کیا پراسرار پہیلی بن کر آنے والا ہے عام بجٹ؟
سدھیر جین
بجٹ پیش ہونے میں کچھ ہی وقت بچا ہے. اس بار عام بجٹ کے پہلے اس سے امیدوں پر زیادہ بحث نہیں ہو پائی. ورنہ مہینے بھر پہلے مختلف علاقوں سے ان کی امیدوں کا اظہار شروع ہو جاتا تھا. بہرحال بجٹ پیش ہونے کے پہلے ہمارے پاس جتنا وقت بچا ہے اس میں کم از کم بجٹ کا جائزہ لینے کے لئے کچھ اہم باتیں پہلے سے سوچ کر رکھ سکتے ہیں. مثلا اس بار کا بجٹ اس حکومت کے دور کا آخری مکمل بجٹ ہوگا. یعنی موجودہ حکومت کے دور کے کام کاج کے جائزہ کا آخری موقع ملے گا. ظاہر ہے کہ حکومت چار سال کی اپنی کامیابیوں کو دکھانے کے لئے آنكڑے بازي کے سارے ہنر لگا دے گی. اسی لیے بجٹ کے جائزہ کا کام ہمیشہ سے زیادہ مشکل اور چیلنج سے بھرا ہوگا.
حکومت کے سامنے چیلنجز
بجٹ کے مقصد کو نہیں بھولا جا سکتا. بجٹ کے جو مقاصد ہم نے پہلے سے طے کر رکھے ہیں ان میں حکومت کے لئے سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ کس طرح ملک کے کمزور طبقوں کو سہولیت پہنچائے. جمہوری نظام میں حکومت کی آمدنی اور اخراجات کا حساب بناتے وقت یہی دیکھا جاتا ہے کہ اس نے قابل اور امیر لوگوں سے کتنا وصولا اور محروم لوگوں کو کتنی خوشیاں بانٹیں. بجٹ کے مقصد میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے ذریعہ مہنگائی کو قابو میں رکھا جائے. اس کے علاوہ مستقبل میں ترقی کے امکانات برقرار رکھنے کے لئے نئی نئی کوشش کرنا بجٹ کا مقصد ہوتا ہی ہے. لیکن ہماری موجودہ مالی حالت ایسی نہیں بن پائی ہے کہ زیادہ آگے کی بات سوچ پائیں. سو اس بار کے بجٹ میں صرف 2018_19 کے سال کے لئے گزارے لائق حساب بنا لیں اتنا ہی کافی ہے. اب یہ بات الگ ہے کہ آپ مستقبل قریب کے ایک سال کی ضروریات کی قیمت پر مستقبل کی باتوں میں الجھا دیا جائے. یہ اندیشہ اس بنیاد پر ہے کہ فی الحال آپ کی مالی حالت ایسی بنی نظر نہیں آرہی ہے کہ مستقبل قریب کی ضروریات کو ہی پورا کر پائیں. آئیے دیکھتے ہیں کس طرح؟
فوری طور پر بڑا کام کیا ہے اپنے سامنے
ویسے اسے طے کرنا ہمیشہ مشکل سمجھا جاتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ آسان اس لیے ہے کہ کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی جو گاؤں میں بستی ہے اور جسے کسان کہتے ہیں وہ حالت مرگ میں پہنچ گئے ہیں. اس بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ملک کا بجٹ بناتے وقت جو اس بات پر شبہ رہتا ہے کہ صنعت و تجارت پر زیادہ دھیان لگائیں یا زراعت پر، وہ شبہ اس بار بالکل نہیں ہے. ویسے بھی ملک کے جی ڈی پی کی تشخیص کے لئے جو تین علاقے طے ہیں ان میں سب سے بری حالت زرعی شعبے کی ہی ہے. اس کی ترقی کی شرح تاریخی طور پر نیچے یعنی صرف ڈھائی فیصد ہے. جو مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے کی ترقی کی شرح کے مقابلے میں سب سے کم ہے. ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی سے سروکار رکھنے والے زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں شراکت صرف 17 فیصد نکل کر آیا ہے. ظاہر ہے کہ ملک میں محروم طبقے کو ڈھونڈنا ہو تو وہ ملک کے دیہی علاقے میں ہی پایا جائے گا. یعنی اس وقت کے بجٹ سے کوئی بہتری کی امید لگانا ہو تو وہ گاؤں اور زرعی شعبے کے حق میں لگانا ہی بہتر ہے.
