اے انسان، کر خودی کی پہچان!

ابراہیم جمال بٹ

ایک کے بعدایک انسان …اس دنیا کوچھوڑ کے جارہا ہے۔ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے، آج نہیں تو کل، یہاں سے ہر کسی کو جانا ہے… آدم سے ایں دم تک نہ کوئی یہاں مستقل رہ پایا ہے اور نہ ہی رہ پائے گا۔ایک انسان کے پیدا ہونے سے قبل اس کا کہیں بھی ذکر نہیں ہوتا۔ ماں کے پیٹ میں پل رہے بچے کی کوئی واضح صورت نہیں ہوتی، ماں کے پیٹ سے اس دنیا میں آنے کے بعد اگرچہ صورت واضح ہو جاتی ہے لیکن اس بچے کا انتقال در انتقال ہونا اس بچے کے بھی علم میں نہیں ۔ پہلے کیا تھا، کچھ پتا نہیں ۔ حالاں کہ اگر سوچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدائش کب کی ہو چکی ہے۔اس انتقال در انتقال صورت حال سے گزر کر جب بچہ کی صورت میں یہ انسان اس عارضی وفانی دنیا میں منتقل ہو جاتا ہے تو جس طرح اس کا سابقہ حالات کی علمیت پر بھروسہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اسی طرح یہ بچہ تھوڑا بہت سمجھ بوجھ حاصل کر کے نو عمری میں قدم رکھتا ہے تو اپنا بچپن اور بچپن کی یادیں حسب معمول خود ہی بھول جاتا ہے۔

کبھی یہ دودھ پیتا بچہ تھا، اِس پر اُسے یقین نہیں ہوتا، لیکن یقین ہو نہ ہو حقیقت توحقیقت ہے اس سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا۔ جب یہ شخص جوانی کی عمر میں پہنچ جاتا ہے، پھر یہ جوانی مستقبل میں آنے والے بڑھاپے کی دستک دیتا ہے، وہ بھی بوڑھا ہو جائے گا، اس پر بھی اسے بھروسہ نہیں ہوتا۔ دیکھتے ہوئے بھی وہ اَن دیکھی کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید بڑھاپا اس کے لیے نہیں ، لیکن کیا کرے یہ آگے آگے منتقل ہوتا جاتا ہے اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کب، کہاں اور کیسے منتقل ہوا۔ پیدا ہونے سے قبل وہ کیا تھا؟ معلوم نہیں ۔ بچہ کی صورت ماں کے پیٹ میں کیسے پلا ؟ معلوم نہیں ۔ بچپن کیسے گزراا، بچپن کیوں یاد نہیں رہا؟ معلوم نہیں ۔ پھر جوانی آئی اور جوانی میں نہ چاہتے ہوئے بھی بڑھاپے کی طرف قدم ڈال دئے، کیسے اور کیوں ؟ معلوم نہیں ۔ کچھ بھی معلوم نہیں … اس کی زندگی انتقال در انتقال کر رہی ہے ،لیکن اسے خود کچھ بھی معلوم نہیں ۔ اب بڑھاپے کے بعد پھر انتقال ہونے والا ہے، یہ منتقلی بھی ہو گی، حسب سابق اس پر بھی اسے یقین نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں کیوں جاناہے اور کب جانا ہے؟ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ لیکن وہاں جانا ہے، یہ صرف ایک شخص کو نہیں بلکہ سب کو اپنے اپنے وقت پر جانا ہے۔ جس طرح اسے سابقہ منتقلی پر یقین کرنا ایک طرف مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس دنیا میں آنے کے بعد سب کچھ دیکھنے سے اسے یقین کرنا پڑتا ہے۔

برابر اسی طرح اسے اس پر بھی یقین کرنا پڑے گا کہ آنے والے انتقال کے بعد پھر سے ایک دوسری جگہ جانا ہے۔ جس کے بارے میں اس کی خلقت کرنے والے نے پہلے ہی باخبر کرایا ہے، بلکہ باخبر کرانے والے خدائے ذوالجلال نے یہ بھی واضح طور سے فرمایا ہے کہ اس کے بعد کہیں اور منتقل نہیں ہونا ہے۔ سابقہ ادوار کی طرح اب کہیں اور منتقل نہیں ہونا ہے۔ بس موت آئی اور اس کے بعد وہاں فیصلہ ہونا ہے۔ فیصلہ اس بات کا کہ اب اس کا جائے مقام کہاں ہے… اس فیصلے کا کرنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ اس کا خالق رب ذوالجلال والاکرام کرے گا۔ وہاں فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہو گا۔ عارضی مقامات سے نکال کر اب اسے ابدی جائے مقام عطا کی جائے گی ۔ جائے مقام اچھا ہو، اُس کے لیے اس کی سابقہ زندگی کا محاسبہ ہوگا، محاسبہ کے بعد عدل وانصاف سے کام لے کر اس کا صحیح جائے مقام اُسے عطا کیا جائے گا۔ جس نے جیسے کام کیے ہوں گے اسے ویسے ہی اجر وانعام سے نوازا جائے گا۔ کوئی پھولوں سے بھرے باغ (جنت)میں رہنے کا اہل قرار پائے گا اور کوئی کانٹوں کی سیج پر ہی بٹھایا جائے گا۔ یہ سب اس کی خود کی کمائی ہو گی اور کمائی ہوئی دولت اورپونجی ضائع نہیں کی جائے گی، وہ سب محفوظ رکھ کر اسے امانت کے ساتھ دی جائے گی۔

