انا کی قید سے نکلوں، وفا کو عام کروں 

جمیل اخترشفیق

انا کی قید سے نکلوں، وفا کو عام کروں

گلے وہ بڑھ کے لگائیں تو احترام کروں

میں جان بوجھ کےاُس شخص سےنہیں ملتا

وہ چاہتا ہے کہ میں ہی اُسے سلام کروں

سنا ہے آپ بڑے اِس کے، اُس کے عادی ہیں

حضور حکم اگر ہو تو انتظام کروں؟

بچھی ہوئی ہیں نگاہیں طواف کرنے کو

تمہارے واسطے کیا کیا میں اہتمام کروں؟

ضرور اس میں کوئی راز ہوگا پوشدہ

وہ چاہتا ہے کہانی کا اختتام کروں

مجھے ہے اُن سے محبت تو اس کا کیا مطلب؟

وہ جیساچاہتے ہیں میں بھی ویسا کام کروں؟

غرور اتنا ہے اُس میں کہ کہہ رہا ہے شفیق

نظر جھکا کے تُو رکھنا اگر کلام کروں

تبصرے بند ہیں۔