خوفناک بے روزگاری اس سے بھی بڑا چیلنج
گزشتہ سال کے تجربات میں جو سب سے زیادہ خوفناک بات تھی، وہ بے روزگاری کا مسئلہ رہا. یہ مسئلہ جتنے بھیانک شکل میں ہمارے سامنے ہے اسے کسی بھی طرح اب اور آگے ٹالا نہیں کیا جا سکتا. بے روزگاری کی زد میں گاؤں اور شہر دونوں ہیں. گاؤں کے غریب تو پہلے ہی بے روزگاری سے پریشان ہو رہے تھے اب شہری غریب بھی اس کی زد میں ہیں. اس طرح اس بار کے بجٹ میں اگر روزگار بڑھانے کے لئے کافی رقم مختص نہیں کی گئی تو بجٹ کا جائزہ لینے والے سخت رد عمل کر رہے ہوں گے.
متوازن بجٹ کا جملہ پِٹ سکتا ہے
گزشتہ چند سال سے متوازن بجٹ کا جملہ چلنے لگا ہے. جمہوری نظام میں ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ نعرہ سننے میں اچھا لگ سکتا ہے. لیکن جمہوری نظام کے بجٹ کا مقصد سب کی ترقی کے بجائے حساس طور پر پسماندہ طبقوں کا دھیان رکھنے کی بات کرتا ہے. بجٹ کا مقصد ہی امیروں سے لے کر غریبوں کو دینا ہے. یہ مقصد خوب سوچ بنایا گیا ہے. کوئی بھی نیا منطق پیدا نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں سرمایہ بڑھانا اس لئے ضروری ہے کیونکہ اس سے غریب کے پاس پیسہ اپنے آپ پہنچ جائے گا. دنیا میں جن لوگوں نے اور خود ہم نے بھی یہ کرکے دیکھ لیا ہے کہ یہ دلیل کام کی نہیں ہے. ابھی امیروں کے روٹ سے غریبوں کو سہولت پہنچانے کی بجائے غریبوں کو براہ راست دینے کے انتظامات درکار ہیں. یعنی بہت کم آثار ہیں کہ اس بار متوازن بجٹ کے جملے کو حکومت کی تعریف کے لئے استعمال کیا جا سکے. درکار یہ ہے کہ اس بار کا بجٹ اچھا خاصا متوازن ہوکر غریب، کسان، خواتین، بچوں اور بزرگو کے حق میں جھکا دکھے.
حکومت کے اشارے
ویسے حکومت کی طرف سے یہ اشارہ پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ اس بار لبھانے والے بجٹ کی توقع نہ کریں. لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے. بے شک بجٹ بہت ہی خفیہ دستاویز ہوتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں پہلے پتہ چل جائے تو سرمایہ کاروں کے سب سے بڑے مارکیٹ جسے شئیر بازار کہتے ہیں اس میں لوٹ مچنے کا اندیشہ ہو جاتا ہے. سو حکومت کے اشارے سے بالکل بھی اٹکل نہیں لگتی کہ اس کا آخری بجٹ کس کے حق میں ہو گا. ہو سکتا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہو کہ سرکاری اخراجات کے لئے پیسے کی وصولی تابڑ توڑ طریقے سے کی جائے گی. لیکن ایسی باتیں کوئی حکومت پہلے سے نہیں کہتی. وہ تو سنسنی خیز طریقے سے وصولی کو بھی ملک کے مفاد میں بتا کر سہلاتے ہوئے ٹیکس اور دوسرے طریقوں سے اگاہی کرتی ہے. ویسے بھی صنعت اور تجارت کا بھی حال اچھا نہیں ہے. ان پر اور زیادہ بوجھ پڑا تو اب وہ جھلا اٹھیں گے. اس طرح بالکل بھی اندازہ نہیں لگ پا رہا ہے کہ اس بار کے بجٹ میں گاج کس طبقے پر گرنے والی ہے.
کچھ بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ اس بار کا بجٹ اتنا زیادہ پیچیدہ نظر آسکتا ہے کہ اسی روز اس کا جائزہ لینا مشکل ہو جائے. اسی لیے بجٹ کا جائزہ لینے کے لئے پہلے سے ہی، اور کچھ زیادہ محنت سے ہوم ورک کرکے رکھنے کی ضرورت ہے. بالکل اس طرح جیسے پہیلیوں کو بوجھنے کے لئے پہلے سے مشق کی جاتی ہے.
مترجم: محمد اسعد فلاحی
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