ایک زمین کئی شاعر: احمد علی برقی اعظمی اور میر تقی میر

میر تقی میر

جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
ہوتا نہیں ہے اس لب نو خط پہ کوئی سبز
عیسیٰ و خضر کیا سبھی یک بار مر گئے
یوں کانوں کان گل نے نہ جانا چمن میں آہ
سر کو پٹک کے ہم پس دیوار مر گئے
صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں
گویا متاع دل کے خریدار مر گئے
مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں
تھا جن سے لطف زندگی وے یار مر گئے
گر زندگی یہی ہے جو کرتے ہیں ہم اسیر
تو وے ہی جی گئے جو گرفتار مر گئے
افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں
لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے
تجھ سے دو چار ہونے کی حسرت کے مبتلا
جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے
گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر
جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے

احمد علی برقی اعظمی

کتنے ہی نامراد جہاں سے گذر گئے
’’جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار،مرگئے‘‘
انجامِ کارِ لیلیٰ و مجنوں ہے سامنے
دنیا میں نام وامق و عذرا بھی کرگئے
وِردِ زباں ہیں شیریں و فرہاد آج بھی
سنتے ہیں اُن کا نام وہاں ہم جدھر گئے
تھے میر ناخدائے سخن جن کا ہے یہ قول
’’جِن جِن کو تھا یہ عشق کا آزار، مرگئے‘‘
کچھ کی نظر مین ہے یہ خلل اک دماغ کا
کچھ کے نصیب اس کی بدولت سنور گئے
کچھ کھا رہے ہیں ٹھوکریں در در کی آج تک
کچھ رزمگاہِ زیست میں بے موت مرگئے
برقی کبھی نہ وعدۂ فردا وفا ہوا
سب نالہ ہائے نیم شبی بے اثر گئے

احمد علی برقی اعظمی

دروازۂ نگاہ سے دل میں اُتر گئے
تیرِ نظر سے کام جو لینا تھا کر گئے
سوزِ دروں کا حال مرے کچھ نہ پوچھئے
وہ اک جھلک دکھا کے نہ جانے کدھر گئے
جانے کب اپنا وعدۂ فردا نبھائیں گے
آئی نہ نیند مجھ کو کئی دن گذر گئے
دنیائے رنگ و بو یہ نظر کا فریب ہے
ہم اپنے ساتھ لے کے فریبِ نظر گئے
آئے تھے خالی ہاتھ گئے بھی وہ خالی ہاتھ
خانہ بدوش کتنے جہاں سے گذر گئے
کل کہہ رہا تھا مجھ سے یہ اک مُرغِ نیم جاں
فصلِ بہار میں وہ مرے پَر کَتَر گئے
صبحِ اُمید کا مجھے اب تک ہے انتظار
روشن تھے جو فلک پہ وہ شمس و قمر گئے
آشوبِ روزگار کا ایسے ہوئے شکار
جو تھے کھنڈر کی شکل میں دیوار و در گئے
نازاں تھے اپنے جاہ و حشم پر جو ایک دن
برقی ریاضِ دہر سے با چشمِ تَر گئے

1 تبصرہ
  1. سہیل احمدصدیقی کہتے ہیں

    واہ۔۔۔واہ۔۔۔۔کیاکہنے۔۔۔۔میرکےکلام پر تضمین بھی ہرایک کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔آپ نے کمال کردیا

تبصرے بند ہیں۔