آئن سٹائن: تعارف اور حالات زندگی (قسط دوم)

ادریس آزاد

اسی دوران، جب آئن سٹائن کاخاندان پروفیسر’’جوسٹ ونٹیلر‘‘ کےساتھ مقیم تھا، آئن سٹائن کو پروفیسر’’جوسٹ ونٹیلر‘‘(Jost Winteler) کی بیٹی ’’میری‘‘ (Marie)کے ساتھ پہلی محبت ہوگئی۔

1896میں آئن سٹائن نے والد کی اجازت سےاپنی جرمن شہریت کو مسترد کردیا تاکہ بطور شہری فوج میں فرائض انجام دینے کی ذمہ داری سے بچا جاسکے۔ ستمبر1896میں آئن سٹائن نے’’ سو ِس میچورا‘‘ کا امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کرلیا۔

سترہ سال کی عمر میں آئن سٹائن نے ریاضی  اور فزکس کے استاد کے طورپر ڈپلومہ حاصل کرنے کے لیے’’زیورِک پولی ٹیکنیک‘‘ میں داخلہ لے لیا۔

اس دوران آئن سٹائن کی پہلی محبت ’’مَیری‘‘ ٹیچنگ کی جاب کے لیے سوئٹرزلینڈ کے شہر’’ آلزبرگ‘‘ (Olsberg) منتقل ہوگئی۔

آئن سٹائن نے ’’زیورِک پولی ٹیکنیک‘‘ میں داخلہ لیا تو وہاں اس کی ملاقات اپنی دوسری محبت، ’’مِلیوا میرِک‘‘ (Mileva Maric)سے ہوئی۔

مِلیوا میرِک  ٹیچنگ کورس میں داخلہ لینے والے کُل چھ طلبہ میں اکیلی لڑکی تھی۔

آنے والے چند سالوں میں میرِک اور آئن سٹائن کی محبت پروان چڑھنے لگی۔
وہ دونوں مل کر سٹڈی کرتے، کتابیں پڑھتے یا فزکس اور ریاضی کے سوال حل کرتے۔

آخر 1900 میں آئن سٹائن نے ’’زیورِک پولی ٹیکنیک ٹیچنگ ڈپلومہ‘‘ حاصل کرلیا البتہ اس کی محبوب ’’مِلیوا میرک‘‘ یہ امتحان پاس نہ کرسکی اور ریاضی میں فیل ہوگئی۔جنوری 1903میں آئن سٹائن اور میرک کی شادی ہوگئی۔

مئی 1904  میں، سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں اُن کے پہلے بیٹے ’’ہینز البرٹ آئن سٹائن‘‘ (Hans Albert Einstien) کی پیدائش ہوئی۔جولائی 1910 میں، زیورِک میں اُن کے دوسرے بیٹے ایڈورڈ آئن سٹائن کی پیدائش ہوئی۔

اِن دونوں بیٹوں سے پہلے آئن سٹائن اور میرک کی ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی تھی جس کانام’’ لائزرل‘‘ (Lieserl) تھا اور جو غالباً یا تو بخار لال بخار  (Scarlet Feverکی وجہ سے وفات پاگئی یا آئن سٹائن اور میرک نے اُسے کسی اور خاندان کے سپرد کردیاجہاں وہ بیماری سے محفوظ رہ پاتی۔

دراصل آئن سٹائن کی اِس بیٹی کی بابت سوانح نگاروں کو 1986 تک علم ہی نہیں تھا۔ پہلی بار لائزرل کا ذکر اُس وقت سامنے آیا جب آئن سٹائن کی پوتی اور ’’ہینز البرٹ آئن سٹائن‘‘کی بیٹی ’’ایوی لین‘‘ (Evelyn) نے آئن سٹائن کے کچھ خطوط دریافت کیےجواس کے دادا اور دادی کے درمیان مراسلت کے سلسلہ پر مشتمل تھے۔

