ذکی ؔطارق بارہ بنکوی
کیا پتہ تھا مجھے اس طرح چھلے گی دنیا
خون ایمان کا پی پی کے پلے گی دنیا
۔
شکلِ مکروہ سے اس کی مجھے گھن آنے لگی
سامنے سے مرے کب مولا ٹلے گی دنیا
۔
جیسے تو اس کی اداؤں میں سما بیٹھا ہے
ایسے ہی کیا ترے سانچے میں ڈھلے گی دنیا
۔
اچھا ہے اس سے یونہی دور رہا کر ورنہ
گام در گام فقط تجھ کو چھلے گی دنیا
۔
یونہی سج دھج کے مری جان تو آ جایا کر
تجھ کو ہی دیکھ کے تو پھولے پھلے گی دنیا
۔
بس ذرا مجھ کو یہاں سے چلے جانے تو دیں
کس طرح دیکھنا پھر ہاتھ ملے گی دنیا
۔
مان جا جانِ وفا تو مرے ہمراہ نہ چل
دیکھ کر ساتھ مرے تجھ کو جلے گی دنیا
۔
جس طرح میں نے اسے بخشی ہے رفتار "ذکی”
کیا مرے بعد بھی ایسے ہی چلے گی دنیا
تبصرے بند ہیں۔