کیا بہار میں ایک بار پھر حکومت بدل سکتی ہے؟

عبدالعزیز

 بہار میں اس وقت جو صورت حال ہے اس کی وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جے ڈی یو میں ایسے ممبران اسمبلی موجود ہیں جو نتیش کمار کی غیر اصولی سیاست اور فرقہ پرستی سے سمجھوتہ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تعداد 15/16 تک پہنچتی تو یقینا نتیش کمار کی کرسی خطرہ میں پڑسکتی ہے۔ کانگریس او آر جے ڈی ایسے لوگوں سے رابطہ میں ضرور ہوگی جو لوگ غیر مطمئن ہیں۔ اگر مذکورہ دو پارٹیوں کی طرف سے منحرف یا غیر مطمئن ممبران کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ نئی حکومت ہونے پر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں یا اقتدار کے حصہ دار بن سکتے ہیں تو میرے خیال سے نتیش کمار کی جے ڈی یو دو حصوں میں بٹ سکتی ہے اور ایک حصہ مہا گٹھ بندھن کی حکومت بنانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

شرد یادو کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ بہار میں ان کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں، کیونکہ وہ عوامی لیڈر نہیں ہیں اور نہ ہی گراس روٹ لیبل پر ان کی پکڑ ہے۔ اس میں سچائی ہے مگر جن کی بہار میں تھوڑی بہت پکڑ ہے جو جے ڈی یو سے باہر آنا چاہتے ہیں وہ شرد یادو میں جو کمیاں ہیں وہ پوری کرسکتے ہیں۔ انور علی شرد یادو کی طرح کھل کر نتیش کمار کے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ انور علی راجیہ سبھا میں جے ڈی یو کی طرف سے پارٹی کے ڈپٹی لیڈر تھے، انھیں جے ڈی یو کی پارلیمانی پارٹی سے برخاست کر دیا گیا یہ کہہ کر کہ انھوں نے اپوزیشن پارٹی کی میٹنگ میں شرکت کی۔ اس طرح شرد یادو جیسے جے ڈی یو کے فاؤنڈر ممبر (Founder Member) اور لیڈر کو یہ کہتے ہوئے راجیہ سبھا کے جے ڈی یو لیڈر کے عہدہ سے ہٹادیا گیا کہ وہ پارٹی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

 جس طرح شرد یادو اور انور علی یا دیگر جے ڈی یو کے غیر مطمئن ممبروں کے ساتھ نتیش کمار کی طرف سے ہر روز کوئی نہ کوئی کارروائی ہورہی ہے اور پارٹی کو بچانے کی کوشش ہورہی ہے اسی طرح جلد شرد یادو کی طرف سے نتیش کمار کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ انھیں بھی شرد یادو جے ڈی یو کی اساسی رکنیت سے برخاست کرسکتے ہیں۔ نتیش کمار اگر چہ جنتا دل یو کے زور زبردستی صدر بن گئے ہیں مگر اس وقت جو انھوں نے مہا گٹھ بندھن کو توڑ کر بی جے پی کی مدد سے بہار میں حکومت بنائی ہے۔ اسی بی جے پی کو بہار کے عوام نے رد (Reject) کردیا تھا۔ نتیش نے ہاری ہوئی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے اور مہا گٹھ بندھن (عظیم اتحاد) جس کے حق میں عوام نے حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تھا جسے جن مت (عوامی فیصلہ) یا مینڈیٹ کہتے ہیں اس کی نہ صرف توہین کی ہے بلکہ عوام کے ساتھ اور کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ وسواس گھات (دھوکہ) کیا ہے۔ نتیش کی غیر اخلاقی اور غیر اصولی حرکت سے بہار میں جمہوریت اور سیکولرزم کی نہ صرف توہین ہوئی ہے بلکہ اس پر بڑا حملہ ہوا ہے کیونکہ بی جے پی جس کے ساتھ انھوں نے نہ جانے کی قسم کھائی تھی اور یہ کہا تھا کہ وہ سیکولرزم کے خلاف ہے۔

جمہوریت پر اس کا یقین نہیں ہے اور بھائی چارہ کو وہ برباد کر رہی ہے اسی لئے نتیش کمار نے کہا تھا کہ وہ مٹی میں مل جائیں گے مگر بی جے پی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اگر چہ وہ بہار کے وزیر اعلیٰ غیر اصولی اور غیر جمہوری طریقہ سے ہوگئے ہیں مگر حقیقت میں انھوں نے از خود اپنے آپ کو مٹی میں ملایا ہے اور ان کی ایسی مٹی پلید ہوگئی ہے کہ وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ ان پر بی جے پی والے بھی یقین نہیں کرتے ہوں گے کیونکہ بی جے پی والے بھی نتیش کو فریبی اور دھوکہ باز کہہ چکے ہیں۔ اب اسی فریبی اور دھوکہ باز سے عارضی فائدے کیلئے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ نتیش نے اپوزیشن پارٹیوں سے بھی دھوکہ کیا۔ پہلے تو وہ اپوزیشن اتحاد کے حامی تھے مگر جیسے اپوزیشن کی طرف سے صلاح و مشورہ شروع ہوا وہ مودی بھکت ہوگئے اور حکمراں جماعت کے صدارتی امیدوار کی تائید کر دی۔

 اس سے پہلے بھی نوٹ بندی کی تائید کرکے اپوزیشن کے ساتھ فریب کاری کرچکے تھے۔ اس طرح وہ چھ سات مہینے پہلے جو من بنا چکے تھے وہ ظاہراً اور در پردہ این ڈی اے یا بی جے پی کی حمایت کر رہے تھے۔ بہانہ تیجسوی یادو کے خلاف ایف آئی آر کا ہے جس پر ہر گز یقین نہیں کیا جاسکتا جس وقت نیتش کمار  لالو جی کی پارٹی کی حمایت سے بی جے پی سے نکل کر آتے ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس وقت لالو پرساد کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر تھا بلکہ وہ سزا یافتہ (Convicted) تھے، پھر بھی بیس مہینے سزا یافتہ لیڈر کی پارٹی کے ساتھ حکمرانی کرتے رہے۔ نتیش بی جے پی کو چھوڑنے کے بعد بی جے پی کو ’بڑا جُھٹا پارٹی‘ قرار دیا تھا، اب اسی جھٹا پارٹی کا حصہ بن گئے۔ شاہ اور مودی کی حاشیہ برداری کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ نتیش کمار کو بہار میںبڑا سبق ملنا چاہئے جس طرح وہ جمہوری اورسیکولر قدروں اور عوامی فیصلہ کو کچل کر حکومت کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور ذرا بھی شرمندہ نہیں ہیں، انھیں اپوزیشن کی طرف سے سبق سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ شرد یادو اور انور علی کے ساتھ جے ڈی یو میں کتنی بڑی بغاوت ہوسکتی ہے۔ اگر 16/17 ایم ایل اے پارٹی سے الگ ہوکر شرد یادو کے ساتھ آگئے جس کا امکان ہے تو نتیش کمار کی حکومت گرسکتی ہے اور پھر وہ نہ گھر کے ہوں گے نہ گھاٹ کے۔ بی جے پی بھی انھیں انگوٹھا دکھا سکتی ہے۔ نتیش کمار جیسے بے ایمان، دغاباز اور فریبی کو یہی سبق ملنا چاہئے۔ جب ہی جمہوریت ہندستان میں پنپ سکتی ہے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوسکتی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