ہم جنس پرستی اور ناجائز تعلقات: فطرت سے ٹکڑانے کی کوشش
ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی
ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مختلف رنگ ونسل کے انسان اور مختلف مذہب وملت کے ماننے والے لوگ بستے ہیں۔ اِ س ملک کی تہذیب کو گنگاجمنی / مشترکہ تہذیب اِسی لیےکہا جاتا ہے کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے مذہبی عقائد ونظریات کے مطابق پوری آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں او ریہاں کے تمام لوگ (مسلم/غیرمسلم) ایک دوسرے کی جان ومال اور عزت و آبروکی حفاظت ونگرانی کے پابندبھی ہیں۔ چوں کہ دستورِ ہند میں تمام مذاہب اور تمام سماج کے احترام کی بات کہی گئی ہے لہٰذاجو بھی (مسلم/غیرمسلم)اِس کی خلاف ورزی کرے وہ ملک اور سماج دونوں کا مجرم قرار پائےگا۔ دستورِ ہندکی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اُس میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہونےکے باوجود انسانیت کابطور خاص خیال رکھا گیا ہے، اور اِس کی اصل وجہ غالباً یہ رہی ہے کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے صوفیوں اور سنتوں نے وحدت انسانیت اورتحفظ انسانیت کا جو مثالی سبق دیا ہے وہ دنیا کے دیگرممالک میں نادرالوجود ہے۔ اس تعلق سے چشتی، نانک، جین، بودھ وغیرہ صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات وافکار قابل ذکر ہیں جوہندوستانی قوم اور یہاں کی تہذیب و تمدن کے لیے آبِ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان جب آزاد ہوا، اور عوام کے لیے قانون بنائے گئےتواُن میں اِن صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات کا بھی کافی مثبت اثر رہا کہ امیر-غریب، چھوٹا-بڑا، مرو-عورت وغیرہ کی عزت وآبروپر بالخصوص توجہ دی گئی، اورہم جنس پرستی اورناجائز تعلقات جیسی غیراخلاقی اور خلاف فطرت عمل کوقانوناً جرم قراردیا گیا۔ لیکن گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے جو فیصلے سنائے ہیں اور ہم جنس پرستی اور ناجائز تعلقات کو جائز ٹھہرائے ہیں، وہ نہ صرف ملک وقوم کے لیے ہلاکت خیز ہیں بلکہ قانونِ قدرت کے بھی خلاف ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اب سے 157 سال پہلے جن لوگوں نےدستور و قانون بنائے تھےاور ہم جنس پرستی اور مردو عورت کے درمیان ناجائز تعلقات کو جرم قرار دیاتھا، کیا وہ لوگ بیوقوف تھے ؟یاپھر وہ لوگ مرد وعورت کی آزادی کےسخت دشمن رہے ہوں گے؟اور اِس بیچ 157 سال تک جن ہندوستانیوں نے اس قانون کو بسروچشم تسلیم کیا اور اِس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی، کیا وہ سبھی بیوقوف، اَن پڑھ اور جاہل تھے کہ 157 برسوں تک اس قانون کو برداشت کرتے رہے اور کچھ نہ بولے؟نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے!! حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت جس فکراور نظریے کا پیغامبرہے وہ آرایس ایس مشین کی پیداوار ہے اور تقریباً ہندوستان کاتمام پڑھا لکھا اِنسان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ آر ایس ایس کےجدید وحشی نظریات بالخصوص اسرائیلی نظریات (موساد) کا جڑواں بھائی ہے، جس کے نزدیک ہم جنس پرستی اور عورتوں کا غیرمرد سے ناجائز تعلقات رکھنامعیوب نہیں۔ مزید یہ کہ ہندوستان میں بھی پچھلےچندبرسوں سے کچھ افراد ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا ہیں، اورایک خاص سماج میں ایک خاص طبقہ اپنے طورپر مردوزن کے ناجائز تعلقات کو بُرا نہیں مانتا۔ یہاں تک کہ آج بعض اعلیٰ طبقات میں مردوزن کا کلبوں میں جانا اوربرضا و رغبت ناجائز تعلقات بنانا ایک فیشن اور آزاد خیال ہونے کی ایک علامت کے طورپر دیکھا جارہا ہے، بلکہ بعض مقامات پر آپس میں عورتوں کا باضابطہ تبادلہ بھی ہوتاہے، یہ سب پوروپی سماج اور مغربی تہذیب وتمدن کی خاص دِین ہے۔ اس کے ساتھ ہی منادر اور تحفظ نسواں کے نام پر بنائے گئے آشرموں میں جبراً/برضا و رغبت آئے دن جوناجائز تعلقات کے انکشافات ہو رہے ہیں اور نامی گرامی سوامیان اور محافظین ملک وقوم کی حرکتوں کا جس طرح سے پردہ فاش ہورہا ہے، یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ممکن ہےکہ اسرائیلی ویوروپی، اعلی طبقات(VIP) اور نامی گرامی سوامیان اور محافظین ملک وقوم کے دباؤ میں اِس غیرانسانی فعل کو جائز قرار دیاگیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو یقین جائیے کہ یہ پوری ہندوستانی قوم کے ساتھ ایک طرح کامذاق اورکھیلواڑہے۔ پھرحیرانی اِس بات پر بھی ہوتی ہے کہ حکومت جس بہنوں اوربیٹیوں کی عزت وآبرو کی حفاطت کےلیےقسمیں کھاتی تھی اِس قانون کے توسط سے اُسی بہنوں اوربیٹیوں کی عزت و آبرو کو خاک میں ملانے کی راہیں ہموار کردی ہے۔ کیاکسی ہندوستانی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنی بہنوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہوؤں کوکسی غیرمرد کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کو برداشت کرلے؟بلکہ خود اِس فیصلے پر مہر لگانے والوں میں سے کسی کے اندر اِتنی طاقت نہیں ہے کہ اُن کی آنکھوں کے سامنےاُن کی بہنیں، مائیں، بہویں اور بیٹیاں کسی غیر مرد سے ناجائز تعلقات قائم کریں اور اُس کی مردانگی پر کچھ آنچ نہ آئےاور اِن تمام باتوں کو وہ خوشی خوشی قبول بھی کرلے۔ پھریہ قانون کس کے حق میں ہے؟کیایہ ہندومذہب کے حق میں ہے؟ کیا اِس سے ہندومذہب کو کچھ ترقی ملےگی؟ کیا یہ ہندوستانی سماج پر ضربِ کاری نہیں ہے؟اورکیا اِس سے ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب و تمدن کی آبروریزی نہیں ہورہی ہے؟
ہندوستان میں تقریباًچھ بڑے مذاہب وادیان پائے جاتے ہیں، مثلاً : (1)ہندومذہب، (2)اسلام مذہب، (3)عیسائی مذہب، (4)سکھ مذہب، (5)بودھ مذہب، (6)جین مذہب، اورجہاں تک مجھے معلوم ہے کہ اِن تمام مذاہب میں کہیں بھی کوئی ایسا نظریہ نہیں پیش کیا گیا ہے جس میں کہ ہم جنسی پرستی، یامردو زن کے ناجائز تعلقات کو درست ٹھہرایا گیا ہو۔ اُس کے برخلاف تمام مذاہب میں اِن غیراخلاقی اور غیرفطری باتوں کی سختی سے تردید کی گئی ہےاور اِن کو اِنسانی معاشرے کے لیے مہلک گرداناگیا ہے۔ اس طرح ہم جنس پرستی اور ناجائز تعلقات دونوں تمام مذاہب عالم کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہیں اوریہ دونوں بدکاری اور بدفعلی کے زمر ے میں شامل ہیں۔
