خدا کے وجود کے سائنسی دلائل

ڈاکٹر احید حسن

کائنات اور اس کے ایک ایک ذرے میں اتنی باریک ترتیب رکھی گئی ہے کہ کائنات کا کسی طرح بھی خود بخود وجود میں آنا ثابت نہیں ہوتا اور اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملحدین کے نظریہ خود بخود یعنی نظریہ ارتقا کے برعکس کائنات اور اس میں واقع ہونے والے تمام عوامل اتنی ترتیب میں اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان کا کسی طرح بھی خود بخود وجود میں آنا اور وقوع پذیر ہونا ثابت نہیں  ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں کارفرما طبیعیات  فزکس، کیمیا یا کیمیسٹری اور حیاتیات یا بیالوجی کے سائنسی قوانین اتنے ترتیب میں، اتنے باریک اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان میں ذرا برابر تبدیلی زمین پہ زندگی کے وجود کو ناممکن بنا دے گی۔ آخر یہ قوانین کیوں اس قدر باریک حد میں اربوں سالوں سے بغیر تبدیل ہوئے موجود ہیں۔ یہ ایک خالق کے بغیر کس طرح ممکن ہے؟ کائنات میں موجود کائنات کی چار بنیادی قوتوں یا Universal Forces  میں باہم زندگی کے وجود کے لیے اتنا عظیم اور زبردست توازن کیسے موجود ہے۔ماہرین فزکس یا طبیعیات کے مطابق کائنات میں چار بنیادی قوّتیں یعنی کشش ثقل یا Gravity, برقی مقناطیسیت یا Electromagnetism , مضبوط اور کمزور نیوکلیائی قوّت یا Strong and weak nuclear force ہیں۔

ماہر طبیعیات یا فزکس رچرڈ مورس کے مطابق "ان میں سے ہر قوت میں ایک خاص مضبوطی لازم ہے اگر زمین پہ زندگی کا وجود ممکن سمجھنا ہے”۔کیا یہ سب توازن اربوں سالوں سے خود بخود اور بغیر تبدیلی کے قائم رہ سکتا ہے؟ کیا ایک عمارت خود بخود بن سکتی اور قائم رہ سکتی ہے؟ ہماری زمین کے کرہ ہوائی یا Atmosphere کا ایک خاص دباؤ ہے جس کی وجہ سے اس کی سطح پہ وہ پانی ہر وقت موجود ہے جو زندگی کی بقا کے لیے لازمی ہے۔زندگی کے لیے ہماری زمین پہ بھاری عناصر یا Heavy elements اور نامیاتی مرکبات یا Organic molecules کا ایک خاص توازن بھی کیا محض ایک اتفاق کا نتیجہ ہے؟ محض چند ہی سیارے ایسے ہیں جن کا ایک چاند ان سے اتنے درست فاصلے پہ ہے جو زمین پہ زندگی کا وجود اور کرہ ہوائی برقرار رکھنے میں مدد دے جیسا کہ ہماری زمین۔محض چند ہی سیارے ایسے ہیں جن کے ہمسایہ سیاروں میں مشتری یعنی Jupiter جیسا ایک مہربان سیارہ رکھ دیا گیا ہو جو کہ زمین پہ زندگی کے لیے خطرہ بننے والے دمدار ستاروں یعنی Comets اور سیارچوں یعنی Asteroid  کو اپنی طرف کھینچ کر تباہ و برباد کر ڈاکے ڈالے اس سے پہلے کہ وہ زمین  پہ گر کر زندگی کو تباہ و برباد کر ڈالیں۔ ماہرین طبیعیات نے دریافت کیا ہے کہ مادے کے جوہروں یا ایٹم کی ساخت یا قوت میں ذرا برابر تبدیلی زندگی کو زمین پہ ختم کردے گی۔

مثلا اگر ایٹم یا جوہر میں موجود مثبت ذرے یعنی پروٹون صرف 2٪ بھی زیادہ بڑے ہو جائیں یا اگر اچانک منفی ذرے یا الیکٹرون کی جسامت یعنی سائز دوگنا کر دیا جائے تو ایٹم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور زندگی جو ان جواہر پہ مشتمل ہے تباہ و برباد ہو جائے گی۔اگر زمین اپنی موجودہ جسامت سے تھوڑی بھی چھوٹی ہوتی تو یہ مریخ کی طرح زندگی کے لیے بالکل نامناسب ہوتی۔ اگر زمین کے مرکز میں پگھلا مرکزہ یا Molten core نہ ہوتا تو زمین کے گرد موجود حفاظتی مقناطیسی میدان تباہ ہوجاتا۔ اگر ہمارا چاند نہ ہوتا تو ہماری زمین کا موسم اتنا سخت ہوتا کہ اس پہ زندگی کا وجود ناممکن ہوتا۔ہماری زمین پہ پانی اور خشکی کی مناسب مقدار موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سیارے پہ زندگی کے وجود کے لیے 322 سائنسی پیمانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان پیمانوں میں سے سب کیا صرف ایک  کا بھی  بغیر کسی خالق کے خود بخود وجود میں آنا سائنس ناممکن ثابت کرچکی ہے۔ یہ سب سائنسی حقائق ایک عظیم اور ذہین خالق کے وجود کی دلیل اور ذہین تخلیق یا Intelligent design کا ثبوت ہیں کہ خالق نے کس طرح زندگی کے لیے زمین کو ہر طرح مناسب بنا دیا۔

سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کائنات میں موجود ایک دافع قوت یا Repelling force یعنی تاریک توانائی یا Dark matter اتنی کافی ہے کہ یہ کائنات کے پھیلاؤ کو نہ تو زیادہ ہونے دیتی ہے کہ کائنات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو  اور نہ ہی کم۔اگر اس توانائی کا اثر زیادہ ہوتا تو یہ کشش ثقل یا Gravity پہ قابو پالیتی جو کہ کائنات کی بقا کے لیے لازمی ہے۔ایک ملحد ماہر علم کائنات یا Cosmologist فریڈ ہوائل کے مطابق ” حقائق کا ایک عام فہم مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک مافوق الفطرتی دانش یا Super intellect نے فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے حیرت انگیز کمالات کا مظاہرہ کیا ہے۔” یہ مافوق الفطرتی دانش خدا نہیں تو اور کیا ہے۔ ماہرین علم الکائنات یا Cosmology کے مطابق ایک ایسی کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کا امکان 1010^23 میں ایک سے بھی کم ہے جو زندگی کو سہارا دے سکے یعنی 10000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000 میں سے ایک بھی نہیں یعنی کہ ناممکن۔2012 ء میں WMAP کے مطابق کائنات کی عمر 13.772 بلین یعنی تیرہ ارب سال سے زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ کائنات میں کسی ارتقائی عمل سے خود بخود زندگی کا وجود میں آنے کا امکان اتنا کم ہے جو کائنات کی اس تمام عمر میں بلکہ اس سے بھی لمبی عمر میں نہیں ہوسکتا تھا۔اس کا واضح مطلب ہے یہ کائنات اور زندگی خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اسے ایک خالق نے تخلیق کیا۔ مزید کے لیے جے رچرڈز کی Is there merit for intelligent design in Cosmology اور سٹیفن میئر کی کتاب Evidence of design in physics and biology کا مطالعہ کیجیے۔

مزید برآں کوئی بھی طبعی یا فزیکل یا کیمیائی یا کیمیکل قانون ڈی این اے کے بنیادی اجزاء یعنی نیوکلیوٹائیڈ کی ترتیب کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ ڈی این کے اشاراتی یا کوڈنگ حصے لحمیات یعنی پروٹین کی تیاری اور عمل کے لیے انتہائی مخصوص ہیں۔ ان اشاراتی حصوں یا کوڈنگ میں صرف ایک بنیادی جزو یا نیوکلیوٹائیڈ کی بھی تبدیلی وہ پروٹین پیدا کرتی ہے جو مکمل طور پہ ناقص ہوتی ہے۔ کیا یہ سب انتہائی مخصوص ترتیب محض خود بخود ارتقائی عمل کی پیداوار ہے؟ یہاں تک کہ مشہور عالمی  مذہب دشمن ملحد ماہر حیاتیات یا بیالوجی رچرڈ ڈاکنز کہتا ہے:

"بیالوجی یا حیاتیات ان پیچیدہ چیزوں کا مطالعہ ہے جو ایسے لگتا ہے کہ ڈیزائن یعنی پیدا کی گئی ہیں۔ ” کس قدر بیوقوفی اور ضد کا مظاہرہ کر رہا ہے رچرڈ ڈاکنز۔جب خود کہتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ چیزیں ڈیزائن کی گئی ہیں تو پھر ان کو ڈیزائن کرنے والے خالق کا انکار کیوں کر۔ایک ماہر حیاتیات کی طرف سے اس طرح کے کم عقلی اور غیر منطقی رویے کا اظہار کیوں۔ ذہین نمونے یا Intelligent design کے نظریے کے ماہر سٹیفن سی میئر کے مطابق ” تمام صورتوں میں جہاں ہم جانتے ہیں، ان عظیم معلومات رکھنے والے مادوں کی تخلیق ایک ذہین نمونے کے خالق نے کی.”

سٹیفن میئر DNA and other designs or DANA and the origin of life میں لکھتے ہیں "جب تجرباتی کام حیاتیات یعنی بیالوجی میں ناقابل تخفیف پیچیدگی یا Irreducible complexity ظاہر کرتا ہے تو ماہرین حیاتیات یا بیالوجی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ ساخت نمونہ کی گئی یعنی پیدا کی گئی ( نہ کہ خود بخود وجود میں آئی).اس بات کا کیا امکان ہے کہ زندگی کے لیے لازمی تمام لحمیات یعنی پروٹین ایک ہی جگہ پہ خود بخود وجود میں آئیں ؟ ہائل اور وکرام سنگھ کے مطابق اس بات کا امکان 10^ 4000 یعنی اگر دس کے بعد چار ہزار صفر لگائی جائے یعنی بیشمار  کھربوں میں صرف ایک ہے جو کہ محدود کائنات میں مکمل طور پہ ناممکن ہے۔ ایک خلیے یعنی سیل کی معلومات کے زیر اثر کام کرنے والی قدرتی خراد یعنی مشینری ایک خفیہ  لسانی بنیادوں پہ مبنی اشاروں یا کوڈ  میں کام کرتی ہے جو کہ ناقابل تخفیف قدرتی سلسلوں یا سرکٹ اور خرادوں پہ مشتمل ہوتی ہے۔ اس عمل میں کام کرنے والے عمل انگیر یعنی قدرتی خامرے یا انزائم بذات خود اسی عمل سے پیدا ہوتے ہیں جو عمل ڈی این اے کے ان خفیہ اشاروں یا کوڈ کو ڈی این اے میں تبدیل کرتا ہے۔ان میں سے صرف ایک عمل انگیز بھی ناقص ہو تو تمام عوامل رک جائیں گے۔کیا یہ سب ایک اندھا دھند ارتقائی عمل کی پیداوار ہے؟ چونکہ خلوی خفیہ زبان یا کوڈ کے لیے ایک مصنف کا ہونا لازمی ہے،اس عظیم مشینری کے لیے ایک انجنیئر کا ہونا لازمی ہے اور اس طرح کے ایک خفیہ کوڈ کے لیے ایک پروگرامر کا ہونا لازمی ہے جو کہ اس خفیہ زبان کا کوڈ مقرر کرے لہذا کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس صورت میں بھی ایک مصنف، انجنیئر اور پروگرامر  لازمی ہوگا اور وہ خدا ہے۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے مائیکل بیہے کی Molecular machines: experimental support for the design inference اور سٹیفن میئر کی کتاب The Cambrian explosion: Biology,s big bang کا مطالعہ کریں۔

