کیا اسلام کا تصور نماز اور دیگر ابراہیمی مذاہب صبائیت سے نقل کیے گئے ہیں؟
ڈاکٹر احید حسن
مندائیہ مذہب یا صبائیت ایک مذہب ہے جو ایک بار قدیم عراق اور عرب کے کچھ علاقوں میں وسیع پیمانے پر موجود تھا.اسلام میں صبائیت کی اصطلاح کو بہت سے مذاہب کے احکامات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے،جس میں مندایہ بھی شامل ہیں۔بعض اوقات مندایہ یا صابیوں کو سینٹ جان( جو کہ عیسائی مذہب کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں میں سے ایک تھے) کے پیروکار عیسائی بھی کہا جاتا ہے۔یہ لقب 16 ویں صدی عیسوی کے دوران بصرہ میں عیسائی صوفی سلسلے کارملی کے ارکان کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹوں پر مبنی ہے.[1]یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ صابی بذات خود ابراہیمی مذاہب سے متاثر ہیں نہ کہ ابراہیمی مذاہب جیسا کہ اسلام صبائیت سے کیونکہ تمام ابراہیمی مذاہب یعنی یہود یت،عیسائیت اور اسلام کی بنیادی تعلیمات مشترک ہیں کیونکہ یہ مذاہب ایک ہی خدا کی طرف سے بھیجے گئے۔ مندائیہ کائنات کی خدا کی طرف سے تخلیق پہ یقین رکھنے والا مذہب ہے جو اب یہودیوں اور عیسائیت دونوں سے سخت اختلاف رکھتا ہے[2] لیکن اس کی بنیادی تعلیمات یہودیت اور عیسائیت سے کافی مشابہت رکھتی ہیں۔
غناسیت یا ادریت یہودی اور عیسائی ماحول میں پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں پنپنے والے قدیم مذاہب کا جدید نام ہے.یہ نظام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مادی دنیا کو سب سے بلند خدا کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے جس نے انسانی جسم میں الٰہیاتی چمک ودیعت کردی ہے. اگرچہ یہ مذہب ابراہیمی مذاہب( یہودیت، عیسائیت اور اسلام) سے بعض اختلافات جیسا کہ ختنے کی ممانعت رکھتا ہے لیکن یہ مذہب کئ صورتوں میں ابراہیمی مذاہب سے بہت متفق ہیں لیکن مندایہ تلمود اور بائبل میں مذکور روح القدس کو ایک بری ہستی شمار کرتے ہیں۔ ملحد محققین کا دعوی ہے کہ اسلام اور دیگر ابراہیمی مذاہب ان ادریت پرست مذاہب جیسا کہ صبائیت سے نقل کیے گئے ہیں۔. لیکن یہ مکمل طور پر غلط ہے اور ہم اس مضمون میں اس کی تفصیل سے وضاحت بیان کریں گے.
حقیقت یہ ہے کہ صبائیت یا مندایہ مذہب خود دو اور ابراہیمی مذاہب یعنی یہودیت اور عیسائیت سے نقل کیاگیا تھا. لہذا اگر اسلام اس مذہب کے ساتھ کچھ مشابہت رکھتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ صبائیت یہودیت اور عیسائیت جیسے انہی ابراہیمی مذاہب سے نقل کی گئی ہے جو اسی خدا کی طرف سے نازل کیے گئے جس خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے ساتھ مبعوث کیا۔لہذا یہ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مبعوث کرنے والے خدا ہی کی تعلیم تھی جس سے صبائیت نقل کی گئی نہ کہ اسلام اور دیگر ابراہیمی مذاہب صبائیت سے نقل کیے گئے۔ یہ ایک وہ حقیقت ہے جس کو سبط حسن اور علی عباس جلال پوری ملحد محققین اپنی مذہب دشمنی اور تعصب میں سراسر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں قرآن مجید میں صبائیت کا ذکر دیگر اہل کتاب یعنی کہ یہود اور عیسائیوں کے ہمراہ کیا گیا ہے،ان کو اہل کتاب میں شمار کیا جاتا ہے اور کئ احادیث میں ان کا ذکر موجود ہے. بعض محققین کے ساتھ ساتھ خود مندایہ مذہب کے پیروکار یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مذہب کی بنیاد عیسائیوں سے پہلے زمانے کی ہے [3] لیکن زیادہ تر محققین کے مطابق مندائیہ کی اصل تاریخ پہلی تین صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے [4] ۔زیادہ تر محققین کے مندائیہ مذہب پہلی تین عیسوی صدیوں میں میسوپوٹیمیا یا قدیم عراق میں پیدا ہوا.[5]
