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کو کھولنے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں، کیا ہو نہیں سکتا، کچھ بھی ناممکن نہیں، ہر طرح کی احتیاط کر کے اسکول کھولے جاسکتے ہیں، خاص طور سے اول تا آٹھویں جماعت تک اسکولوں میں درس وتدریس کا آف لائن نظام بحال کرنے کے لئے فوری اقدامات اُٹھائے جانے چاہئے۔ اگر فوری انتظامیہ ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو پھر ’کیمونٹی کلاسز ‘جوکہ ایک بہترین تصور تھا، پر سختی سے عمل کرنے کے لئے اُساتذہ کو ہدایات جاری کی جائیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے گائیڈلائنز کے عین مطابق کیمونٹی کلاسز ہورہی ہیں، متعلقہ علاقوں میں پنچ یا چند معززین کی بھی خدمات لی جائیں جن کی کڑی نظر رہے۔ کیمونٹی کلاسز نہ لینے والے اُساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ دیگر غیر ضروری کاموں میں اساتذہ کو الجھایانہ جائے۔ اُن سے صرف اور صرف درس وتدریس کا کام ہی لیاجائے اور اس میں عدم فرض شناسی کی گنجائش نہ کے برابر ہو۔ حکومت نے اگر ٹھان ہی لی ہے کہ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام کا بیڑ ا غرق کرنا ہی ہے، تو پھر سرکاری ٹیچروں کو ماہانہ دی جانے والی تنخواہ کاٹ کر ان غریب بچوں کے والدین کو دی جائے تاکہ وہ نجی طور اپنے بچوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست کرسکیں۔ یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ سرکاری اُساتذہ کی تنخواہ کے نام پر کروڑوں، اربوں روپے کی رقومات ماہانہ خزانہ عامرہ سے کیوں خرچ کی جارہی ہیں، یہ لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ ہے جووہ بلاواسطہ یا بلاواسطہ طور ادا کرتے ہیں۔ اِس خطیر رقم کو فلاح عامہ کے لئے کہیں اور خرچ کیاجائے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