انا کی قید سے نکلوں، وفا کو عام کروں
جمیل اخترشفیق
انا کی قید سے نکلوں، وفا کو عام کروں
گلے وہ بڑھ کے لگائیں تو احترام کروں
…
میں جان بوجھ کےاُس شخص سےنہیں ملتا
وہ چاہتا ہے کہ میں ہی اُسے سلام کروں
…
سنا ہے آپ بڑے اِس کے، اُس کے عادی ہیں
حضور حکم اگر ہو تو انتظام کروں؟
…
بچھی ہوئی ہیں نگاہیں طواف کرنے کو
تمہارے واسطے کیا کیا میں اہتمام کروں؟
…
ضرور اس میں کوئی راز ہوگا پوشدہ
وہ چاہتا ہے کہانی کا اختتام کروں
…
مجھے ہے اُن سے محبت تو اس کا کیا مطلب؟
وہ جیساچاہتے ہیں میں بھی ویسا کام کروں؟
…
غرور اتنا ہے اُس میں کہ کہہ رہا ہے شفیق
نظر جھکا کے تُو رکھنا اگر کلام کروں
تبصرے بند ہیں۔