ان خطوط سے پتہ چلا کہ یہ بچی 4فروری 1902  سے کچھ پہلے پیدا ہوئی ہوگی۔ بیٹی کی پیدائش سے پہلے خطوط کے ذریعے آئن سٹائن اور میرک میں لڑکی یا لڑکے کی پیدائش اور نام سے متعلق بحث سے ثابت ہوتاہے کہ دونوں کو پہلی اولاد کی کتنی شدید خواہش تھی۔

لیکن انہی خطوط سے پتہ چلتاہے کہ بچی پیدائش کے بعد لال بخار کا شکار ہوگئی۔ البتہ خطوں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بچی بعد میں فوت ہوگئی یا کسی اور خاندان کو دے دی گئی جہاں اس کی اچھی پرورش ہوپاتی۔

اپریل 1910 میں آئن سٹائن اور میرک بچوں سمیت برلن منتقل ہوگئے لیکن میرک چند ماہ بعد بچوں سمیت واپس ’’زیورِک‘‘ آگئی، جب اُسے پتہ چلا کہ آئن سٹائن کو اب اپنی فرسٹ کزن ’’ایلسا‘‘ (Elsa)کے ساتھ محبت  ہوگئی تھی۔

یہ آئن سٹائن کی تیسری محبت تھی۔ 14فروری 1919کو پانچ سال ایک دوسرے سے دُور رہنے کے بعد آخر دونوں میاں بیوی کے درمیان مکمل علحیدگی یعنی طلاق ہوگئی

اِن حالات نے آئن سٹائن کے دوسرے بیٹے ایڈورڈ پر بہت بُرے اثرات ڈالے اور وہ مالیخولیا یعنی شیزوفرینیا کا مریض ہوگیا۔
آئن سٹائن اپنے دوسرے بیٹے ایڈورڈ کو پیار سے ٹی ٹی کہہ کر پکارتا تھا۔

جس سے معلوم ہوتاہے کہ ایڈورڈ نے والدین کی علحیدگی کا بہت برا اثر لیا اور ذہنی طور پر بیمار ہوگیا۔ بعدازاں ایڈورڈ اتنا شدید بیمار ہوا کہ کئی مرتبہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروانا پڑا  اور بالآخر والدہ کی وفات کے  بعد مستقبل طور پر ذہنی امراض کے ہسپتال میں ہی داخل کروادیا گیا۔

2015میں آئن سٹائن کے کچھ اور خطوط دریافت ہوئے جن سے پتہ چلا کہ آئن سٹائن اپنی پہلی محبت ’’میری‘‘ کو کبھی نہیں بھولا تھا۔ 1910میں اسے ایک خط میں ’’میری‘‘ کولکھا،

’’میں تمہارے بارے میں سوچتاہوں، دل میں محسوس کیا جانے والا ہروہ لمحہ جو مجھے میسر آتاہے، اُس لمحے میں تمہیں یاد کرتاہوں اور میں بے حد ناخوش ہوں۔ اتنا کہ جتنا کوئی بھی مرد ہوسکتاہے‘‘

حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب آئن سٹائن کی بیوی ’’مِلیوا میرک‘‘ حاملہ تھی اور اُس کے بطن سے ایڈورڈ پیدا ہونے والا تھا۔ انہی خطوں میں آئن سٹائن نے اپنی پہلی محبت مَیری کو لکھا کہ وہ  ایک’’بے رہبر‘‘ محبت اور ’’ہاتھوں سے پھسل جانے والی زندگی‘‘ جی رہاہے۔

1919 میں آئن سٹائن نےآخر ’’ایلسا لووِنتھل‘‘ (Elsa Lowenthal)کے ساتھ شادی کرلی۔ یوں گویا کئی سال تیسری محبت میں مبتلا رہنے اور پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد آئن سٹائن نے دوسری شادی کی۔

