بے حیا باش ہر چہ خواہی کن!

وصیل خان

فارسی کا ایک مقولہ ہے ’بے حیا باش ہر چہ خواہی کن ‘یعنی بے حیائی اختیار کرلو پھر جو چاہے کرو، آج یہی صورتحال کم و بیش ہمارے سماج و معاشرے کو درپیش ہے۔ مادیت پرستی نے ہمیں عیش وعشرت کے حصول میں اس قدراندھا اور بے غیرت بنادیا ہے کہ ہم اس کی طلب میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ جھوٹ، غیبت چغلی اور وعدہ خلافی جیسے بدترین افعال جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں مباح قرارپاچکے ہیں اور انہیں برائیوں کی فہرست سے ہی نکال دیا گیاہے۔ عریانیت اور فحاشی نے اپنے پنجے اس طرح گاڑرکھے ہیں کہ راستی و آشتی کی کوئی راہ نظر ہی نہیں آتی۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ دلیپ کمار او ر ثریا پر ایک سین فلمایا جارہا تھا، سین کچھ اس طرح کا تھا کہ کسی گارڈن میں فلم کے ہیرو دلیپ کمار اپنی ہیروئن ثریا کے منتظر ہیں، ثریا والہانہ انداز میں دوڑ کر آتی ہیںاور ہیرو سے ہم آغوش ہوتی ہیں اس دوران ان کے سر سے دوپٹہ ڈھلک جاتا ہے، سینسر بورڈ کو یہ سین پسند نہ آیا، اس نے قینچی چلادی اور فلم سے وہ منظر نکال دیا گیا بعد میں اس کی تصدیق ثریا کے اس انٹرویو سے بھی ہوگئی جو انہوں نے اپنی موت سے کچھ سال قبل ایک چینل کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب تو سینسر بورڈ کا جیسے بریک ہی فیل ہوگیا ہے۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ گذشتہ دو تین دہائیو ں قبل جب ٹیلی ویژن پر کوئی غیر اخلاقی سین نظر آتا تو چینل بدل دیئے جاتے۔ لیکن آج صورتحال یکسر بدل گئی ہے ایک ساتھ بیٹھے افراد خانہ اب کسی منظر پر بھی نگاہیں نہیں پھیرتے ان کے نزدیک اب کوئی سین بھی قابل اعتراض نہیں رہ گیا ہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل انسانی فطرت کا تقاضا ہے اس پر بندش نہیں لگائی جاسکتی جس طرح دریاؤں پر باندھ باندھا جاتا ہے تو وہ بپھر اٹھتا ہے اور نتیجہ بھیانک سیلاب کی صورت میں سامنے آتا ہے، اسی طرح جنسی خواہش پر باندھ ہیجان اور طغیان کا سبب بنتا ہے اس پر قابو پانے کیلئے شادی جیسے عمل کو بڑھاوا دیاگیا جس کی تمام مذاہب نے نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب بھی دی ہے، اس کے برعکس زنا کاری اور اس جیسے کسی بھی بے ضابطہ جنسی فعل کو ممنوع قرار دیا ہے۔ ، لیکن ایک طبقہ ہمیشہ سے ایسا رہا ہے جو ان ضابطوں کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہا اور ڈھکے چھپےہم جنسی جیسےشیطانی فعل کا بھی مرتکب ہوتا رہا۔ لیکن گزشتہ دنوںسپریم کورٹ کی دفعہ ۳۷۷کو کالعدم کرنے کے فیصلے نےہم جنس پرستوں کے حوصلے بڑھادیئے ہیں جس کے سبب ملک کے مختلف خطوں میں اس شیطانی عمل کے حامیوں نے خوب جشن منایا۔ عدلیہ کا استدلال یہ تھا کہ آئین ہر شخص کوآزادی دیتا ہے اس لئے ہم جنسی کے خواہش مندوں کو بھی ان کا حق ملنا چاہیئے اور دفعہ ۳۷۷جس کی رو سے اب تک یہ فعل قابل تعزیر جرم تھا اسے ختم کردیا گیا اور اس طرح عدلیہ نے انہیں ان کا حق دے دیا۔

