افتخار راغبؔ
کہا میں نے مری آنکھوں میں پانی ہے
جواب آیا محبت کی نشانی ہے
…
کہا میں نے لگی دل کی بجھانی ہے
جواب آیا یہ آتش جاودانی ہے
…
کہا میں نے کھِلیں گے کب وفا کے پھول
جواب آیا ابھی موسم خزانی ہے
کہا میں نے کہ ہر لمحہ سسکتا ہوں
جواب آیا کہ الفت تو نبھانی ہے
…
کہا میں نے ستم اتنا نہیں اچھّا
جواب آیا محبت آزمانی ہے
…
کہا میں نے متاعِ زیست یعنی توٗ
جواب آیا یہاں ہر چیز فانی ہے
…
کہا میں نے کہ اِتنے کیوں گریزاں ہو
جواب آیا تمھاری مہربانی ہے
…
کہا میں نے کہ دیکھ اِن سرخ آنکھوں میں
جواب آیا محبت آسمانی ہے
…
کہا میں نے خموشی مار ڈالے گی
جواب اُن کا مکمل بے زبانی ہے
…
کہا میں نے مری غزلوں کی جاں ہو تم
جواب آیا تمھاری خوش گمانی ہے
…
کہا میں نے محبت محورِ ہستی
جواب آیا بلائے ناگہانی ہے
…
کہا میں نے سناؤ حالِ دل راغبؔ
جواب آیا بہت لمبی کہانی ہے
تبصرے بند ہیں۔