ڈارون نے خود اپنے نظریہ ارتقا کے لیے ایک معیار مقرر کیا تھا۔ اس نے اس بات کی تصدیق کی تھی
"اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ ایسے پیچیدہ اعضاء موجود ہیں جو بیشمار، مسلسل اور چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے وجود میں نہیں آسکتے تو میرا نظریہ یعنی نظریہ ارتقا مکمل طور پہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگا۔”

آج ساینس اس بات کی  تصدیق کر چکی ہے کہ ایسے پیچیدہ اعضاء موجود ہیں جن کا وجود ایک اندھا دھند ارتقائی عمل بالکل نہیں کر سکتا۔

طبیعیات یا فزکس کے حوالے سے  کائنات میں موجود عمدہ نفیسگی یا Fine tuning کا ہماری کائنات کی ایک خصوصیت سے تعلق ہے جس میں طبیعیاتی مستقل یا Physical constants اور سائنسی قوانین  ایک بلیڈ کی طرح  انتہائی باریک حد میں توازن کی حالت میں ہیں تاکہ ان کی وجہ سے زمین پہ زندگی کا وجود ممکن ہوسکے اور اس بات کا درجہ اتنا زیادہ ہے کہ کئی مادہ پرست سائنسدان خود تسلیم کر چکے ہیں کہ ان سائنسی قوانین کے پیچھے ایک خاص مقصد کارفرما ہے۔ یہ مقصد خدا کا مرتب کردہ نہیں تو اور کس کا ہے۔ ملحد ماہر فلکیاتی فزکس یا Astrophysicist فریڈ ہائل کے مطابق یہ عمل اس بات کی تائید کرتا ہے کہ کائنات میں کوئی اندھا دھند قوتیں کارفرما نہیں ہیں۔ لہذا وہ خود اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ کائنات خود بخود ایک اندھے بگ بینگ یا ارتقائی مراحل سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ بگ بینگ کی ایک خاص ترتیب میں ایک خدا کی طرف سے پیدا کی گئی۔ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ کائنات میں ایک ذہین ہستی موجود ہے جس کے پاس تمام توانائیوں کی قوت یا Energy force ہے اور اگر یہ توانائی رکھنے والی ہستی اپنا دائرہ اثر ہماری  مادی دنیا تک بڑھانا چاہے تو وہ یہ لازمی اپنی توانائی کی زبان یا Energy language کو ایک مادی زبان یا Matter language میں تبدیل کرکے کرتی ہوگی جس سے اس کی قوت اور طاقت کا اندازہ اس مادی دنیا اور تمام زندگی کو ہوتا ہے۔

سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جوہروں یا ایٹموں اور سالموں یا مالیکیولوں میں ایک اندرونی ذہانت یا Intrinsic intelligence موجود ہے۔ یہ ذہانت اس مادے میں کائنات میں موجود برقی مقناطیسی قوتوں یا Electromagnetic force سے منتقل ہوتی ہے اور یہ توانائی کے خاص اشاروں یا Energy code patterns کی صورت میں ہوتی ہے جس سے مادے میں ذہین سالمیاتی رابطے یا Molecular linkages بنتے ہیں۔ اور یہ کرانے والی برقی مقناطیسی قوّت یا Electromagnetic force کائناتی برقی مقناطیسی قوّت سے مسلسل رابطے میں ہوتی ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں  یہ کائنات میں موجود غیر مادی برقی مقناطیسی قوّت کی مادی وسعت یا Matter extension ہے۔ چونکہ کائنات میں موجود تمام توانائیوں کی قوت یا انرجی فورس ایک ابتدائی توانائی کی ہستی یا Primordial energy intity سے پیدا ہوئی، لہزا ہم مکمل درست طور پہ کہ سکتے ہیں کہ یہ ابتدائی توانائی کی ہستی موجودہ تبدیل حالت یعنی کائنات کے ساتھ ایک واحد ہرجگہ موجود ہستی ہے جس کو ہم سادہ لفظوں میں خدا کہتے ہیں۔
آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافت یا General theory of relativity اس بات کی پیشین گوئی کرتا ہے کہ تمام طبعی قوانین یا فزیکل لاز بگ بینگ کے پوائنٹ زیرو پہ ختم ہو جاتے ہیں۔ کمپیوٹر پر کیے گئے اعدادوشمار کائنات کے بارے میں صرف وہ بتاتے ہیں