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ وہ نباطیوں سے تعلق رکھتے ہیں جو قبل از اسلام کے مظاہر پرست عرب تھے. بہت سے محققین نے صبائیوں کو مندائیہ تسلیم کیا ہے.[6]کچھ محققین جیسا کہ کرٹ روڈولف نے ابتدائی مندائیہ کو یہودیوں کے نسوری فرقے کے ساتھ منسلک کیاہے.[7]ممکن ہے کہ مندائیہ یہود کی تفریق بندی میں پیدا ہوئے جب وہ تورات سے دستبردار ہوگئے جب کہ دیگر بنیادی یہودی تورات سے وابستہ رہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ 500 ء کے بعد ہوا۔مسلم مصنفین کے مطابق صابی ابراہیمی روایت کی دوسری کتاب زبور کی پیروی کرتے ہیں.قرآن کے مطابق یہ کتاب قدیم اسرائیل کے نبی اور بادشاہ حضرت داؤد علیہ السلام کو دی گئی تھی. ,بہت سے جدید علماء زبور کو مناجات کی کتاب کے طور پر شناخت کرتے ہیں. ان کے بارے میں جو معلوم ہے ،اس میں سے بیشتر ابن وحشیہ کی کتاب نباطی زراعت یا Nabatean سے آیا ہے جو 904ء میں شامی ذرائع سے ترجمہ کی گئی.
البرونی نے گیارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں کہا کہ حقیقی صابی وہ یہودی تھے جو باقی یہودیوں کی سائرس اعظم کے زمانے میں واپس یروشلم کی طرف ہجرت کے بعد بابل میں رہ گئے تھے۔ES Drower (1937) کے مطابق ان باقی یہودی قبائل نے زرتشت کے پیروکاروں اور یہودیوں کی تعلیمات کے ملاپ پہ مبنی ایک نظام کو اپنایا.[8]دیگر قدیم عربی ذرائع میں ابن الندیم (پیدائش 987ء) کی فہرست شامل ہیں جس کے مطابق جنوبی میسوپوٹیمیا یا قدیم عراق میں صابیوں کا ایک فرقہ موجود ہے جو الکیسائی کو اپنا بانی مانتے ہیں[9]۔
تقریبا 1290ء میں ایک تعلیم یافتہ عیسائی ریکولڈو پینینی، نے میسوپوٹیمیا یا قدیم عراق میں مندائیہ سے ملاقات کی تھی. اس نے انہیں مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا: اپنی روایات کے لحاظ سے بہت عجیب اور الگ تھلگ لوگ بغداد کے قریب صحرا میں رہتے ہیں؛ انہیں صابی کہا جاتا ہے. ,ان میں سے بہت سے لوگ میرے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ جانے کے لۓ اصرار کیا۔ وہ بہت سادہ لوگ ہیں اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس خدا کا ایک خفیہ قانون ہے، جوان کے پاس خوبصورت کتابوں میں محفوظ ہے.ان کی تحریری شامی اور عربی کے درمیان درمیان ہے. وہ ختنہ کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دشمنی رکھتے ہیں اور وہ حضرت یحیٰی علیہ السلام کو سب سے افضل گردانتے ہیں. وہ صرف صحرا میں کچھ دریاؤں کے قریب رہتے ہیں. وہ دن اور رات غسل کرتے ہیں ہیں تاکہ خدا کی طرف سے مذمت کا شکار نہ ہوں …[10] مندائیہ یا صابی کئ پیغمبروں پہ ایمان رکھنے والے ہیں۔
مندائیہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اپنے مذہب کے بانی کے طور پہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کو سب سے افضل گردانتے ہیں اور ان کے مطابق ان کی تعلیمات حضرت آدم علیہ السلام تک۔پہنچتی ہیں۔ اسی طرح، مندائیہ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور موسی علیہ السلام نعوذ بااللہٰ جھوٹے نبی تھے، لیکن ابراہیمی مذاہب کی دیگر مقدس شخصیات جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے پوتے حضرت ادریس علیہ السلام،حضرت نوح (ع) اور ان کے بیٹوں سام اور آرام پہ ایمان رکھتے ہیں۔ ان میں سے آخری تین کو وہ براہ راست اپنا جد امجد سمجھتے ہیں۔ کچھ محققین اس بات پہ اتفاق کرتے ہیں کہ یہ لوگ شاید صوبیائی ہیں جن کو یہودیت اور عیسائیت سے متاثرہ الکیسائی نے فارس میں تبلیغ کی۔ڈینیل چولسن (1856) کے مطابق، وہ اصل یہودیوں سے قریبی تعلق رکھنے والے السیسائی ہیں جن سے پیغمبری کے فارسی دعویدار مانی کی ابتدا ہوئی ۔الخلیل ابن احمد (وفات 786-787 عیسوی)، جو اپنی موت سے قبل بصرہ میں تھے، نے لکھا: صابیوں کا خیال ہے کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام سے تعلق رکھتے ہیں، وہ زبور پڑھتے ہیں اور ان کا مذہب عیسائیت کی طرح لگتا ہے.
