کیا خدا کے بارے میں آپ کا عقیدہ اخلاقی ہے؟
اس رمضان میں اپنے آپ سے پوچھا جانے والا ایک سوال۔
پروفیسر عدیس دُدریجا( آسٹریلیا)
ترجمہ: ڈاکٹر سعد احمد، نئی دہلی
خدا پر یقین، تمام الٰہیاتی عقیدوں میں بشمول ان کی اخلاقیات کے سب سے بڑا اوراہم ہے۔
جب کہ ماہرین الہیات اور عام لوگوں نے یکساں طور پر خدا کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش میں کافی وقت اورکوشش صرف کی ہے، ایک سوال جو افسوس کے ساتھ اکثر نظر انداز کر دیاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کس قسم کا خدا ہے جس پراخلاقی اعتبار سے ایمان لانے کی ضرورت ہے۔
محوری دور (اس سے مراد مذہبی اور فلسفیانہ فکر میں وسیع تبدیلیاں ہیں جو تقریباً آٹھویں سے تیسری صدی قبل مسیح کے درمیان مختلف مقامات پر رونما ہوئیں) کی دیگر توحیدی روایات کی طرح، اسلامی روایت میں جس سے میرا تعلق بھی ہے اور جس سے میں شناخت کرتا ہوں، خدا کی فطرت کے تصور کے بارے میں ماہرین الہیات کے ذریعہ پوچھے گئے سوال کو بنیادی طور پر اس لحاظ سے ترتیب دیا گیا تھا جیسے کہ خدا کس قسم کی عبادت کے لائق ہے؟ مزید برآں، اس سوال کے جواب میں بنیادی طور پر الہامی صفات جیسے کہ عالم کل شئی اور قادر مطلق پر زور دیا گیا ہے۔ خدا کے تصور کے بارے میں اس طرح کے نقطہ نظر جو ماورائی صفات پر زور دیتے ہیں چاہے وہ یہودی، عیسائی یا اسلامی روایت میں ہوں۔ نہ محض الہامی محبت کے تصورات پر پورے اترتے ہیں، بلکہ خدا کو ناکام ہونے سے مبرا ہونے پراور برائی کی موجودگی کو روکنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ یہ گویا اس بات کی توثیق کرنے کے مترادف ہے جسے الہامیات کے غیر اخلاقی تصورات سے تعبیر کروں گا۔
لیکن کسی کے خدا کے تصور کے اخلاقی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے، کم از کم، خدا کو ان طریقوں سے تصور کرنے سے انکار جو گرچہ ہمیں خدا کی خصوصیات کی نوعیت کو بیان کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ اگر ہم انسانوں میں انہیں دیکھیں تو ہمیں ناگوار لگے۔ اس حتمی امتحان کے مطابق، کوئی بھی عقیدہ جو تصوراتی طور پر کسی برائی کے وجود کی اجازت دیتا ہے جسے خدا روک تو سکتا ہے لیکن کسی وجہ سے ایسی برائی کے واقع ہونےسے نہیں روکتا، یا خدا کی جانب سے خواتین کے خلاف منظور شدہ بدسلوکی پر یقین، اخلاقی طور پر کبھی نہیں ہو سکتا ( اور اس لیے مذہبی طور پر بھی نہیں)۔
اسلامی روایت میں، الوہیت عظمت (جلال) اور حسن (جمال) کی صفات کا سرچشمہ ہے۔ بدقسمتی سے، چند قابل ذکر استثناء کے ساتھ، خدا کے اس تصور کی توثیق کرکے جو جابرانہ پدرانہ نظام پر پابندی لگائے، جلال اور جمال کے مخصوص تصورات نے اکثر اس اخلاقی امتحان کو ناکام بنایا ہے، کہ وہ ایک ہمہ گیرمحبت کے تصور کے لیے مذہبی جواز پیش کر کے اورانسانوں کے ہاتھوں برائی کو قائم کرکے قدرتی آفات کے وقوع پذیر ہونے سے ہم آہنگ نہ ہو۔
تاہم، کچھ عصری ترقی پسند مسلم باحثین، جن کا خدا کا تصور عمل سے متعلق رہا ہے اور/ ا اسلامی الہیات کے لیے مسلم فیمنزم پر مبنی ہے، جلال و جمال کے ان غالب تصورات کو چیلنج کر رہے ہیں، اور اس طرح بیان کر رہے ہیں جسے میں ایسا الہی تصور کہتا ہوں جو کہ اخلاقی اعتبار سے بھی اعتبار کے لائق ہے۔
