کیا عمران پرتاپ گڑھی صاحب ان سوالوں کے جواب دیں گے ؟
ذاکر حسین
گزشتہ دنوں ناندیڑ بلدیاتی انتخابات میں شاعر اور نصف سیاست داں عمران پرتاپ گڑھی نے کانگریس کی حمایت میں انتخابی تشہیر چلائی۔ ہمارا ماننا ہیکہ ناندیڑ میں عمران پرتاپ گڑھی نے نہ صرف ایم آئی ایم بلکہ مسلم قیادت کی مخالفت کی ہے۔ موصوف نے انتخابی تشہیر کے دوران ناندیڑ میں کی گئی تقریر سے صاف ظاہر ہو رہاتھا کہ انہیں کانگریس کی حمایت میں کم اور مسلم قیادت ایم آئی ایم کے بارے میں زیادہ بولنا ہے۔ انہوں نے جو کیا، وہ ان کا اپناذاتی فیصلہ تھا اور ان کاسیاسی نظریہ شاید مسلم قیادت کو قبول نہ کرتا ہو۔ لیکن ملک کے عوام اور قوم کے مستقبل کی خاطر ہم سب کو اپنے نظریہ اور فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔
خاکسار کا محترم عمران پرتاپ گڑھی سے کانگریس اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کے تعلق کچھ سوال ہیں۔ سوال نمبر1، اگر کانگریس سیکولر اور مسلمانوں کی حامی ہے تو اس جماعت نے آرٹیکل 341 پر مذہبی پابندی کیوں لگائی ؟ اس آئینی ناانصافی کے خلاف دیگر سیکر لر جماعتوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائی ؟آرٹیکل 341 کیا ہے؟ اور ہر سال ملک کی مسلم سیاسی جماعتوں اور ملّی تنظٰیموں کی جانب سے اس دن ’یوم سیاہ ‘ یعنی کالا دن کیوں منایا جاتا ہے۔ ان سب باتوں کو جاننے کیلئے آیئے ہم تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیتے ہیں۔ملک کی آزادی سے قبل کزب و افتراء پر مبنی برٹش حکومت نے دیش کی غریب اور سماجی لحاظ سے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نوازا تھا۔ہو سکتا ہیکہ انگریزحکام کا یہ قدم بھی ملک میں بغاوت کے شعلوں کو بھڑکانے کے لیے اٹھا یا گیا ہو بہر حال ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا ہیکہ برٹش حکو مت ریزر ویشن کے نام پر کس قسم کا کھیل شروع کرنا چاہتی تھی۔
ہندستان میں ریزرویشن کی تاریخ کی داستان یوں شروع ہوتی ہیکہ برٹش حکومت ملک میںپھیلی تفریق اور اونچ نیچ کی کھائی کو کم کرنے کے لیئے آئینی اصلاح کے نام پر 1927میں سائمن کمیشن بھارت بھیجا۔لیکن سائمن کمیشن کوسیاہ جھنڈے اور سائمن واپس جائو کے نعروں کے ساتھ زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بعد میں 1930 ورر 1932کی گول میز کانفرنسوں میں انڈین نٰیشنل کانگریس کی زبردست مخالفت ور احتجاج کے باوجود کمیشن کی سفارشات کو منظور کر لیا گیا۔اور ملک کی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نواز اگیا اور جو 1943 میں نافذالعمل ہوا۔ اس میں ہندو درج فہرست ذاتوں کے مساوی پیشہ اختیار کرنے والی مسلما نوں کی تقریبا 75 فیصد آبادی تھی۔ آئین ہند کے نفاذ تک ملک کے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کی سہولت ملتی رہی۔
15 اگست 1947 کو ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد برٹش حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز کے آئین سازوں نے بھی ملک کے پسماندہ طبقات، دلتوں اور اچھوتوں کو درج فہرست ذاتوں میں شامل کرکے انکی آبادی کے تناسب میں سرکاری اداروں، قانون ساز اداروں، اور تعلیم گاہوں وغیرہ میں انکی نمائندگی یقینی بنانے کی غرض سے ریزرویشن کو حسب سابق قانون کا درجہ دیا۔ درج فہرست ذاتوں میںنٹ، جولاہا، مداری، دھوبی، کھٹِک، جھوجھا، بھانٹ، جوگی منگتا (فقیر)ڈفالی، گورکن، کُجڑا، حلال خور، مہتر، بھنگی،بیہنا، گوریا منہار، وغیرہ شامل تھیں۔ واضح ہو کہ درج فہرست ذاتوں میں مسلما نوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی، ان تما م ذات کے لوگ خوہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کو شیڈول کاسٹس کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔اور سبھی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نوازہ گیا تھا۔لیکن افسوس آئین ہند کے نفاذ کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے 10 اگست 1950 کو آرٹیکل341 کی ’’دفعہ1 ‘‘کا سہارا لیکر ملک کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے زریعے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروا یا کہ شیڈول کاسٹس سے متعلق لوگوں میں سے محض انہیںکو ریزرویشن اور دوسری مراعات حاصل ہونگی جو ہندو مذہب (سناتن دھرم) کو ماننے والا ہوگا اس کے علاوہ غیر ہندو دلتوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔
حکومت ِہند کے اس غیر آئینی قدم کے خلاف سکھ سماج کے لوگوں میں بیداری نظر آئی اور سکھ سماج کے دلتوں نے زبردست تحریک اور احتجاج کے ذریعے حکومت ہند کو دو بارہ ریزرویشن دینے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور مسٹر نہرو کی قیادت والی سرکار نے1956 میں آئین (شیڈول کاسٹس)آرڈر1950کے پیرا۔3 میں ترمیم کرکے ریزرویشن کی سہولت پانے کے لیے ہندو اور سکھ ہونا لازمی کر دیا۔لیکن افسوس خود کو سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی نے آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا۔ نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا گیا بلکہ آئین کے آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ کیونکہ آارٹیکل 14 کی رو سے مذہب و ملتـ، ذات پات، علاقہ، رنگ و نسل سے قطع نظر ملک کے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دیے گئے ہیں۔ اور ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی برٹش حکومت کے زریعے ملک کے اقلیتوں کو ریزرویشن کے نام پر جو مراعات حاصل تھیں اسے آزاد ہندوستان کی حکومت نے چھین لیا۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک کی آزادی میں نما یاں رول ادا کرنے والی سیاسی پارٹی کے سربراہ ا ور ملک کے پہلے وزیر اعظم کو تسلی نہیں ہو ئی اور نا انصافی کی راہ پر ایک اور قدم بڈھتے ہوئے 1985 میں آئین میں ترمیم کراتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ جن ہندو دلتوں کے آباء و اجداد کبھی اسلام میں داخل ہو گئے تھے اگر وہ دوبارہ ہندو مذہب(سناتن دھرم) میں واپس آ جاتے ہیں تو انہیں ریزرویشن اور دیگر مراعات حاصل ہوںگی۔ واضح ہو کہ آئین ہند کی دفعہ 340، 341 اور342 مٰٰیں کہیں بھی مذہب لفظ کا ذکر نہیں ہے۔
اس آرٹیکل 341 پر مذہبی پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے 21 جنوری 2011 کو مرکزی حکومت سے پوچھا کہ ایک سیکولر ملک میں اس قسم کی پابندی کا کیا جواز بنتا ہے؟لیکن ابھی تک سپریم کورٹ کو مرکزی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیاہے۔ حلانکہ سچرکمیٹی اور رنگناتھ مشراکمیشن کی کانسٹی ٹیوشن(شیڈول کاسٹس)آرڈر1950کے پیرا۔ 