بدلتے روپ

روبینہ تبسم

جب مسجد میں بیٹھے مؤذن توبہ توبہ اور مولوی لا حول پڑھنے لگتے ۔۔۔منڈیر پر بیٹھے کوے کائیں کائیں کرنے لگتے، گوریّا سہم کر فضا میں اڑ جاتی۔۔۔ عورتیں گھروں میں اپنے بچوں کے کانوں پر ہاتھ رکھ دیتیں۔۔۔ تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا کہ لنگڑی بڑھیا نے گالیوں کے بارود چھوڑے ہیں۔ بارود۔۔۔؟ ہاں بارود ہی سمجھو کیونکہ یہ گالیاں جہنم کی دہکتی ہوئی آگ کی لپٹوں میں لپٹی ہوتیں۔ یہ اس کی پوپلے منہ سے اس طرح نکلتیں جیسے تندور میں آگ کے شعلے لپکتے ہیں۔۔۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی ان گالیوں کے پیچھے بڑھیا کی وہ چڑھ تھی جس سے گاؤں کا بچہ بچہ واقف تھا۔

ہوا یوں کہ اسلم بنیے کی دکان سے نکل کر وہ اپنے تینوں قدموں سے تیز تیز گھر کی جانب رواں دواں تھی۔ خیال بار بار مٹھی میں دبی کاغذ کے ٹکڑے میں لپٹی چٹ پٹے مصالحہ دار نمکین کی طرف چلاجاتا اور زبان گیلی ہوکر ہونٹ تک آخر کار رہا نہیں گیا اور اس نے اپنی طے شدہ بات کہ ’’گھر جاکر آرام سے سب سے چھپ کر مزے لے لے کر کھاتی‘‘ پرے ہٹایا اور اسکول کے سامنے بنے ہوئے چبوترے پہ بیٹھ کرنمکین پر ہاتھ صاف کرنے لگی۔ اس کی عقاب جیسی آنکھیں دور سے ہی کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ لیتیں۔ حتی کہ وہ کسی بچے کو کھاتے ہوئے دیکھتی تو بہلا پھسلا کر حاصل کرلیتی۔ شاید یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جس میں انسان از سر نو بچہ بن جاتا ہے اور زبان ڈبل چٹوری ۔۔۔ کھانے کا عمل جاری ہی تھا کہ اتنے میں اسکول کی گھنٹی بجی اور بچے دھڑا دھڑ شور مچاتے ہوئے ایک دوسرے پر گرتے پڑے اس طرح گیٹ سے باہر نکلے جیسے مرغیاں ڈربے سے کٹ کٹ کٹاک کی آوازیں اور اپنے پنکھ کو جھاڑتی ہوئی تیزی سے نکلتی ہیں۔ اکثر بچے جلدی میں بڑھیا کے وجود سے بے خبر گھر کی جانب چل دیے۔۔۔ لیکن۔۔۔ کچھ شرارتی آزاد منش بچوں نے بڑھیا کو دیکھ لیا اور دیکھتے ہی ان کے چہروں پر شرارتی مسکراہٹ عود آئی۔ بس پھر کیا تھا ’’لنگڑی بڑھیا کڑے کڑے‘‘ ’’ٹرینیا الٹ گئی‘‘ کی تابڑ توڑ آواز یں بڑھیا کی کانوں میں گرم سیسے کی طرح پڑنے لگیں۔ کان سانپ کے پھن کی طرح کھڑے ہو گئے اور منہ زہر اگلنے لگا۔ لیکن بچے اس زہریلی گیس سے بے پرواہ اپنے ہی لے میں گاتے اور بھاگتے رہے۔

سانس پھول رہی تھی، لاٹھی بار بار زمین سے ٹکرا رہی تھی۔ جھریوں زدہ گال سرخ ہو چکے تھے۔ بہر حال جیسے تیسے افتاں و خیزاں گھر پہنچ ہی گئی۔ گھر۔۔۔۔۔۔؟ گھر تو بس نام ہی کا تھا۔ پھوس کی بنی ہوئی چھوٹی سی کٹیا۔ جس میں ٹاٹ کی دیوار سے لگی چار پائی پڑی رہتی اور اس پر نیم میلا کچیلا بستر۔ چار پائی کے کنارے ٹین کا صندوق اس پر اسٹیل کا گلاس اور ایک پلیٹ، چار پائی کے آگے رکھے ہوئے ایک پتلے سے پتھر پر صراحی۔ اوپر چھوٹی سی پلیٹ پر آبخورہ اور برابر میں آفتابہ۔۔۔ سردیوں میں چار پائی کے نیچے کونڈا میں بھو بھل سلگتا رہتا۔ ٹاٹ پہ جگہ جگہ تھیلیاں بند ھی ہوتیں۔ جس میں نہ جانے کیا الم گلم رکھا ہوتا۔ اور دروازے پہ کچھ لکڑیاں رکھی ہوتیں جن کو وہ چو پال سے دوسروں کی نظریں بچا کر اٹھا لاتی۔