جو بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے چند حصوں میں ہوا لیکن اس سے پہلے تمام طبعی قوانین ناکام اور سائنس کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ دوسرے لفظوں میں طبیعیات یا فزکس کے یہ قوانین کائنات میں بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے چند حصوں میں متعارف کروائے گئے جب ابتدائی توانائی کی ہستی یا Primordial energy intity نے بگ بینگ کو مکمل ترتیب دی۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مکمل ٹھیک ہے کہ کائنات میں موجود سائنسی قوانین بذات خود اسی ہستی کے اندر پیدا ہوئے دوسرے لفظوں میں اسی ہستی نے وہ تمام سائنسی قوانین پیدا کیے جن پہ یہ کائنات آج تک چل رہی ہے۔ کیا اس عظیم کائنات کے عظیم سائنسی قوانین پیدا کرنے والی ہستی ایک عظیم ترین اور ذہین ہستی خدا نہیں  ہوسکتی؟ وہ خدا نہیں تو اور کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ تمام سائنسی قوانین ایک ایسی ہستی نے اس توانائی میں متعارف کروائے جو اس سارے عمل کو براہ راست قابو کر رہی تھی جو اس کائنات کی وحدانیت یا Singularity سے باہر رہ کر اس کو تخلیق کرا رہی تھی۔ مافوق الضیائی روابط کے  نظریے یا Super luminal connections theory کے مطابق ایسے سائنسی روابط ممکن ہیں جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز عوامل سے وقوع پذیر ہوتے ہیں لیکن ابھی تک فزکس کی غیر دریافت شدہ حدود میں ہیں اور یہ روابط مکان  یعنی Space سے تعلق نہیں رکھتے۔ زمان و مکان  یعنی ٹائم اینڈ سپیس کائنات کے ساتھ پیدا کیے گئے۔ جب کہ خدا ان سے پہلے موجود تھا جس نے اس زمان و مکان والی کائنات کو پیدا کیا۔ لہذا اس کا پیدا کرنے والا کسی طرح زمان و مکان کا پابند نہیں  کیونکہ خالق مخلوق کا پابند نہیں ہوتا۔ اس نظریے کے مطابق کوانٹم دنیا میں خفیہ راستے موجود ہیں جو سہ جہتی مکان یا Three dimensional space کی زمانی رکاوٹ یا Time barrier کے قابو میں آیے بغیر کارفرما ہیں جو کہ ثابت کرتے ہیں کہ خدا خود بھی اور اس کی طرف سے کچھ سائنسی عوامل بھی ایسے ہیں جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔ یہ کوانٹم راستے یا Quantum doorways اتنے چھوٹے ہیں کہ باریک سے باریک ترین ذرات سے بھی کم چھوٹے ہیں لیکن جن کے ذریعے توانائی اور قوت یعنی انرجی اینڈ فورس ایک دوسرے سے آزاد رابطہ رکھتے ہیں۔

متحدہ حقیقت کا نظریہ یا Unified realityکہتا ہے کہ حقیقت کا ماخذ ایک عالمگیر آگاہی یا Universal consciousness ہے اور ہم کسی طرح بھی اس ماخذ سے آزاد نہیں۔ میں اس معاملے میں دلچسپی رکھنے والے حضرات سے گزارش کروں گا کہ وہ دیپک چوپڑا کی کتاب How to know God کا مطالعہ کریں۔

کچھ ملحدین اخلاقیاتی طور پہ ردعمل رکھتے ہیں اور دوسروں سے اچھے اخلاقیات کی امید رکھتے ہیں۔ لیکن حتمی اخلاقیات یا Absolute reality الحاد سے میل نہیں کھاتی۔ طرز عمل کا ایک حتمی، بامقصد معیار کیوں ہونا چاہیے جس پہ دنیا کے تمام لوگ چلیں اگر کائنات اور اس میں موجود تمام لوگ محض ایک اتفاق کا نتیجہ ہیں۔ یقینا لوگ کہ سکتے ہیں کہ ایک اخلاقیاتی اصول موجود ہے لیکن یہ اخلاقیاتی اصول کیا ہونا چاہیے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک نسل پرست ہونا، کچھ کے نزدیک بچوں کا قتل اور کچھ کے نزدیک باقی مذاہبِ کے لوگوں کا قتل جائز ہوگا۔لیکن اب ان میں سے کس کی بات پہ چلنا چاہیے۔ اگر ہم خود بخود پیدا ہوئے ہیں تو ہماری اپنی تخلیق کا معیار نفسی یا Subjective اور عارضی ہوگا۔ کچھ ملحد کہ سکتے ہیں کہ کہ یہ ٹھیک ہے اور اخلاقیات ایک نفسی عمل ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنی مرضی کا اصول مرتب کرنے کی اجازت ہے اور آپ کسی پہ اپنا اخلاقیاتی اصول لاگو نہیں کر سکتے۔لیکن یہ اصول بذات خود اپنی تردید کرتا ہے کیونکہ جب وہ کہتے ہیں کہ آپ دوسرے پہ اپنے اصول لاگو نہیں کر سکتے تو وہ آپ پہ اپنے اصول لاگو کر رہے ہوتے ہیں۔ لہزا اس صورت میں اخلاقیات کسی طرح بھی نفسی یا ذاتی انتخاب نہیں کہے جا سکتے۔اور نہ ہی یہ اصول ایک خود بخود پیدا ہونے والے انسان خود مرتب کر سکتے ہیں بلکہ یہ پیدا کرنے والا خالق کرے گا کیونکہ بگ بینگ کے ذریعے محض ایک اتفاق سے بننے والی کائنات میں کس طرح غیر مادی،عالمگیر اور غیر متغیر سائنسی قوانین موجود ہوسکتے ہیں ؟ اگر کائنات کی ہر چیز صرف ایک حرکت میں موجود سالمہ یا مالیکیول ہے تو وجہ اور توجیہ کا ایک حتمی معیار کیوں ہونا چاہیے۔
1967ء میں سائنسدانوں نے ایک جوہری گھڑی یا Atomic clock ایجاد کی۔ یہ سیزیم 133 کے جواہر یا ایٹموں کو استعمال کرتی ہے کیونکہ وہ 9,192,631,770 فی ثانیے یا سیکنڈ کی رفتار سے ارتعاش میں ہوتے ہیں جس سے ہمیں تیس ملین سالوں میں ایک سیکنڈ کی حد میں درستگی یا Accuracy ملتی ہے۔کیا آپ اتنی درست گھڑی پسند نہیں کریں گے؟ سیزیم 133 کے یہ ایٹم کبھی اپنے ارتعاش کی شرح تبدیل نہیں کرتے۔ وہ مستقل  اور قابل انحصار ہیں اور ایسے مستقل اور  قابل انحصار ارتعاشات کسی خود بخود کی پیداوار نہیں ہوسکتے جو کہ اربوں سالوں سے ایک ہی شرح پہ ارتعاش میں ہوں۔ ایک دانشمند ذہن کبھی بھی اس درستگی کو خود بخود کی پیداوار نہیں کہے گا بلکہ اسے ایک عظیم اور ذہین خالق کی تخلیق قرار دے گا۔