 آخرت کے حوالے سے ایک واقعہ سننے میں آیا ہے: کہتے ہیں کہ کسی امیر نے ایک آدمی کو ملازم رکھا جو اپنے احمق پن کی وجہ سے سارے شہر میں مشہور تھا۔ امیر نے اسے ایک دستی چھڑی دی اور کہا کہ یہ چھڑی تم اس شخص کو دینا جو تم سے بھی زیادہ بے وقوف ہو۔چھ مہینے کے بعد وہ امیر بیمار ہوا اور احمق سے کہا کہ میں تم سے رُخصت ہو رہا ہوں ، اس نے پوچھا کب تشریف لائیں گے؟ امیر نے جواب دیا ایسے مقام پر جاتا ہوں جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آتا۔ احمق نے کہا: وہاں آپ نے قیام کے لیے کوئی مکان بنوالیا ہے۔ امیر نے کہا نہیں ، اس نے پوچھا باورچی خانہ اور توشہ خانہ کا بھی کچھ سامان بھیج دیا ہے؟ امیر نے جواب دیا نہیں ۔ احمق یہ سن کر مسکرایا اور کہا جہاں آپ کو تھوڑے دن رہنا تھا وہاں تو آپ نے اتنا اونچا محل بنوایا، آرام وآسائش کا اتنا سامان کیا، لیکن جہاں ہمیشہ رہنا ہے وہاں کے لیے کوئی سامان نہیں کیا۔ آپ سے زیادہ احمق مجھے کوئی دوسرا نہیں ملا۔ اس لیے یہ دستی چھڑی آپ ہی لے لیجیے تو مناسب ہو گا۔

 واقعہ ایک انسان کے لیے عموماً اور مسلمان کے لیے خصوصا ًقابل غور ہے۔ جس دنیا کے لیے انسان دن و رات کھپا دیتا ہے وہ دنیا نہ تو دائمی ہے اور نہ ہی اس میں جمع کیا ہوا سازو سامان دائمی ہے۔ دراصل دنیا میں انسان چند روزہ مسافر ہے ۔ اس سفر میں اس کا سامنا کئی چیزوں سے پڑتا ہے لیکن مسلمان ان ساری چیزوں کو اپنا مقصد نہیں بلکہ ضرورت کے طور پر استعمال کرتا ہے اور جو کوئی اسی دنیائی سفر کو اپنا مقصد بنا لیتاہے وہ نہ تو اس دنیا کو ہی پالیتا ہے اور نہ ہی اس سفر کے بعد آنے والی دنیا کے لیے کچھ جمع کر پاتا ہے، اس کے بالمقابل مسلمان اس سفر کو ضرورت کے طور سمجھ کر اس  کے پیچھے پیچھے نہیں بلکہ یہاں ایک ایسا ذخیرہ جمع کرتا ہے جو اس سفر کے بعد آنے والی زندگی میں اس کے کام آئے ۔ مسلمان اور غیر مسلم میں یہ ایک امتیازی خصوصیت ہے ۔ مذکورہ واقعہ سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان کو ہمیشہ اس دنیا میں رہ کر آخرت کی طرف نظر رکھنی چاہیے کہ وہ آخرت کے لیے سازو سامان جمع کر رہا ہے یا نہیں ؟ کیوں کہ اگر یہاں پر وہاں کے لیے کچھ کمایا ، تو اس کی کامیابی ممکن ہے اور اگر اس دنیا میں رہ کر اسی کے پیچھے پڑے رہے تو آخرت میں خسارہ ہی اٹھانا پڑے گا۔

اب یہ اس انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے۔ پھولوں کی سیج یا کانٹوں کی……؟

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    خودی کی دریافت
    ــــــــــــــــــــــــــــ
    یہاں دو دنیائیں ہیں، معروضی اور موضوعی ۔۔۔۔ کائنات کے بارے میں غور و فکر، معروضی کائنات سے آگہی کا علم ہے۔ جبکہ انسان کا تعلق موضوعی دنیا سے ہے۔ موضوعی سائنس انسان کے باطن کا علم ہے۔ معروضی سائنس اشیاء سے بحث کرتی ہے، جبکہ موضوعی سائنس روح اشیاء سے بحث کرتی ہے۔ قدرت نے نظام کائنات پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ خود شناسی پر بھی زور دیا ہے۔ انسان پوری کائنات کو تسخیر کرنے نکلا ہے، جبکہ خبر اس کو خود کی نہیں، کائنات کو کیا خاک سمجھے گا۔

    ایں تماشہ خانہ سحرِ سامری است
    علم بے رُوح القدس افسونگری است

    یہ تماشہ خانہ سامری کا جادو ہے۔
    علم روح القدس کے بغیر جادو گری ہے۔

    علم تا از عشق برخوردار نیست
    جز تماشہ خانہء افکار نیست

    علم جب تک عشق سے پھل کھانے والا، فیض اٹھانے والا نہیں ہے،
    وہ افکار کے تماشہ خانہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