عمارہ فردوس
مفکر اسلام مولانا مودودیؒ 1903میں پیدا ہوئے۔ جس سن میں مولانا کی پیدائش ہوئی اس وقت کے حالات کی اسٹیڈی کرتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں نے مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت کو شکست دیکر سب سے پہلے تین اہم کام انجام دیے:
١۔ اسلامی شریعت کو ختم کیا۔ (صرف مسلمانوں کا پرسنل لاء رہنے دیا)
٢۔ مسلمانوں کی جائیدادوں کو سلب کیا
٣۔ نظام تعلیم کو تبدیل کیا اور ہر جگہ انگریزی نظام مسلط ہوگیا۔
حالات کی یہ سنگینی ایک طرف تھی تو دوسری جانب مسلمانوں کے سر پر کئی خطرات بھی منڈلا رہے تھے، بہت سے نئے فتنوں نے جنم لیا، کہیں فتنہ قادیانیت نے سر اٹھایا تو کہیں منکرین حدیث کا فتنہ، کہیں الحاد کا فتنہ تو ساتھ ہی اشتراکیت کا فتنہ، شدھی کرن کی تحریک نے بھی اسی دوران سر اٹھایا اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو بچانا مشکل ہوگیا۔ ایسے حالات میں جو شخصیتیں دینی و ملی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں پیش پیش تھیں، ان میں مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر کا نام نمایاں ہے، ساتھ ہی علامہ اقبالؒ بھی اپنے مایہ ناز فکری اثاثہ کو ضبط تحریر کرکے، ملت کی فکری و نظریاتی رہنمائی میں مصروف عمل تھے۔ ۔ ۔ انھیں شخصیتوں کی کاوشوں نے مولانا مودودیؒ کے جذبات کو مہمیز کیا۔
اس زمانے میں شدھی کرن کی تحریک کے روح رواں سوامی شردھا نند نامی ایک شخص کو ایک مسلمان نے بڑھ کر قتل کردیا، اس قتل کے بعد مسلمانوں کو بدنام کیا جانے لگا، اس پر مولانا محمد علی جوہر نے خطبہ جمعہ کے دوران یہ فرمایا کہ، کاش کوئی اٹھے، اور اسلام کے صحیح تصور جہاد کو رقم کرے۔ اس صدا پر لبیک کہنے والے نوجوان مولانا مودودی تھے، جس نے محض ٢٣ سال کی عمر میں سن ١٩٢٦میں” الجہاد فی الاسلام” ایک معرکۂ آراء کتاب لکھی، جسمیں جہاد کے قرآنی تصور کو بیان کیا۔ یہیں سے مولانا کی انقلابی زندگی کا آغاز ہوا۔ سن ١٩٣٢سے ١٨٣٨ یہ پانچ سال کا دورانیہ مولانا مودودی کی زندگی کا اہم دور ہے، جسمیں مولانا کی ولولہ انگیز صدا ترجمان القرآن کے نام سے شروع ہوئی۔ اس میگزین کو اول دن سے بلا مبالغہ مولانا کی فکری بنیاد یا عظیم مشن کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اپنے مجلہ ترجمان القرآن میں مولانا نے ایک مضمون لکھا جسکا عنوان تھا "دیوانوں کی ضرورت”اسمیں ایک ایسی اجتماعیت کی ضرورت کو واضح کیا جو اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہو۔ اور اسکی پہلی کڑی ادارہ دار الاسلام کا قیام ہے، (١٩٣٨)تحریک دارالاسلام میں چار لوگ رفیق کار بنے ۔ مولانا صدر الدین اصلاحی، چودھری نذیر صاحب، وغیرہ (دو لوگوں کے نام تلاش کے باوجود نہ مل سکے)اسی دورانیہ میں مولانا مودودی کی ملاقات علامہ اقبال سے ہوئی اور دونوں کی گفتگو کا حاصل کچھ اسطرح ہے مفکر اسلام علامہ اقبال ؒنے مولانا مودودی سے دوران گفتگو ایک ایسی اجتماعیت کی ضرورت کو ظاہر کیا، جو خالص اسلام کی ترجمان ہو،کیونکہ مسلم لیگ کے نام پر تشکیل پانے والی اجتماعیت اسلام کی ترجمان نہیں بن سکتی تھی۔ گویا اس گفتگو کا لب لباب یہی تھا کہ کسی اسلامی تحریک کی بنیاد ڈالی جائے۔ چنانچہ اس ملاقات کے بعد مولانا مودودی نے ایک کتاب "مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش”کے عنوان سے لکھی، جسمیں ایک اسلامی تحریک کی ضرورت کو ظاہر کیا۔ اس کتاب میں درج اس ضرورت کو جن اشخاص نے قبول کیا انھوں نے ترجمان القرآن کے دفتر میں اپنے اپنے خطوط مولانا مودودی کے نام روانہ کیے۔ اور اس پر اپنی شمولیت کا عندیہ ظاہر کیا۔ چنانچہ ترجمان القرآن کے پرچہ میں یہ اعلان جاری کیا گیا کہ 25اگست سن 1941۔ یکم شعبان کو اس تحریک کا آغاز کرنے کیلیے ایک اجتماع کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
اہل جنوں کی آمد:
25 اگست یکم شعبان کو پچھتر افراد ہندوستان کے گوشے گوشے سے اسلامیہ پارک لاہور کی مبارک مسجد کے سامنے ترجمان القرآن کے دفتر میں جمع ہوئے۔ (تاسیس ارکان کی ساری فہرست دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودی کے غیر معمولی اثرات پورے ہندوستان پر مرتب ہوچکے تھے۔ ) اس دن ہر ایک نے اپنا تعارف دیا، اور تحریک سے متعلق تبادلۂ خیال ہوا۔
26 اگست دو شعبان کو لوگ پھر اجتماع گاہ میں جمع ہوئے۔ مولانا مودودی کے ایک تاریخی خطاب سے اجتماع کا آغاز ہوا۔ خطاب سے پہلے مولانا نے اجتماع کے پس منظر کو واضح کیا جو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا نے کہا کہ اسطرح آج آپ لوگوں کا جمع ہونا، کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، کہ ایک زور دار موج اٹھی، اور جمع ہوگئی، بلکہ یہ میری تیرہ سالہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جو میں نے ترجمان القرآن کے نام سے شروع کی تھی۔ اس جملے کے اندر مولانا کے سچے خوابوں کی تعبیر ہے، ایک موج کے دریا بننے کی طاقت کا پیغام ہے، اور آج ٨٠ سال ہوئے یہ دریا رواں دواں ہے۔ جو 26؍اگست 1941کو لاہور کے اس تأسیس اجلاس سے بہہ نکلا۔ آج بھی اس میں اٹھنے والی ہر موج مثالی، اور ہر لہر سوز دروں سے بلند فوارہ بننے کی طاقت رکھتی ہے۔ الحمدللہ۔
راہ دشوار، سحر دور گھنی شب لیکن
قافلے ٹہرے، نہ قدموں کی صدا ٹہری ہے
یہ نظریاتی تحریک ان شاءاللہ اپنے قول و عمل سے اسلام کی ترجمان بنکر ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گی۔ قابل مبارک ہیں وہ لوگ جو اس عظیم قافلے کے شریک ہیں اور جنھیں اس بات کا استحضار ہمیشہ رہتا ہوکہ ہمیں ایک بھاری ذمہ داری کا حق ادا کرنا ہے۔
بانی جماعت نے جماعت کی تاسیس کے دن اپنی ایک اہم تقریر میں فرمایا:
"جماعت کے ارکان کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک بہت بڑا دعویٰ لیکر بہت بڑے کام کے لیے اٹھ رہے ہیں۔ اگر ان کی سیرتیں ان کے دعوے کی نسبت سے اس قدر پست ہوں کہ نمایاں طور پر ان کی پستی محسوس ہوتی ہوتو وہ اپنے آپ کو اور اپنے دعوے کو مضحکہ بنا کر رکھ دیں گے، اس لیے ہر شخص کو، جو اس جماعت میں شامل ہو،اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنا چاہیے۔ ‘‘ (روداد جماعت اسلامی حصہ اول،صفحہ نمبر 25)
26؍اگست جماعت کا یوم تاسیس ہے اور ساتھ ہی ہمارے ارادوں کی تجدید عہد کا بھی دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ :
اس عشق و جنوں کے قصہ کی تفصیل ابھی تو باقی ہے
کچھ اور سفر کرنا ہے ہمیں تکمیل ابھی تو باقی ہے
مآخذ و مصادر
تبصرے بند ہیں۔