اب، کچھ مومنین جو الہیات کے ”کلاسیکی اعتقادی“ تصورات پر عمل پیرا ہیں، اس اخلاقی یقین پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ اس بنیاد پر کہ میرا نقطہ نظر مؤثر طریقے سے خدا کو بشریت کی شکل دیتا ہے یعنی خدا کون ہے یا کسے خدا ہونا چاہئے۔ میں اس بات کا جواب یوں دوں گا کہ الٰہیات کا کوئی بھی سیاق جو اس حتمی یقین کو پاس کرنے سے قاصر ہے وہ بائبل کے اس تصور کے ساتھ نبرد آزما ہے کہ انسانیت کو خدا کی شبیہ میں تخلیق کیا گیا ہے جس کی ایک شکل قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ مزید برآں، میں اس بات پر اصرار کروں گا کہ خدائی حکم کے نظریہ پر مبنی کوئی بھی دینیات ہمیں انتہائی مشکل اور بالآخر ناقابل حل اخلاقی مسائل سے دوچار کرتا ہے، جس میں تھیوڈیسی (خدا کی حکمت عدل) کے نا قابل دفاع سیاق بھی ہیں اور ایک ایسے خدا پر یقین بھی شامل ہے جو خواتین کے ساتھ بدسلوکی پر راضی ہے (نعوذ باللہ)۔
اس اخلاقی یقین پر ایک اور ممکنہ اعتراض کثرت سے زیادتی کا نشانہ بننے والا (اکثر مسلمان عسکریت پسند اور بنیاد پرست گروہوں کی طرف سے) لفظ ”اللہ اکبر“ (خدا سب سےبڑاہے) کی دعوت پر مبنی ہے۔ یہ اسلامی دینیات کی غالب شکل میں حکم الہی کے نظریہ کے ایک شکل کے مترادف ہے – یعنی اشعری۔ماتریدی دینیات جو یہ دعوی کرتی ہے کہ انسان انسانی معیارات کی بنیاد پر خدا کے اعمال کا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ لیکن یہ اسلامی دینیات کی واحد شکل یا اظہار نہیں۔ درحقیقت، بعض مسلم ماہرینِ دینیات نے اس اخلاقی یقین کو عین خدائی ہونے کے طور سے نافذ کر رکھا ہے۔
لیکن میں کچھ مختلف بحث کروں گا۔ میں یہ بات آگے بڑھانا چاہوں گاکہ خدا کی "عظمت” کا اطلاق صرف انٹولوجی کے اعتبار سے (مابعد الطبیعات کی ایک شاخ جو وجود کی ماہیت پر کتر بیونت کرتی ہے)ہونی چاہیے اس معنی میں جو اسلامی فلسفیانہ تصوف کے اندر استعمال کیا گیا ہے نہ کہ اسلامی اخلاقیات اور فقہ پر۔ درحقیقت خدا کی عظمت (جلال) اورحسن(جمال) کی لازوال صفات کو انسانوں میں اخلاقی طور پر مزید خوبصورت تاثرات پیدا کرنے چاہئیں، جو کہ انسان کی ترقی اور خدا کی تمام مخلوقات کے پھلے پھولنے کی بہتر شکلوں میں معاون ثابت ہوں۔
آخری تجزیے میں، ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ خدا کے بارے میں ہمارے تصور کے اہم مضمرات ہیں ۔۔۔ نہ صرف اس بات کے لیے کہ ہم کس قسم کے مذہبی عقائد رکھتے ہیں، بلکہ یہ بھی کہ ہمیں بطور مومن کس قسم کی اخلاقی اقدار کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس رمضان میں مجھے امید ہے کہ تمام مومنین سنجیدگی سے غور کریں گے کہ آیا خدا کے بارے میں ہمارا پیش کردہ نقطہ اخلاقی یقین کے طور سے کامیاب ہو سکتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ صرف اسی طریقے سے ہمیں یقین دلایا جا سکتا ہے کہ ہماری عبادت کا مقصد درحقیقت اخلاقی اعتبار سے عبادت کے لائق ہے بھی۔
(عدیس ددریجا اسکول آف ہیومینٹیز، لینگویجز اینڈ سوشل سائنس میں مطالعہ برائے اسلام اور سوسائٹی کے سینئر لیکچرر ہی، اور مرکز برائے بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمہ، گریفتھ یونیورسٹی میں سینئر فیلو ہیں۔ )
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