بڑھیا کے شوہر کو مرے ۱۵ سال ہوچکے تھے۔ ایک بیٹی تھی جو قسمت سے شہر میں ایک امیر گھرانے میں بیاہ دی گئی تھی اور جس نے کبھی پلٹ کربڑھیا کو نہیں دیکھا۔ بڑھیا فطرتاً شروع سے ہی لالچی قسم کی تھی۔ سنا جاتا ہے کہ وہ ٹرین کی پٹری سے کوئلے اٹھا یا کرتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ کوئلہ اٹھانے میں اتنی مگن تھی کہ اس کو ٹرین کے آنے کی خبر نہیں ہوئی اور پھر وہ ٹرین کے ساتھ دور تک گھسٹتی چلی گئی۔ وہ بچ تو گئی لیکن نہ جانے پیر میں کتنے ٹانکے لگے جس کے نشان ابھی تک اس کے پیروں پر موجود تھے اور پھر جب سے ’’ٹرینیا الٹ گئی‘‘اس کی چڑھ بن گئی۔ اس کی عمرتقریباً ۱۰۰ کے قریب پہنچنے والی تھی۔ گاؤں کے جس فرد کی نظر اس پر پڑتی وہ یہ کہنے سے نہیں چوکتا ’’کب مرے گی یہ بڑھیا‘‘ اور بڑھیا اپنے پچھلے دس سالوں سے یہی کہتی آرہی تھی ’’کبر یامیں پیر لٹکائی ہوں بابو پتہ نہیں کب اللہ اٹھالے‘‘۔

اس کا اس دنیا میں کوئی تھا تو وہ ۱۳ سالہ معصوم سا بچہ زید جو اس کی کٹیا کے تھوڑی دور پر اپنے باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی ماں مرچکی تھی۔ ایک آیا تھی جن کو وہ ماسی کہتا تھااس کی دیکھ بھال کے لیے مقرر تھی۔

’’بڑھیا دادی‘‘ ’’بڑھیادادی‘‘ ۔ زید نے ٹاٹ کے سوراخ میں سے آواز لگائی۔

’’چلا جا یہاں سے اندر آئیو مت اور کبو اپنی شکل نہ دکھائیو‘‘۔ بڑھیا غصے سے بھری بیٹھی تھی چلا پڑی۔

’’مجھے معاف کردے بڑھیا دادی قسم سے اب نہیں چڑھاؤں گا میرے سارے دوست چڑھا رہے تھے اس لئے ۔۔۔ میرے بھی‘‘۔ اس نے بڑی لجاجت سے کہا۔

’’اچھا چل آجا بدماس کہیں کا‘‘

’’ادھر میرے پاس کٹھیا پہ آکے بیٹھ ادھر کا ہے کھڑا ہے‘‘۔ اور اس نے پیارے سے زید کے گال پر دو چپت لگا دیے۔

اچھا سن جید دودن بعد بکرید ہے۔ اس بار کلیجی لانے میں دیر نہ کی ہو جیسے بنے پھوراً لے آنا۔دادی اب میں جاؤں، گلی ڈنڈا کھیلنا ہے۔

ہاں ہاں جا ، مجھے پتہ ہر بکت تیرا دل کھیلنے میں لگا رہے۔

بقر عید کا دن آگیا۔ سور ج سوا نیزے پر پہنچ گیا لیکن کلیجی نہیں آئی۔ بڑھیا بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ ’’کہاں رہ گوا جید ابھی تک کا ہے نہیں آیا۔‘‘ سیٹھ جی کے گھر کی جانب قدم اٹھ گئے ہیں وہ دروازے پر جاکر بیٹھ گئی ہے۔ چولہے پر دو دو کڑھائیاں چڑھی ہیں کلیجی کی اشتہا انگیز خوشبو اس کے ناک میں گھس رہی ہے اور منہ پانی سے بھر گیا ہے۔ زید نے پلیٹ بھر کے کلیجی سامنے لاکر رکھ دیا اور وہ ان پر ٹوٹ پڑی۔ اتنے میں باہرکتا اس زور سے بھونکا کہ وہ چونک پڑی۔ ارے یہ کیا۔ وہ تو اپنے چار پائی پر ہی بیٹھی تھی۔۔۔ بڑھیا سے آخررکا نہ گیا۔ وہ لاٹھی اٹھا کر چل دی۔