بالخصوص اسلامی رو سے ہم جنس پرستی ایک غیراخلاقی اور غیرفطری عمل ہے اور چوں کہ اِس عمل سے انسانی بیچ کی بربادی ہوتی ہے، اس لیے اُسے اسلام نے سخت حرام قرار دیا ہے، بلکہ اُس عمل کے مرتکب قوم لوط کو سخت عذاب میں بھی مبتلا کردیا گیا تھا۔ سورۂ ہود میں ہے:جب عذاب کے فرشتے خوبروجوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پہنچے اور قوم لوط(ہم جنس پرستوں ) نے اُن کو دیکھا تو اپنی جنس پرستی کی بھوک مٹانے کے لیے اُن کے پیچھےپڑگئے۔ حضرت لوط بڑے پریشان ہوئے اور ہرطرح سے اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اِس غیر فطری فعل کے لیے تم لوگ کیوں بضد ہو، تجھے اﷲکا واسطہ! یہ میرے مہمان ہیں، اگر تم نے اِن کے ساتھ کوئی حرکت کی تو بڑی ذلت ورسوائی ہوگی۔ مگر قوم لوط(ہم جنس پرستوں )نے حضرت لوط کی ایک نہ سنی۔ آخر میں نتیجہ یہ ہواکہ اﷲتعالیٰ کا عذاب آیا اور قوم لوط بُری طرح تہہ وبالاہوگئی کہ اللہ نےاُن پر پتھروں کی بارش کردی اور اُن پرزمین بھی پلٹا دی گئی۔ اسی طرح غیروں سے ناجائز تعلقات رکھنےپر بھی اسلام نے سخت تعزیراتی قدم اٹھایا ہے اور اُسے نسل انسانی اور انسانی معاشرے کی بگاڑ اور اُن کے درمیان فتنہ وفساد کا اہم سبب قرار دیاہے۔ ارشادِ ربانی ہے:ناجائز تعلقات(زنا) کے قریب بھی نہ جاؤ، یقیناً وہ بڑی بےحیائی اور بُری راہ ہے۔ (اسرا:32)
پیغمبراسلام کے بقول: ناجائز تعلقات قائم کرتے وقت ایمان ختم ہوجاتا ہے، اورجس قوم میں ناجائز تعلقات عام ہوتے ہیں، اُس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کردیاجاتا ہے اور اُس قوم کے اندر رشوت خوری اور کالا بازاری عام ہوجاتی ہے۔ (مشکاۃ)مزیدیہ نقصان ہوتا ہے کہ نسل اِنسانی مشتبہ ہوجاتی ہے، اصل باپ کا پتا نہیں چل پاتا، ایک ہی عورت پر متعدد افراد کے عاشق ہوجانے سے ہمیشہ فتنہ وفساد کاخوف رہتاہےاور اَمن و آشتی کو نقصان پہنچتاہے۔ چنانچہ اس کی روک تھام کے لیےیہ سزا رکھی گئی ہے کہ غیرشادی شدہ مردوعورت ناجائز تعلقات کے مرتکب ہوں تواُنھیں ایک سال کے لیے جلا وطن(بخاری:8633) اورسوکوڑےلگائے جائیں (نور:2) اور اگر شادی شدہ ناجائز تعلقات کے مجرم ہوں تو اُنھیں سرعام پتھرمارے جائیں۔ (بخاری: 5271)
منجملہ بالعموم تمام مذاہب میں اور بالخصوص مذہب اسلام میں ہم جنس پرستی اور ناجائز تعلقات دونوں ناقابل معافی جرم ہیں اور یہ دونوں بدفعلیاں نہ صرف غیراخلاقی لحاظ سے قابل نفرت ہیں بلکہ یہ دونوں اِنسانی فلاح و بہبودکے لیے بھی سخت نقصاندہ ہیں۔ پھر ہندوستان کی مشترکہ گنگاجمنی تہذیب میں بھی یہ دونوں بہرنوع سخت ناپسندیدہ ہیں، لہٰذا موجودہ زمانے میں ہم جنس پرستی اور ناجائز تعلقات کو قانونی طورپر جائز ٹھہرانا قدرت سے ٹکڑانے کی ایک خطرناک کوشش ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