دنیا کے تمام مذاہب کی مقدس کتابیں بشمول قرآن اس فعل کو انتہائی مذموم قرار دیتی ہیں یہ تمام الہامی کتابیں اگر اس عمل کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اسے دنیا کے ہر خطے میں سماجی و معاشرتی سطح پر ناپسندیدہ عمل تسلیم کیا گیا ہے۔ شرپسند اور من مانی کرنے والے عناصر ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ دور قدیم میں بھی قوم لوط اس فعل کی انجام دہی میں حد سے آگے بڑھ گئی تھی۔ یہ قوم فلسطین اور اردن کے درمیان آباد تھی جو پانچ شہروں عمورہ، سدوم، ادمہ، صبوبیم اور صوغر پر مشتل تھی، وہاں کے لوگوںنے نہ صرف اس قبیح فعل کو انجام دیا بلکہ اس دور کے پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کی بار بار تنبیہ کے باوجودبے حیائی کی مرتکب ہو ئی اور ان کے پیغامات کو ٹھکراتی رہی بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتی رہی۔ سرکشی جب حد سے تجاوز کرگئی تو اللہ نے ان کو ایسی عبرتناک سزاد ی جس کی نشانیاں آج بھی موجود ہیں، پوری بستی پر  لگاتا رپتھروں کی بارش ہوتی رہی یہاں تک کہ زمین دھنس گئی وہ علاقہ آج  بھی نشان عبرت بنا ہوا ہے جسے  دنیا  بحر مردار (Dead See) کے نام سے جانتی ہے۔ تقریبا ً چھ سو میل کے رقبے پر مشتمل یہ بستی ایک ایسی جھیل میں تبدیل کردی گئی جس میں کوئی جاندار شئی زندہ نہیں رہ سکتی اس کا پانی اس قدر کثیف ہے کہ اس جھیل میں جہاز رانی بھی ممکن نہیں۔ اس بھیانک عذاب کا تذکرہ قرآن مجید کے علاوہ دیگر آسمانی کتابوں زبورو توریت اور انجیل میں بھی موجود ہے جس سے انکار کی نہ کوئی گنجائش ہے نہ ہی کوئی اور توجیہ ممکن ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر حضرت لوطؑ کے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک اس انسانیت سوز اور قبیح فعل کو جائز قرار دے کر اور اسے قانونی جواز فراہم کررہے ہیں۔ بہر حال ہندوستانی تہذیب و معاشرت اس طرح کے فعل کو قانونی جواز دینے کی متحمل نہیں تھی، ۲۰۰۱ میں ایک این جی او ناز فاؤنڈیشن نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضداشت پیش کرتے ہوئے اس دفعہ کو منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی۔ ۲۰۰۹ میں اس وقت کے وزیر قانون ویرپا موئلی نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران اس دفعہ کو ڈی کریمنلا ئیز کرنے کے تعلق سے غور کرنے کی بات کہی تھی لیکن پارلیمنٹ کے علاوہ عوامی سطح پر شدید احتجاج کے سبب انہیں پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ ہندوستانی آئین کی دفعہ ۳۷۷کے تحت یہ فعل قابل تعزیرجرم تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اس دفعہ کو کالعدم کرکے جس طرح ایک غلیظ ترین فعل کی حمایت کی ہے اس نے پورے ملک میں نہ صرف ہیجان برپا کردیا بلکہ عذاب الہٰی کو دعوت دے دی ہے۔ یہ مذموم فعل کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ ماضی کے اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہےکہ عمورہ اور سدوم جیسی چھوٹی سی بستی کے لوگ جب اس فعل کے مرتکب ہوئے اور سمجھانے کے بعد بھی نہ مانےبلکہ مزید شرپسندی پر اترآئے تو اللہ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا اوروہ صرف اور صرف نشان عبرت بن کے رہ گئے، آج دنیا کے بیشتر ممالک نے ہم جنسی کی اجازت دے کر خود کو قوم لوط سےبھی بڑا مجرم ثابت کردیا ہے۔

جب تک پیغمبروں کی آمد ورفت کاسلسلہ جاری تھا تو اتمام حجت کے طور پر عذابات بھی آتے رہے، لیکن پیغمبر اسلام ﷺکے بعدچونکہ سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے اور اتمام حجت کی ضرورت باقی نہ رہی اس لئے غالباً عذاب بھی موقوف کردیئے گئے ہیںاب بس قیامت ہے جو سرپہ کھڑی ہےاور کسی بھی وقت آسکتی ہے یہ مہلت ایک  ایسا وقفہ ہے جس میں ہمیںاپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے نہ کہ اپنی سرکشی میں اضافہ۔ اب تو قدرت بس ایک بڑے عذاب کی تیاری میں ہے جس کا نام قیامت ہوگا، جب سب کچھ فنا ہوجائے گا اور کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔ سلامتی اور تحفظ تو بس ان کا ہی مقدرہوگا  جو اللہ سے ڈر جائیں اوراپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق کرلیں اور خود کواللہ کے سپرد کردیں۔ یقینا ًکامیابی اور سرخروئی انہیں کا مقدر ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