ریڈیم ہمیشہ اضافی جوہر یا ایٹم اشعاعی اثر  یا Radiation effect سے کھوتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ ایک بھاری عنصر یعنی لیڈ یا سیسے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ عمل 1590 سال میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ہم کیا کہ رہے ہیں ؟ ہماری بات کا مطلب یہ ہے کہ کائنات پہ ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب یورینیم اور اس سے اشعاعی یا ریڈی ایشن عمل سے وجود میں آنے والا ریڈیم موجود نہیں تھا کیونکہ یہ ہمیشہ انتہائی منظم اور باقابو انداز میں ٹوٹتا رہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کائنات میں ایک وقت ایسا تھا جب یہ سارے تابکار عناصر یا Radio elements جیسا کہ یورینیم، ریڈیم، تھوریم، ریڈون، پولونیم، فرانسیم، پروٹیکٹینیم اور دوسرے موجود نہیں تھے۔ یہ اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ مادہ یا مکان یعنی Space matter  ہمیشہ سے موجود نہیں تھے بلکہ یہ بعد میں وجود میں آیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ پیدا کیے گئے اور مکان اور اس سے تعلق رکھنے والا زمان یعنی ٹائم اینڈ سپیس کسی صورت بھی حتمی اور مطلق نہیں ہیں اور کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں رہی بلکہ یہ پیدا کی گئی۔ حر حرکیات یا Thermodynamics کے پہلے قانون کے مطابق کائنات میں موجود ناقابل استعمال توانائی یا Entropy بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس طرح خود ایلڈوس ہیگزلے کے مطابق اس آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہونے والی تنزلی یا Entropy اور ارتقا یا Evolution کا ایک ساتھ چلنا ناممکن ہے۔ اگر ہم ارتقا کو درست مانتے ہیں تو تھرمو ڈائنا مکس کا پہلا قانون غلط قرار پاتا ہے جب کہ سائنسی قوانین عالمگیر حقائق ہوتے ہیں۔ لہذا یہ قانون غلط نہیں  بلکہ نظریہ ارتقا غلط ہے۔

عظیم برطانوی ماہر ریاضی روجر پنروز( Roger Penrose) کے مطابق اس کائنات میں زندگی کے خود بخود وجود میں آنے کا امکان 1000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000 میں سے محض ایک ہے جو کہ حقیقت میں زیرو ہے اور طبیعیات یا فزکس میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان یوگین وگنر۔ ۔Eugene Wigner۔۔۔ کے مطابق مادہ پرستی منطقی طور پہ جدید کوانٹم میکینکس کے مکمل خلاف ہے۔

کائنات میں موجود عمدہ نفیسگی یا Fine tuning کی ایک اور مثال کائنات کا پھیلاؤ ہے اور اس کی رفتار مکمل طور پہ 1055 میں ایک حصے کے توازن پہ ہونی چاہیے۔اگر کائنات کا یہ پھیلاؤ تیز ہو جائے تو نئے ستاروں، کہکشاؤں، سیاروں کا بننا ناممکن ہو جایے گا اور اگر یہ پھیلاؤ اس شرح سے سست ہو جایے تو کائنات سکڑ جائے گی۔ اس کے علاؤہ کائنات میں برقی مقناطیسی قوّت یا Electromagnetic force  اور کشش ثقل یا Gravity میں 1040 میں ایک حصے کا توازن ہونا چاہیے۔ اگر یہ شرح بڑھ جائے تو تمام ستارے سورج سے 40 گنا زیادہ بڑے ہو جائیں گے  جس کا مطلب ہے کہ ستاروں میں ایندھن کا جلنا اتنا زیادہ ہوگا کہ زمیں پہ پیچیدہ زندگی مشکل ہوگی اور اگر یہ شرح کم ہو جائے تو تمام ستارے سورج سے بیس گنا ہلکے ہوں گے اور ان میں بھاری عناصر کے پیدا ہونے کی شرح سست ہوگی جو کہ زندگی برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہیں۔

کائنات میں موجود ہر ذرہ ایک ایسا حیران کن ذہین نمونہ یا Intelligent design رکھتا ہے کہ اس کی وضاحت کسی طرح بھی ایک اندھا دھند اتفاق سے نہیں کی جا سکتی اور یہ نمونہ اس قدر حیران کن ہے کہ سائنسدان انگشت بدنداں ہیں۔ کیا ایک عقلمند شخص اتنے بیشمار ثبوتوں کو جو کہ صرف ایک نہیں کسی اندھا دھند اتفاق کی پیداوار کہ سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ اور سائنسی تحقیقات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ایک بے وجہ پہلی وجہ Uncaused first cause ہماری زمان و مکان کی چار جہتوں یا Dimensions سے باہر موجود ہے جس کے پاس مکان اور یہاں تک کہ زمان یعنی Time and space دونوں کو پیدا کرنے کی بھرپور ابدی، ذاتی اور انتہائی ذہین خصوصیات موجود ہیں۔

ڈاکٹر رابرٹ ہیزن کے مطابق:

” سب سے سادہ خلیہ یا بیکٹیریا بھی انسان کے تصور سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ انسانی دماغ اس کثیر الجہتی یعنی Multi dimensional پیچیدگی کو سمجھنے سے قاصر ہے۔”

ڈاکٹر مائیکل ڈینٹن کے مطابق:

” ہر ایک وہ چھوٹا کارخانہ ہے جس میں زبردست انداز میں  ترتیب دیے گئے سالمیاتی خرادوں یا Molecular machinery کے ٹکڑے موجود ہیں جو آج تک انسان کی ایجاد کردہ کسی بھی خراد یا مشین سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ”
ڈاکٹر پال ڈویویز۔۔۔ Paul Davies۔۔۔ کے مطابق :

” بیکٹیریا یعنی جرثوموں میں ایک عمدہ نفیسگی یا Fine tuning اور پیچیدگی ہے جس کی مثال آج تک انسانی انجنئیرنگ پیش نہیں کر سکتی۔”

شاید اس کی بہترین وضاحت کیمیا یعنی کیمسٹری میں 1977ء کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ایلیا پریگوگینی۔۔۔Ilya Prigoginr۔۔ نے کی ہے۔وہ کہتے ہیں:

” آئیے ہم کسی دھوکے کا شکار نہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک ہم سادہ ترین جانداروں میں پائی جانے والی پیچیدگی کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ ”
اور آج تک کوئی سائنسدان حتمی طور پہ یہ نہیں کہ سکتا کہ زندگی کس طرح شروع ہوئی۔ ڈاکٹر سٹووارٹ کفمین کے مطابق
” جو کوئی آپ سے کہے کہ وہ جانتا ہے کہ زندگی آج سے 3.5 بلین یعنی ساڑھے تین ارب سال پہلے کیسے شروع ہوئی  تو وہ بیوقوف یا بددیانت ہے۔”

مشہور ماہر حیاتیات یا بیالوجی ڈاکٹر لن مارگولس کے مطابق:

” ایک بیکٹیریا سے انسان تک ارتقا امائینو ترشوں یا لحمیات یعنی پروٹین کے بنیادی اجزاء amino acids سے ایک بیکٹیریا تک بننے سے چھوٹا مرحلہ ہے۔” یعنی ان کی نظر میں صرف لحمیات یعنی پروٹین کے بنیادی اجزاء سے ایک جراثیم کا خود بخود وجود میں آنا ہی مشکل ہے چہ جائیکہ یہ کہ ایک جراثیم سے بتدریج ارتقاء سے ایک انسان خود بخود وجود میں آئے۔”
یہاں دنیا کے نامور ترین سائنسدانوں میں سے ارتقائی دھوکے کی تردید کر رہے ہیں۔ زندگی کی ابتدا کے متلعق موجود نظریات میں سے کسی کا ساینس سے حقیقی تعلق نہیں بلکہ یہ سائنسی مفروضے ہیں جن کی آج تک کوئی دلیل نہیں اور یہ بلا دلیل مفروضے خواہ دنیا کے کسی بھی ذہین ترین سائنسدان کے ہوں بلا سائنسی ثبوت کے سائنس میں شمار نہیں کیے جا سکتے۔ ماہر طبیعیات یعنی فزکس ایچ پی یوکی۔ ۔ Yockey.. کے مطابق:

ایک گرم چشمے میں زندگی کے خود بخود ایک اتفاق اور فطری وجوہات سے شروع ہونے کا نظریہ اپنے آپ کو ایک دھوکہ دینا ہے۔”
نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر ورنر اربر کے مطابق:

” اگرچہ میں ایک ماہر حیاتیات یا بیالوجی ہوں لیکن میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے آج تک نہیں پتہ چل سکا کہ زندگی کس طرح شروع ہوئی اور کس طرح اتنی پیچیدہ ساختیں وجود میں ائیں۔ آج تک یہ میرے لیے ایک راز ہے۔”

ڈاکٹر کرسٹوفر میکی۔۔۔Christopher McKay … کے مطابق:

” ہم نہیں جانتے کہ زمین پہ زندگی کس طرح شروع ہوئی۔”

ڈاکٹر ہیرولڈ پی کلین کے مطابق:

” سادہ ترین بیکٹیریا بھی اتنا پیچیدہ ہے کہ اس بات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ کس طرح وجود میں آیا۔”
ڈاکٹر کین نیلسن جو کہ نیشنل اکیڈمی آف سائنس سے تعلق رکھتے ہیں، کے مطابق:

” زیادہ تر ماہرین کیمیا یا کیمیسٹری اور میں خود بھی اس بات پہ تسلیم رکھتے ہیں کہ زندگی کچھ مالیکیولوں یا سالموں سے شروع ہوئی۔ لیکن کس طرح؟ مجھے آج تک نہیں پتہ۔ تمام کیمیسٹری یعنی کیمیا کی بنیاد پہ مجھے یہ بات حیران کن حد تک ناممکن لگتی ہے۔”
ڈاکٹر براڈ ہیرب نے اپنے ایک مضمون The human nervous system: Evidence of intelligent design part I میں لکھتے ہیں:

” اعصابی خلیوں یا نیورانز کے درمیان باہم رابطوں کے لیے معانقاتی تھیلیاں یا Synaptic vesicles اعصابی مرسلوں یعنی Neurotransmitters سے لدی ہوتی ہیں اور اس کے لیے لازمی ہے کہ اعصابی خلیے یہ مرسل کیمیائی مادے یعنی Neurotransmitters تیار کریں لیکن یہ سب کس طرح ہوتا ہے، اس کے لیے کوئی کس طرح ایک ذہین تخلیق کو نظر انداز کر سکتا ہے؟”

