کیا اویسی حقیقت میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے لیے سنجیدہ ہیں؟

ڈاکٹر عمیر انس

کوئی چار سال پہلے ایک دوست نے مشورہ مانگا کہ اسے اُتر پردیش میں اسد الدین اویسی کی پارٹی کی ایک زمہ داری کی پیشکش ہے، کیا کریں؟ میں نے کہا سیاسی خودکشی کے اتنے سستے طریقے کی بجائے کچھ اور کریں، خیر سے وہ آج محفوظ ہیں، لیکن انہونے کہا ہمیں لگتا تھا آپ اویسی کی سیاست کے بارے میں کبھی ایسا نہیں کہیں گے، آپکو کیا غلط لگتا ہے انمیں؟ میں نے جن نقاط پر ان سے ہی استفسار کیا اور جس سے وہ مطمئن ہو گئے شاید آج مولانا مدنی کی بات سے بھی مطمئن ہوں جائیں، اگرچہ مولانا نے قدرے سختی سے یہ بات کہ دی ہے۔

اول، کیا اویسی حقیقت میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے لیے سنجیدہ ہیں؟ اگر ہیں تو انکی سیاسی تحریک کہاں ہے، انکا سیاسی ایجنڈا کیا ہے، مسلمانوں کو سیاسی طور طاقتور بنانے کا انکا پروگرام کیا ہے؟ اویسی خاندان کا یا اویسی کا چیر لیڈر بننے میں اور سیاسی تحریک کا کارکن بننے میں فرق ہے، ابھی تک اویسی پورے ملک میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت کے لیے سنجیدہ نہیں ہوئےہیں، اگر سنجیدہ ہوتے تو اسکا سب سے پہلا اثر انکی سیاسی جماعت میں سیاسی تحریک والی ضروری تبدیلیاں اب تک واقع ہو چکی ہوتیں،  اویسی نے ڈری سہمی اور کمزور مسلم مذہبی قیادت کی خموشی اور کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے اور زیادہ تیز آواز میں بول کر مایوس مسلمانوں کو ایک جذباتی تسلّی دی ہے، لیکن زیادہ بولنے کے علاوہ ایک تحریک  کو کم بولنے اور دوسرے مسلم رہنماوں کی سننے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

دوم، کیا اسد الدین اویسی صاحب کے اندر ایسی صلاحیت ہے کہ وہ مسلمانوں کے ملک گیر رہنماء بن جائیں؟ بلکل یقیناً ہیں لیکن میرا مشاہدہ یہ ہےکہ اویسی خود کی حیدراباد سیاست کو مضبوط بنائے رکھنے، اپنے حیدراباد بیس کو باقی رکھنے میں ہی بنیادی طور پر فکر مند ہیں، اور حیدرآباد میں اپنے مفادات کے لیے وہ پورے ملک کے مسلمانوں کے مفادات کو اکثر نظر انداز کرتے رہے ہیں، اس معاملے میں مولانا مدنی کی تشویش بیجا نہیں ہیں۔

سوم، کیا اویسی کو اپنی مجلس اتحاد المسلمین کو پورے ملک میں پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے؟ نہیں بلکل نہیں، مجلس کی سیاست پوری طرح سے حیدرآبادی ہے، اسکا خمیر ہی مقامی ہے، اسکی زبان مقامی ہے، اسکی اپیل بھی بریانی کلب کی ہے، اگر اویسی سنجیدہ ہیں تو انہیں مجلس کو حیدرآباد میں محدود رکھنا چاہیے اور انہیں ہر ریاست کے لیے الگ الگ سیاسی جماعت بنانی چائیے، ملکی سطح پر صرف ایک ہی سیاسی پارٹی کے حق میں مجھے اندیشہ ہے کہ وہ نقصان دہ زیادہ ہے، اس معاملے میں ویلفئر پارٹی کے بارے میں بھی میرا یہی خیال ہے،  مسلمان بنیادی طور پر مقامی اور  علاقائی سیاسی قوت ہیں، وہ ملک گیر سیاسی قوت بحیثیت  ایک پارٹی کبھی نہیں بن سکتے، الگ الگ مسلم پارٹیوں کا اتحاد ہی اس خلا کو پر کر سکتا ہے۔

اس اعتبار سے مولانا محمود مدنی کی گفتگو اویسی صاحب کے لیے ایک مخلصانہ مشورہ ہے، یہ تقریر جس جگہ کی گئی ہے مولانا نے اسکا خیال رکھتے ہوئے انداز بیان اختیار کیا ہے لیکن مولانا کے مقصد کلام پر مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور ضرور کرنا چاہیے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