3 میں ضروری ترمیم کر کے مسلم اورعیسائی دلتوںکو بھی شیڈول کاسٹس ریزرویشن کے حق دینے کی اہم سفارش ہے لیکن مرکزی حکومت ان سفارشات کو نافذ کرنے میںغیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔1990میں بدھ سماج کے دلتوں کو بھی حکومت ہند کی جانب سے ریزرویشن کی سہولت دی گئی۔ لیکن اب بھی دلت مسلمان اور عیسائی اپنے آئینی حقوق سے محروم رہے۔ آیئے اب آئین ہند کی ان دفعات پر نظر ثانی کرتے ہیں جو چیخ چیخ کر آرٹیکل 341 پر لگی مذہبی پابندی کو غلط ٹھہراتی ہیں۔ آرٹیکل 15ملک کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتا ہوتعلیمی اداروں میں برابری کے حقوق دیتا ہے۔ آرٹیکل 16 ملک کے سبھی شہریوں کو سرکاری ملا زمتوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔ لیکن افسوس شاید اس غیر آئینی قدم اٹھانے والے نے خود کو دستور ہند سے بالاتر سمجھا۔ اور ملک کی سب سے بڑی اقلیتی فرقے کو اس کے آئینی حقوق سے محروم کر کے پسماند گی کے گہرے دلدل میں دھکیل دیا۔
اب ایک بار پھر عمران پرتاپ گڑھی سے ہمارا سوال کہ اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیںگے؟سوال نمبر 2،کانگریس سرکار بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی عدالتی تحقیات کیوں نہیں کروائی ؟ایک سوال یہ بھی کہ کانگریس حکومت نے دو بے گناہوں کو کیوں ہلاک کروایا، کیونکہ ہماری نظر میںدونوں لڑکے عاطف امین اور محمد ساجد بے گناہ ہیں اور آپ بھی انہیں بے گناہ مانتے ہونگے۔ آپ کو علم ہی ہوگا کہ ملک میں مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ (مجموعہ ضابطہ ء فوجداری )کی دفعہ 176 کے تحت کسی بھی طرح کے پولس تصادم کی جانچ مجسٹریٹ سے کروانا لازمی ہے۔ پھر کیوں کانگریس حکومت نے انکائونٹر کی عدالتی تحقیقات نہیں کرائی۔ سوال نمبر 3، ملک کے اقتدار پر ایک طویل مدت تک کانگریس قابض رہی، پھر بھی مسلمانوں کی حالت میں کیوں کسی قسم کا بہتری نہیں آئی، بلکہ ان کی حالت مزید بدترہوگئی۔
سووال نمبر 3، مسلمان آزدای کے وقت سرکاری نوکریوں میں تقریباً 40 فیصد تھے، اب 2006 میں آئی سچر کمیٹی رپورٹ ہمیں بتاتی ہیکہ فی الوقت مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں میں صرف ڈیڑھ فیصد ہے، اس زوال کے پیچھے کون ہے؟ حالانکہ کانگریس ایک طویل مدت تک اقتدار میں رہی۔ سوال نمبر 4، مسلم نوجوانوں کو آئے دن دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں انکائونٹر کر دیا جاتا ہے ؟ یہ کام کانگریس کے دورِ اقتدار میں بھی ہوتاہے۔ ایسا کیوں ؟کانگریس کے ہی دورِ اقتدار میں مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاریاں بھی ہوئیں ؟یہ بھی کہا جاتا ہیکہ جیلوں میں قید تمام قیدیوں میں 40 فیصد مسلم قیدی ہیں اور بیشتر پر دہشت گردی کا الزام ہیں۔ یہ گرفتاریاں کانگریس کے دورِ اقتدار میں کیوں ہوئیں؟سوال نمبر 5، مسلمانوں کے مسائل کیلئے کانگریس اعلیٰٰ قیادت کیوں احتجاجی مظاہرے نہیں کرتی ؟
قومی راجدھانی دہلی کے جنتر منتر پر ہم نے ہمیشہ مسلمانوں کے مسائل کیلئے مسلم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو احتجاج کرتے ہوہے دیکھا ہے ِ خواہ وہ راشٹریہ علما ء کونسل ہے، یاپھر جمیتہ علما ء ہند، اور دیگر جماعتیں۔ صرف خاکسار نہیں ملک کے تمام مسلمان نہ صرف آپ سے بلکہ تمام نام نہاد سیکولر جماعتوں کے لیڈر اور حامیوں سے سوال پوچھ رہے ہیں۔ امید ہے آپ ان سوالوں کے تسلی بخش جواب دیں گے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