حران کے صابیوں نے ہرمیز ٹریسمیگسٹس کو اپنا نبی تسلیم کیا ہے جن کی ایک نبی کے طور پر توثیق قرآن میں (19.57 اور 21.85) میں ہے جہاں ان کی حضرت ادریس علیہ السلام کے طور پر آئی ہے[11]صابیوں کا تذکرہ بہائی مذہب میں بھی موجود ہے۔یہ حوالہ عام طور پر مختصر ہے جس میں صابیوں کے دو گروہوں کی وضاحت کی گئی ہے: وہ جو ستاروں کے نام پر بتوں کی عبادت کرتے ہیں،اور دوسرے وہ جن کا یقین ہے کہ ان کا مذہب حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام سے حاصل کیا گیا ہے اور دوسروں وہ ہیں جو حضرت زکریاہ علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام پہ ایمان رکھتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پہ یقین نہیں رکھتے۔ کچھ اہل علم نے حضرت شیث علیہ السلام کوآدم کے بیٹوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا ہے.[12] بہاؤاللہٰ نے ایک تختی میں ہرمیز کو حضرت ادریس علیہ السلام کے طور پہ شناخت کیا ہے لیکن ان کی صابیوں کے پیغمبر کے طور پہ تصدیق نہیں کی.[13]
مندائیہ یا صابیوں کی مقدس کتاب Ginza Rba کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے – جینزہ Smāla یا بائیں Ginza اور جینزہ یمینہ یا دائیں Ginza. ,بائیں جینزا کے سرورق کو مدنظر رکھتے ہوئے جان سی بکلے نے نے س کتاب کو نقل کرنے والوں کا ایک متصل سلسلہ معلوم کیا ہے جو کہ دوسری یا تیسری صدی رہی تک چلتا ہے۔ کتاب کے سرورق پہ کی گئی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مندائیہ یا صابی ایران کی ارساسی سلطنت( Arsacid empire) کے آخری دنوں میں موجود تھے جو 247 قبل مسیح سے 224ء تک قائم رہی۔ اس کی تصدیق حران کی کچھ داستانوں سے بھی ہوتی ہے جس کا کہنا ہے کہ مندائیہ یا صابیوں نے پہلی صدی عیسوی میں یروشلم کی تباہی کے بعد فلسطین کو چھوڑ دیا اور ایرانی سلطنت میں میسوپوٹیمیا یا قدیم عراق میں مقیم ہوگئے جو ان دنوں ایران کے زیر قبضہ تھا۔اس کا مطلب یہی ہے کہ صابی بذات خود ابراہیمی مذاہب کی ایک شاخ ہیں جو گمراہ ہوگئے اور ابراہیمی مذاہب کی تعلیمات میں مظاہر پرستی جیسا کہ ستاروں کی پوجا شامل کر بیٹھے۔
بعض محققین کا یہ خیال ہے کہ یہ صابی وہ ہیں جن کو آج کل مندائیہ کہا جاتا ہے جبکہ دوسروں کا یہ خیال ہے کہ ‘صابیون’ کے جڑ لفظ کی اصطلاح یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ شامی لفظ صابین سے نکلا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ مندائیہ مذہب کا آغاز ان صابیوں سے شروع ہوا جو ابتدائی یونانی مشنریوں کے زیر اثر آئے تھے لیکن انہوں نے اپنا مذہبی سلسلہ جاری رکھا، صابیوں کا خیال تھا کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام سے تعلق رکھتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے محققین نے صابیوں کو مندائیہ یا حرانیوں کے طور شناخت کیا ہے۔ جاکیو ہیمین اکیلا(2002،2006ء) نے یہ معلوم کیا ہے کہ جنوبی عراق کے دلدلی علاقوں میں مندائیہ مذہب کی ایک مسلسل روایت موجود تھی، اور یہ کہ صابیوں کا ایک دوسرا مظاہر پرست مرکز دسویں صدی کی اسلامی دنیا میں حران میں واقع تھا.[14] عراق میں مبنی جدید لوگوں کا ایک گروہ خود کو صابی کہلاتا ہے اور خود کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا پیروکار بتاتا ہے.[15]