اپنے اس مضمون میں ڈاکٹر ہیرب انسانی دماغ کی پیچیدگی پہ بحث کرتے ہوئے کہتے  ہیں کہ یہ حیران کن پیچیدگی کسی طرح بھی ایک اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ ریان وٹوام۔ ۔Ryan Whitwam… اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ کی صرف ایک ثانیے یعنی سیکنڈ کی سرگرمی میں 82944 اثر انگیز یا پروسیسر کام کرتے ہیں اور وٹوام کے مطابق انسانی دماغ کی پیچیدگی اتنا زیادہ ہے کہ انسانی دماغ ایسی خراد یا مشین  ایجاد  نہیں کر سکا جس کی پیچیدگی انسانی دماغ جیسی ہو اور یہ اس بات کی تائید کرتی ہے کہ انسانی دماغ پیدا کیا گیا نہ کہ خود بخود ارتقا پذیر ہوا۔

کائناتی اشعاعی اخراج کے بقایاجات یا Cosmologic background radiation remnant کا بلیک باڈی طیف یا سپیکٹرم سے موازنہ ظاھر کرتا ہے کہ تمام تعددات یا فریکونسی کا ایک ایسے تخلیقی واقعے سے تعلق ہے جس کے نتیجے میں ہماری یہ کائنات ظاہر ہوئی۔ 24 اپریل 1992ء کو ماہر فلکیاتی طبعیات یا آسٹروفزکس جارج سموٹ نے اعلان کیا کہ کوبے COBE سٹیلائٹ نے پس منظر میں واقع شعاعوں کے حوالے سے چھوٹے تعدد والی موجوں  یا Microwave background radiation میں متوقع خم دریافت کیے ہیں جو کہ 90000 میں ایک حصہ ہیں اور اس دن دنیا کے اخبارات نے اعلان کیا کہ اگر آپ مذہبی شخص ہیں تو آپ کو مکمل طور پہ لگے گا کہ آپ  اس صورت میں خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

سٹیفن ہاکنگ کے اگر بگ بینگ کے بعد اگر کائنات کا پھیلاؤ ایک ہزار ملین ملین میں ایک حصہ بھی کم ہوتا تو کائنات پھیلنے کی جگہ واپس سکڑ جاتی اور اگر یہ تھوڑا سا بھی زیادہ ہوتا کہ تمام مادہ منتشر ہو جاتا اور ستارے سورج سیارے کہکشاں کسی طرح بھی وجود میں نہ آسکتے۔ ماہر فلکیاتی طبعیات یا آسٹروفزکس جارج سموٹ کے مطابق یہ تخلیقی عمل نفیسگی سے مرتب کیا گیا تھا اور کائنات کی ابتدائی انتہائی منظم شکل بھی کسی طرح محض ایک اتفاق سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔سٹیفن ہاکنگ کے معاون روجر پنروز کے مطابق کائنات کی ابتدائی انتہائی منظم شکل بھی کسی  طرح ایک اتفاق سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ ناسا کے ماہر فلکیات جان او کیفی کے مطابق:

” یہ میرا خیال ہے کہ کائنات پیدا ہی اس لیے کی گئی کہ اس میں زندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔”

لہذا اب تک کی گفتگو ثابت کرتی ہے کہ نظریہ ارتقا کو کئی نامور سائنسدان غلط قرار دے چکے ہیں اور جہاں تک رہا بگ بینگ تو یہ بھی محض ایک اتفاق یا خود بخود وقوع پذیر ہونے والا ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ذہین خالق کی کی طرف سے ایک عظیم کائنات کی منظم تخلیق تھی۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کے طلباء سے بات کرتے ہوئے موجودہ دنیا کے عظیم ترین سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے کہا کائنات کی تخلیق پہ اس کی کئی سالوں کی تحقیق نے اسے ایک ایسے سائنسی عامل یعنی Scientific factor کا پتہ دیا ہے جو کئی صورتوں میں طبیعیات یا فزکس کے قوانین سے متصادم ہے اور اسے اس نے خدائی عامل یا God factor کا نام دیا جس نے کائنات کی تخلیق میں حقیقی کردار ادا کیا۔اگرچہ بعد میں ہاکنگ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا موجود ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا جیسی ایک قوت "God like force” نے آج سے تیرہ ارب سال پہلے کائنات کی تخلیق میں کردار ادا کیا۔ ہاکنگ خود تسلیم کر رہا ہے کہ خدا جیسی ایک قوت نے یہ کائنات تخلیق کی تو وہ قوت ہاکنگ مانے یا نہ مانے خدا کے سوا اور کیا تھی۔یہ اس خدا کا ثبوت نہیں  تو اور کیا ہے جس کے بارے میں لاکھوں سال سے مذہب کہتا ہے کہ اس نے کائنات تخلیق کی۔جب کائنات کی تخلیق کا زمہ دار آج تک خدا کے سوا کسی کو قرار ہی نہیں دیا گیا تو پھر وہ خدا جیسی قوت خود خدا نہیں  تو اور کیا ہے۔ کاش ہاکنگ اپنی الحادی  ضد چھوڑ کر مکمل تسلیم کرتا۔ لیکن ایک طرف تسلیم بھی کرتا ہے اور دوسری طرف اپنی ضد پہ قائم رہتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ وہ خدا جیسی قوت تھی لیکن خدا نہیں تھا۔ اب ایسی قوت جس کے پاس کائنات تخلیق کرنے کی خدائی قوت ہو وہ خود خدا کیوں نہیں۔

اوپر کی ساری گفتگو کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ذہین تخلیق کا نظریہ یا Theory of intelligent design ارتقا کے حامیوں کی مخالفت کے باوجود ایک وہ جدید سائنسی نظریہ ہے جس کے بیشمار سائنسی شواہد اور تحقیقات موجود ہیں اور یہ جدید سائنسی نظریہ خدا کا وجود سائنسی طور پہ ثابت کر چکا ہے۔

مزید برآں جاپانی نوبل انعام یافتہ سائنسدان میچیو کاکو نے نے کہا کہ اس نے دریافت کیا ہے کہ کائنات کو بے قاعدہ قوتوں نے نہیں بلکہ ایک ذہانت نے تخلیق کیا۔اس نے کہا

” میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم اصولوں سے بنی ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جسے ایک ذہانت نے تخلیق کیا ہے۔مجھ پہ یقین کیجیے۔جسے ہم اتفاق کہتے ہیں وہ کسی عمل کی وضاحت نہیں کرتا۔میرے لیے یہ بات واضح ہے ہم ایک باقاعدہ منصوبے کا حصہ ہیں جس کے اصول ایک عالمگیر ذہانت نے ترتیب دیے نہ کہ کسی اتفاق نے۔”

ڈاکٹر میکائیل سٹراس نے پندرہ سال تک دنیا کی کئی نامور یونیورسٹیوں جیسا کہ سٹینفورڈ، یوٹی ڈیلاس، یوسی سانتا بربیرا اور یونیورسٹی آف میسوری کولمبیا میں اپنے شاگردوں اور ہم سروں کو Scientific Evidence For Existence Of God  کے نام سے لیکچر دیے۔ ان کے مطابق قابل مشاہدہ اور قابل آزمایش سائنسی گواہی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایک ایسا خالق موجود ہے جو انسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ سٹراس کائناتی ذرے ہگز بوزان یا گاڈ پارٹیکل۔ ۔ Higgs boson or God particle .. کا گہرا علم اور مہارت رکھتا ہے۔اس نے ایک بار دو سو طلباء اور شاگردوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جدید سائنسی تحقیقات ایک اعلیٰ، عالم الغیب ذہین خالق کی تصدیق کرتی ہیں جس نے کائنات کو تخلیق کیا اور انسان کا ایک مقصد مقرر کیا۔ سٹراس نے ڈیلاس کالج میں  طلباء سے بات کرتے ہوئے کہا

” بگ بینگ کا نام بگ بینگ غلط ہے۔ یہ لفظ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کوئی چیز پھٹ گئی جب کہ بگ بینگ بذات  خود ایک دھماکہ نہیں تھا بلکہ یہ کائنات میں موجود ہر اس چیز کی ابتدا تھا جسے ہم جانتے ہیں۔
پال ڈیویس نے کہا

"اگر طبیعیات یا فزکس کسی نمونے کی پیداوار ہے تو کائنات کا لازمی ایک مقصد ہونا چاہیے اور جدید فزکس کی تحقیقات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اس مطلب میں ہم بھی شامل ہیں۔ "

کیا آپ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ کیوں زیادہ سے زیادہ سائنسدان اس بات پہ یقین کرنے لگے ہیں جس پہ ماضی کے عظیم مسلم سائنسدان اور یورپ کے اٹھارہویں صدی تک کے اکثر سائنسدان  جیسا کہ نیوٹن یقین کرتے تھے،وہ یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اب اس کائنات میں ایک نہیں ہزاروں ایسے شواہد دریافت ہوچکے ہیں  کہ سائنس ان سب کو اتفاق اور ارتقا کے کھاتے میں ڈال کر خدا کا انکار نہیں کر سکتی اور ساینس کا جھکاؤ اب دو سو سال بعد پھر مذہب کی طرف ہورہا ہے اور جدید سائنسی تحقیقات الحاد اور انکار خدا کو مکمل طور پر غلط قرار دے چکی ہیں۔

 سائنس کی تمام بنیادی شاخوں سے اتنے سارے ثبوت اور دلائل جاننے کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کائنات کو ایک عظیم اور ذہین ترین خالق نے تخلیق کیا اور جدید سائنسی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ خدا موجود ہے۔ اور سائنس حقیقت میں خدا کا وجود اس حد تک ثابت کرچکی ہے کہ خدا کے وجود کے ان سائنسی دلائل کا انکار حقیقت میں سائنس کا انکار ہے۔

اب میں  کیوں نہ کہوں :

اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ“ اور ”قُلْ اِنَّ صَلَااتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِللهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔“

میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے ایک اُسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں نہیں۔ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا، اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں (الانعام79،162،163)
اور میں کیوں نہ کہوں

تو غنی از ھر دوعالم من فقیر
روزِ محشر عذر ھائے من پذیر
گر(ور) حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیر

ترجمہ:اے اللہ:تو دوجہانوں کو عطا کرنے والا ہے جبکہ میں تیرا منگتا و فقیر ھوں .روزِ محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانااور مجھے بخش دینا.اگر میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہوتو پھر اے میرے مولی.اسے میرے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
ھذا ماعندی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ الحمدللہ۔

حوالہ جات:

Edwin Hubble home page – all about this world renowned astronomer: http://www.edwinhubble.com/
Privileged Planet: http://www.privilegedplanet.com/
Intelligent Design Network: http://www.intelligentdesignnetwork.org/
Reasons to Believe:  www.reasons.org
https://www.google.com.pk/amp/www.scienceworldreport.com/amp/articles/42042/20160613/world-renowned-scientist-michio-kaku-proves-existence-god.htm?client=ms-opera-mobile
https://worldnewsdailyreport.com/stephen-hawkins-admits-intelligent-design-is-highly-probable/
http://www.thecollegefix.com/post/19763/
https://evidencetobelieve.net/evidence-for-a-creation-event/
http://simon_king1.tripod.com/Hyperlinked Pages/Author’s Note.htm
https://www.amazon.com/Universal-Reality-New-Theory-Everything/dp/1535596082#productDescription_secondary_view_div_1487605581593
Evidence of an Intelligent Creator: The Current
Scientific DebatePeter Van Houten, M.D.with Peter Van Houten, M.D. September 2011
https://www.ananda.org/clarity-magazine/2011/09/darwin-anthropic-atheist-god/

تبصرے بند ہیں۔