امن، ترقی اور نجات کے نفسیاتی پہلو

ڈاکٹر سلیم خان

علم نفسیات کے تحت بنیادی طور پر انسان کی ذہنی زندگی کی ابتدا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہوتی ہے۔عمومی نفسیات کے تحت فرد کی ذہنی کیفیت، جذبات اور احساسات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں فرد کے تعلق سے، حس، ادراک، توجہ، حافظہ، ارادہ، رویہ، تخیل، کردار، ہیجان، ردعمل، جذبات اورمختلف الجھاؤ وغیرہ زیربحث  آتے ہیں ۔ نفسیاتی  زاویہ سے انسانی زندگی کے مراحل اورامن، ترقی و نجات کا تعلق دلچسپ انکشافات کا سبب بنتا ہے۔ حیات زیست  کو تین مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طور پربچپن سے گزر کر انسان بڑے شوق سے  جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اور بادل نا خواستہ کبر سنی کی منزل پر پہنچ جاتا ہے مگر کچھ بدنصیب لوگوں کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ ؎

میں نے بچپن سے بڑھاپے میں قدم رکھا ہے  

میں نے دیکھی ہی نہیں اپنی جوانی صاحب.!

بچپن کا زمانہ اس لیے اچھا لگتا   کہ اس دور میں ہر چیز اچھی لگتی ہے۔محدود عقل و  سوچ کے باعث خواہشیں اور ضرورتیں  بہت مختصر ہوتی ہیں اس لیے حسرت و یاس  سے پالہ نہیں پڑتا۔  ننھی منی  خوشیاں اور چھوٹے چھوٹے غم کے ساتھ انسان فطر ی زندگی بسر کرتا   ہے۔ حقارت و مرعوبیت اس کے آس پاس نہیں پھٹکتے۔ وہ نہ کسی کامیابی پر اتراتا ہے اور نہ کسی ناکامی کا دکھ پالتا ہے۔ اسی لیے  طفل ِ آدم  کاقلب امن و سکون  کی دولت سے مالامال  رہتا ہے۔  جبلی  قناعت و توکل   سے متصف  انسانی نفس نہ تو اپنے گزرے ہوئے کل پر افسوس کرتا ہے اور آنے والے کل کے لیے فکرمند ہوتا ہے۔ عفو و درگذر کی صفات  اس کو ازخودہر دلعزیز بنادیتی ہیں ۔ بچہ شرارت تو کرتا ہے لیکن فساد نہیں کرتا۔ اس لیے اس کی شرارت پر غصہ کے بجائے  پیار آتا ہے۔  بچے سماجی امن و امان کے لیے کبھی  خطرہ نہیں بنتے۔ نفسیاتی اعتبار سے  یہ دور  بجا طور پر امن کا گہوارہ کہلانے کا حقدار ہے۔

ترقی کی بلندیوں کو چھونے کے لیے امنگوں اور خواہشوں کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوکر انسان جوانی  کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ قوت و توانائی کی  ایسی آندھی جوش مارتی ہے کہ اندیشوں اور خدشوں کا خوف اس کے پیروں کی زنجیر نہیں بنتا۔ یہیں پر دبے پاوں   غفلت کے عناصر پیر پسارتے ہیں ۔ حضرت انسان   بے فکری و بے خیالی کے عالم  میں جب  اپنے  خالق و مالک سے غافل ہوجاتا ہے تو اس کا نفس اس سے  بھلادیا جاتا ہے۔ حق و باطل سے ناآشنا جوانی اپنے فلاح و خسران سے بے نیاز ہوجاتی  ہے۔وہ اپنے آپ کو وسائل کا امین نہیں  بلکہ مالک سمجھ کر اس پر من مانا تصرف کرنے لگتا ہے۔ جوانی کی طغیانی  خشکی و تری میں فساد برپا کردیتی ہے کیونکہ حرص و ہوس کی  لہریں دوسروں کے حقوق  کی بے دریغ  پامالی کرنے لگتی ہیں ۔ ترقی کے اس شہ سوار کا عہدِ شباب میں بے بصیرت  ہونا خطرناک ہے بلکہ لازم ہے کہ وہ باشعور ہو۔  اس  کےہاتھوں میں  صبر و تحمل کی لگام ناگزیر ہے۔

بقول مستنصر حسین  تارڑ ’’ بڑھاپا عمر کا وہ خوبصورت محل ہے جس کی ہر کھڑکی ماضی کے باغیچے میں کھلتی ہے‘‘ اس لیے کہ نگاہوں  کے آگے دنیا کی بے ثباتی کا بھرم کھل چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں وقت کی ریت کو اپنی مٹھی جس قدر سختی  سے بھینچنے کی سعی کی جاتی  ہے اسی تیزی کے ساتھ  لمحات کی ریت  انگلیوں کے درمیان سے نکلتی چلی جاتی ہے۔ ایسے میں جبکہ موت ہر لمحہ قریب  تر ہوتی  ہوئی نظر آئے  اخروی نجات کا خیال اپنے آپ قلب و ذہن میں سکونت اختیار کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ملحدین کو کبر سنی  میں توبہ اور استغفار کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے اور وہ غفور و رحیم مالک ِحقیقی کے دامنِ رحمت میں پناہ لے لیتے ہیں ۔

کائناتِ ہستی میں ہر فرد بشر کا وقتِ آخر صیغۂ راز میں رکھا گیا ہے۔ اس لیے دانشمندی کا اولین تقاضہ  یہ ہے کہ  کسی صورت  نجات کی کوشش کو مؤخر نہ کیا جائے۔ اپنی عمر کے آخری حصے  میں بھی اخروی نجات سے غفلت ایک  ایساخطرناک  مایا جال ہے جو  دائمی عاقبت کو برباد کرسکتا ہے۔ مراحل  حیات سے امن، ترقی اور نجات کی یہ  مماثلت  واقعی حیرت انگیز ہے۔

تبصرے بند ہیں۔