پیچھے کوئی رستہ ہے نہ آگے کوئی منزل

شوزیب کاشر

پیچھے کوئی رستہ ہے نہ آگے کوئی منزل

ایسا ہے تو افلاک سے اُترے کوئی منزل

اے عشق جنوں پیشہ تری آبلہ پائی

رستہ کوئی جانے ہے نہ جانے کوئی منزل

ہر آن سیاحت میں ہے مجھ پاؤں کا پہیّہ

گاہے کوئی منزل ہے تو گاہے کوئی منزل

ہر ایک کو ملتا ہے کہاں رہبرِ کامل

خوش بخت ہے تو ، پوچھ لے پگلے ، کوئی منزل

اے پیار میں اجڑی ہوئى وادى !! کوئی رستہ؟

اے درد کے مقبوضہ علاقے!! کوئی منزل؟

اس موڑ سے آگے کہیں جانے کا نہیں میں

خود لینے مجھے آئے تو آئے کوئی منزل

خود کاٹنا پڑتا ہے میاں کوہِ مسافت

ملتی نہیں گھر بیٹھے بٹھائے کوئی منزل

ہم جیسے جہاں گرد و جہاں دیدہ ہیں کم کم

 رستے ہمیں پوچھیں کبھی ڈھونڈے کوئی منزل

دل خوش ہے بہت حلقۂ احباب میں آ کر

جیسے کوئی بھٹکا ہوا پا لے کوئی منزل

اندر سے میاں ہم بھی سمجھتے ہیں کہ حق ہے

وحشت کو بظاہر نہیں کہتے کوئی منزل

مجھ خاک نشیں پر وہ بھی ہنستے ہیں ، تعجب!!

کچھ لوگ جو خود کی نہیں رکھتے کوئی منزل

ہے قیس قبیلے کا شرف تیرا حوالہ

صحرائے جنوں ! میں ترے صدقے! کوئی منزل!!

اک عمر ریاضت میں جلا کرتے ہیں جذبے

تب جا کے ملا کرتی ہے پیارے ، کوئی منزل

اخلاص نگر ، عشق سڑک ، نور حویلی

اس نام کی تو ہے نہیں ، جھوٹے، کوئی منزل

اُلجھی ہوئی راہوں کے وہی جال یہاں بھی

اے وقت کے پھیلے ہوئے نقشے ، کوئی منزل؟؟

اس فن کو غلط جاننے والوں کو خبر کیا

یہ شاعری ایسے ہے کہ جیسے کوئی منزل

چلنے کا مزہ تب ہے کہ جب راہ بلائے

اور روتے ہوئے پاؤں سے لپٹے کوئی منزل

ہم جیسے انا زاد مسافر بھی عجب ہیں

بیٹھے ہیں، بلاتی رہے چاہے کوئی منزل

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ راہ محبت

جانا تو کہیں بھی نہیں ویسے کوئی منزل؟؟

دو پل ہی سہی آ کے ٹھہرتا تو کوئی شخص

اے کاش کہ ہم لوگ بھی ہوتے کوئی منزل

اوروں کو کچل کر مجھے آگے نہیں بڑھنا

یوں ملتی نہیں عقل کے اندھے ، کوئی منزل

اے دشت نوردی کا صلہ پوچھنے والے

چلنا ہے تو چل ، میری بلا سے، کوئی منزل

ہم جونؔ کے تلمیذ ہمارے لیے صاحب

دانتے کوئی منزل ہے نہ نطشے کوئی منزل

اس تھل میں تو ہر سمت ہی پیروں کے نشان ہیں

چل کاشراؔ شاید نکل آئے کوئی منزل

تبصرے بند ہیں۔