’’بڑھیا دادی‘‘ کہاں؟

اور دیر سے آتا جب ہم مارے بھوک کے اوپر پہنچ جاتے۔

’’دادی‘‘ قصائی بہت دیر سے آیا بکرا کاٹنے۔

’’لادے جلدی کھاؤں‘‘ زید بھی اچک کر چار پائی پر بیٹھ گیا۔

بڑھیا دادی ایک بات پوچھوں۔

پوچھ۔ تو تو جو منہ میں آئے بولتا رہت ہے اب کاہے ایسے پوچھت ہے۔

’’بڑھیا دادی جو آپ کی بیٹی ہے شہر میں وہ عید میں بھی نہیں آتی۔‘‘

یہ سن کر کلیجی بڑھیا کے گلے میں اٹک گئی اور وہ زور زورسے کھانسنے لگی۔ ’’پانی‘‘ زید نے جلدی سے گلا س منہ سے لگا دیا۔ کچھ دیر لمبے لمبے سانس لیتی رہی۔ ای تو کس کے بارے میں پوچھ لئے ببوا۔ اب ہم تو کا اس کے بارے میں کا بتائی۔ ایک بار ہم بیمار رہن تب تو بہت چھوٹا رہا۔ تیری ماسی پنکی بیچاری سہر چلی گئی اس کو کھبر کرنے اوکر داماد آئے رہا اس دن۔ تمری ماسی نے داماد کے سامنے ہی کہہ دیا کہ تہار اماں بیمار ہیں۔ وہ گصّے میں پنکیا کو کونے میں لے جاکے کھوب ڈانٹی اور اس سے کہے رہی ہمرے داماد کے سامنے تو ہمار بے اجّتی کرادی ہو اب ہم او کا کا بتائب کہ ہمرے ایک بھک منگی، گالی گلوج والی اماں بھی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنسو آفتابی چہرے کے جھریوں بھرے گال پر پھیل چکے تھے۔

***

کالے کالے بادلوں نے دن کو رات میں بدل دیا تھا آج صبح سے ہی موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ طوفانی ہوائیں نہ جانے کس غم میں سسکیاں بھر رہی تھیں، وحشی درندے بادل کی طرح گرجتے اور وقفہ وقفہ پر مشرقی آسمان پربجلی لہراتی۔ چھپر کا بنا ہوا نازک سا گھر اس طوفانی باد و باراں کو برداشت نہ کرسکا۔ بڑھیا روتی رہی اور پڑوس والے سمجھتے رہے کہ بڑھیا بارش کی خوشی میں گا رہی ہے۔۔۔ شام ہوتے ہوتے بارش تھم چکی تھی ، زید جب چائے کے ساتھ پکوڑے کھانے بیٹھا تو اسے فوراً بڑھیا دادی کا خیال آیا اور چشم زدن میں پکوڑے لے کرکٹیا میں پہنچ گیا۔ لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔ فرش پر ٹخنوں تک پانی بھر گیا تھا۔ چھپر کا چھت کھسک گیا تھا۔ بستر چار پائی اور خود بڑھیا بارش کے زد میں آگئے تھے اور بڑھیا کونے میں گٹھری بنی تھر تھر کانپ رہی تھی۔

’’بڑھیا دادی اٹھیے چلئے میرے گھر‘‘ زید نے بڑھیا کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی۔

’’ناہی بابو۔۔۔ اب ہم ۔۔۔ہمارا۔۔۔بکت آہی گئے۔ ہم کو ای ہاں اپنے گھر میں ہی مرے دیو۔ کپکپاتے ہوئے بولی۔

اچھا دادی میں جلدی سے ماسی کے کپڑے اور کمبل لے کے آتا ہوں اور ابو کو بولونگا ڈاکٹر کو بلا لائیں اور ہاں۔۔۔ ابو سے یہ بھی کہہ دونگا کسی کو شہر بھیج کر آپ کی بیٹی کو بلوا دیں۔

’’ناہی جید ای گلتی نہ کرنا‘‘ تم کو تو سب پتہ ہے میرے لال۔‘‘

لیکن زید کہاں ماننے والا تھا اس نے گھر جاکر اپنے ابو کو بڑھیا کی بیٹی کو بلانے کے لیے شہر بھیجا۔ وہ اور اس کی ماسی دونوں کمبل کپڑے لے کر کٹیا کی طرف بھاگے۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔

سرہا نے اگر بتی سلگ رہی تھی۔ جس کی خوشبو چاروں طرف پھیل رہی تھی اور دھواں اوپر اٹھ کر ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا۔ ماحول میں ایک عجیب قسم کا سناٹا تھا۔ اس سناٹے میں صرف ایک چیخ گونج رہی تھی اور وہ تھی بڑھیا کی بیٹی کی جو کہے جارہی تھی میری اماں تو مجھے چھوڑ کر کہاں چلی گئی، اپنے سینے کو پیٹتے ہوئے چلا چلا کے رو رہی تھی۔ محلے کی عورتیں اس کو سنبھالنے کی ناکام کوشش میں لگی ہوئی تھیں، یہ حالت دیکھ کر ان عورتوں کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔۔۔۔۔۔لیکن زید دور کونے میں کھڑا حیرت سے اس منظر کو یک ٹک دیکھے جارہا تھا، اس عورت کا یہ کون سا روپ ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

تبصرے بند ہیں۔