اگر مندائیہ یا صابیوں کے بارے میں اوپر پیش کردہ ساری تفصیل پہ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صابی بذات خود اہل کتاب یعنی یہود کا ایک فرقہ ہیں جن کی تعلیمات دیگر مذاہب کی تعلیمات میں گڈ مڈ ہوکر تبدیل ہوگئیں۔خود صابیوں کا خود کو حضرت نوح علیہ السلام،حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور زبور کا پیروکار بتانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ مذہب بذات خود حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد میں موجود حضرت یحییٰ علیہ السلام اور دیگر پیغمبروں کی تعلیمات سے متاثر ہوا اور ان پیغمبروں کی تعلیمات وہی تھیں جو کہ اسلام کی ہیں۔ لہٰذا اگر صبائیت اور اسلام میں کچھ باتیں مشترک ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام صبائیت سے نقل کیا گیا بلکہ صبائیت خود ان پیغمبروں سے نقل کی گئی جو کہ اسلام کے برگزیدہ پیغمبر ہیں اور صبائیت اور اسلام کے درمیان مشابہت کی یہی وہ وجہ ہے جس کو سبط حسن اور علی عباس جلال پوری جیسے ملحد محققین سراسر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اندھے ہوکر عوام کو یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نعوذ بااللہ صبائیت سے نقل کیا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صبائیت خود یہود اور ان کے برگزیدہ ان پیغمبروں سے نقل کی گئی ہے جن کی تعلیمات وہی تھیں جو اسلام کی ہیں اور اللٰہ تعالٰی ہی سب سے بہتر جانتا ہے۔
ھذا ما عندی۔ واللٰہ اعلم بالصواب۔ الحمدللٰہ
حوالہ جات:
1:Edmondo, Lupieri (2004). "Friar of Ignatius of Jesus (Carlo Leonelli) and the First "Scholarly” Book on Mandaeaism (1652)”. ARAM Periodical. 16 (Mandaeans and Manichaeans): 25–46. ISSN 0959-4213.
2:Buckley, Jorunn Jacobsen (2002), The Mandaeans: ancient texts and modern people(PDF), Oxford University Press,ISBN 9780195153859
3:Etudes mithriaques 1978 p545 Jacques Duchesne-Guillemin "The conviction of the leading Mandaean scholars – E. S. Drower, Kurt Rudolph, Rudolph Macuch – that Mandaeanism had a pre-Christian origin rests largely upon the subjective evaluation of parallels between Mandaean texts and the Gospel of John.”
4:https://www.britannica.com/topic/Mandaeanism Mandaeanism
5:https://www.britannica.com/topic/Mandaeanism
6:Churton, Tobias (9 September 2009). The Invisible History of the Rosicrucians. Inner Traditions / Bear & Co. p. 107.ISBN 9781594779312.
7:Rudolph 1978, p. 4
8:Extracts from Ethel Stefana Drower, 1937, Mandaeans of Iraq and Iran
9:Daniel Chwolson, Die Ssabier und der Ssabismus (Sabians and Sabianism), 1856, I, 112; II, 543, cited by Salmon
10:”The Mandaeans: True descendents of ancient Babylonians”. Nineveh.com. Retrieved 2011-12-17.
11:(Churton p. 27)
12:’Abdu’l-Bahá (1982) [1912]. The Promulgation of Universal Peace (Hardcover ed.). Wilmette, Illinois, USA: Bahá’í Publishing Trust. p. 365. ISBN 0-87743-172-8.
13:Bahá’u’lláh (1994) [1873–92]. Tablets of Bahá’u’lláh Revealed After the Kitáb-i-Aqdas. Wilmette, Illinois, USA: Bahá’í Publishing Trust. p. 152. ISBN 0-87743-174-4.
14:Jaakko Hämeen-Anttila in Ideologies as intercultural phenomena p90, ed. Antonio Panaino, Giovanni Pettinato, International Association for Intercultural Studies of theMELAMMU Project, 2002
15:”Sabian sect keeps the faith”, USA Today,27 September 2007
تبصرے بند ہیں۔