ایلسا آئن سٹائن کی خالہ کی بیٹی تھی اور والد کی طرف سے سیکنڈ کزن بھی تھی یعنی اس پیدائش کے وقت لفظ ’’آئن سٹائن‘‘ اُس کے بھی خاندانی نام کا حصہ تھا۔

1933میں جب آئن سٹائن نے امریکہ ہجرت کی تو ایلسا آئن سٹائن ہی بطور بیوی آئن سٹائن کے ساتھ تھی۔ 1935 میں ایلسا گردوں اور دل کی بیماری میں مبتلا ہوگئی اوردسمبر 1936 میں وفات پاگئی۔

نوکری کی تلاش کا مسئلہ

1900میں فزکس اور ریاضی کے ٹیچر کا ڈپلومہ حاصل کرلینے کے بعد آئن سٹائن دوسال تک ٹیچنگ کی جاب کے لیے مارا مارا پھرتا رہا۔آئن سٹائن کو سوئٹزلینڈ کی شہریت تو1901میں مل گئی تھی لیکن میڈیکل وجوہات کی بنا پر اُسے دیر تک قومی خدمات کے قابل نہ سمجھاگیا اور اسی لیے اسے نوکری کے حصول میں دشواری پیش آرہی تھی۔بالآخرآئن سٹائن کو ایک سفارشی نوکری حاصل کرنا پڑی۔ آئن سٹائن کے کلاس فیلو اور قریبی دوست ’’مارسیل گروسمین‘‘ (Marcel Grossmann) کے والد کی سفارش سے آئن سٹائن کو ایک معمولی نوکری ملی۔

جو اُس وقت تو آئن سٹائن کو بہت معمولی محسوس ہوئی لیکن اگر آئن سٹائن کے کارناموں پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آئن سٹائن کی فکری زندگی پر سب سے گہرے اثرات اُسی نوکری کے وقت مرتب ہوئے۔یہ’’ دراصل سوئٹزلینڈ کے شہر برن میں فیڈرل آفس فار اِنٹیلکچول پراپرٹی‘‘ میں ’’پیٹنٹ کلرک‘‘ کی جاب تھی۔

آئن سٹائن کے زمانے میں سائنسی ایجادات کو اپنے نام کروانے کا بڑا زبردست رواج تھا۔ اگرچہ آج بھی ایسا ہی ہے لیکن اٹھارویں،انیسویں اور بیسیویں صدی کے موجدوںمیں یہ مسئلہ کسی وبا کی طرح پھیلا ہوا تھا۔

چنانچہ جس محکمہ میں آئن سٹائن کو کلرکی ملی وہ محکمہ ہی ایسی ایجادات کو رجسٹر یعنی پیٹنٹ کروانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ آئن سٹائن وہاں تیسرے درجے کا تجزیہ کار تھا۔ اس کے عہدے کا نام، ’’اسسٹنٹ اِگزامنر لیول تھرڈ‘‘ تھا۔

یہاں اُسے لوگوں کی ایجادات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس نے بے شمار آلات، مشینوں اور پرزوں کا نہایت گہرا معائنہ کیا۔ مثلاً اسی عرصہ میں آئن سٹائن نے ’’بجری چھاننے کی ایک مشین‘‘اور ایک’’ الیکٹرو کیمیکل ٹائپ رائٹر‘‘ کو پیٹنٹ(Patent) کیا۔

اس کے علاوہ اُسے اِس نوکری کے عرصہ میں سوچنے کے لیے بہت وقت ملا۔ کیونکہ یہ جاب مصروف نوعیت کی نہیں تھی۔ آئن سٹائن اگر کسی موجد کی ایجاد کو پرکھ یا جانچ نہ رہاہوتا تو وہ فقط سوچ رہا ہوتا تھا۔

1903 میں آئن سٹائن کی یہ جاب پرمستقل ہوگئی لیکن اپنے عہدے سے ترقی اُسے اُس وقت تک نہ مل سکی جب تک وہ عملی طور پر ایک مکمل مکینکل انجنئر نہ بن گیا۔ مشینوں کا اتنا گہرا اور اتنا قریب سے مطالعہ کرتے ہوئے آئن سٹائن کے سامنے دو سوال باربار اوربہت زیادہ نمایاں ہوکر آتے رہے۔

نمبرایک، الیکٹرک سگنلز کی ترسیل یعنی ٹرانسمشن، بہتر سے بہتر کس طرح ممکن ہے؟

نمبردو، الیکٹریکل اور میکانیکل آلات کی آپس میں ٹائمنگ کا بہترین تناسب کس طرح ممکن ہے؟

پہلا سوال یعنی برقی پیغامات بہتر سے بہتر طریقے سے کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جائیں اور ددوسرا سوال کہ مشینوں اور برقی پیغامات کے درمیان’’ وقت سازی‘‘ کس طرح کی جائے کہ دونوں، یعنی مشینوں اور برقی پیغامات کی آپس میں سِنکرونائزیشن  (synchronization)  ممکن ہوجائے۔

سنکرونائزیشن سے مراد تھی کہ الیکٹریکل سگنلز اور مشینوں کے درمیان وقت کا ٹھیک ٹھیک تعین ہوسکے کہ کون سے سِگنل کے بعد مشین نے کیا کرناہے۔

ان دو سوالوں کی موجودگی میں آئن سٹائن کو پتہ چلا کہ نیوٹن کی فزکس مشینوں کو بنانے اور چلانے میں تو بہت مدد دیتی ہے لیکن برقی یا مقناطیسی لہروں کے بارے میں کچھ خبر نہیں دیتی۔

پس اگر کسی شخص کو ایسی مشین بنانی ہو جس میں برقی یا مقناطیسی لہروں سے پرزوں کو چلایاگیا ہو تو دو طرح کی فزکس کا علم درکار ہوتاہے۔

ایک برقی مقناطیسی لہروں کا علم اور دوسرا نیوٹن کی میکانکس کاعلم۔ برقی مقناطیسی لہروں کا علم آئن سٹائن کے زمانے میں بھی ابھی نومولود تھا۔

آئن سٹائن سے پہلے اگرچہ’’ میکس ویل‘‘ نے برقی مقناطیسی لہروں کے علم پر حتمی نوعیت کی مساواتیں دریافت کرلی تھیں لیکن نیوٹن کی پرانی فزکس اور برقی مقناطیسی لہروں والی نئی فزکس کو آپس میں جوڑنے کا کام ابھی تک کسی نے انجام نہ دیا تھا۔

چنانچہ آئن سٹائن اپنے فارغ اوقات میں انہی نکات پر غوروفکر کرتارہتاتھا۔ اوریوں اُسے روشنی کی فطرت، وقت اور مکان کے بارے میں غورکرنے کا سب سے زیادہ موقع اِسی نوکری کے عرصہ میں میسر آیا۔

اپنے غوروفکر کے نتائج وہ اپنے، برن میں بننے والے چند دوستوں کے ساتھ بھی ڈسکس کرتاتھا۔ اسی وجہ سے1902میں آئن سٹائن نے بزعمِ خود ’’دی اولمپیااکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک مباحثہ گروپ کی بنیاد رکھی۔ جہاں یہ لوگ سائنس اور فلسفہ کی بحثیں چھیڑتے، مل کر مطالعہ کرتےاور مختلف نظریات پرگرما گرم گفتگوئیں کیا کرتے تھے۔

اُن کے مطالعہ میں’’پوائن کیرے‘‘(Henri Poincare)، ’’ارنسٹ مارچ‘‘ (Ernst Mach) اور ’’ڈیوڈہیوم‘‘ (David Hume)کے افکارونظریات شامل تھےجن کے اثرات آئن سٹائن کے فلسفیانہ تفکر بہت میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