گاؤں کی ڈاکٹر بیٹی

عزیز اعظمی 

 نسواں اسکول سے فارغ ہوتے ہی اماں نے بازار سے ریشمی دھاگا، ستارہ، موتی منگوایا اور جہاں  آرا آپا کے گھر تکئے اور چادر پر پھول پتی، بیل، بوٹے سیکھنے کے لئے بھیج دیا، میں ہر روز صبح گھر کے  کاموں سے فاغ ہوکر جہاں آرا آپا کے گھر جاتی اور دن بھر بیٹھ کر اپنی سسرال لیجانے والی چادراور تکیہ پر پھول بناتی ابا ان دونوں تجارتی غرض سے دلی گئے ہوئے تھے ہفتے بعد جب واپس آئے تو گھر میں میری غیر موجودگی پر اماں سے پوچھ بیٹھے کہ فائزہ کہاں ہے اماں ابا کا مزاج سمجھتی تھیں ان کو قائل کرنے کی خاطر خانہ امورداری کا حوالہ دیتے ہوئے  بولیں کہ آپ تو دن بھر کاروبار میں رہتے ہیں کبھی فائزہ کی آنے والی زندگی اور گھریلو ذمہ داریوں کے بارے میں سوچا کہ زندگی بھر اسی طرح بیگ اٹھا ئےاسکول آتی اور جاتی رہے گی پھر ہمارے دیہاتی معاشرے میں ایسی تعلیم کا کیا مقصد  کہ بچیاں جس کتاب اور کاپی پر لکھنا اور پڑھنا سیکھیں پھر سسرال جاکر اسی کتاب، کاپی کو پھاڑ کر چولھے کی آگ جلائیں، ایمن کے ابا ہمارے اس دہقانی سماج میں بیٹی کے مقدرمیں کچن کے چولھے اور روٹی کے بیلن کے سوا کچھ نہیں، فائزہ کو اب آگے پڑھا کر اس کتاب کاپی پر اور خرچ نہ کریں شادی کے بعد جس کے اوراق پھاڑکر آگ جلایا جائے، اب اسے گھر گرستی سیکھنے دیں جو اس کی آنے والی زندگی میں کام آ سکے، فائزہ کا اسکول ختم ہوچکا ہے گاوں کا اسکول فارغ کر چکی ہے لکھنا، پڑھنا تو سیکھ چکی ہے لیکن اب تک اسے سوئی میں دھاگا ڈالنا بھی نہیں آتا جو ایک عورت کا فطری فن اوراسکی  بنیادی ضرورت ہے، جب کوئی ہنر نہیں ہوگا تو سسرال میں جاکر کیا کرے گی، کیا منھ  دکھائے گی اور پھر ساس اور سسر کی نظر میں اسکی کیا عزت ہوگی اس لئے میں نے اسے جہاں آرا کے گھر سلائی کڑھائی سیکھنے کے لئے بھیج دیا محلے کی ساری لڑکیاں پڑھائی کے بعد انھیں کے گھر ہنر سیکھ کر سسرال میں آج  ایک ہنر مند، سلیقے مند  اور مثالی بہو کہی جاتی ہیں۔

اماں کی یہ فرسودہ روایتی باتیں سنتے ہی ابا چراغ پا ہوگئے منھ کا نوالہ، ہاتھ کا پانی میز پر غصے سے رکھتے ہوئے جہاں آرا آپا کے دروازے آئے اور مجھے گھر لے گئے، گھر پہونچتے ہی میرے ہاتھ سے جھولا، تکیہ، ستارہ، موتی چھین کر پھینک دیا اور اماں کے سامنے سخت لہجے میں کہا کہ کل سے تمھیں اسکول  جانا ہے اور خبر دار جو آج کے بعد کتاب کی جگہ جھولے، تکئے کو ہاتھ لگایا تو  …………….  میں اس چیز کے سخت خلاف ہوں کہ لڑکیاں پڑھنے پڑھانے کے بجائے گھروں میں بیٹھ کراپنی ذہانت کو تکئے پر پھول بنانے میں صرف کردیں، نسلیں سنوارنے کے بجائے اپنی جہیز کی چادر کو پھول اور پتیوں سے سنوارنے میں گزار دیں، جس کو شادی کے چند سال بعد ہی کچن کی دستی اور فرش کا پوچھا بنا کر پھیک دیا جائے، اکیسویں صدی کے ایسے ترقی یافتہ دورمیں جہاں دنیا مریخ پر پانی تلاش رہی ہو اورہم اپنے فرسودہ برہمنی رسم و رواج اورپرمپرا کو خاندانی عزت کا معیار اور بچیوں کی زندگی کا مقصد سمجھ  کر گلے کا ہار بنائیں تو ہماری جہالت اور قدامت پرستی بھی ان سے کم نہیں ہوگی جو آج بھی گوبر سے ہیرا اور گئومتر سے شفاء کی امید لئے بیٹھے ہیں۔

ابا ہمیشہ کہتے کہ فائزہ کی اماں …… یہ جھولا، تکیہ، چادر، بیل، بوٹا، بچیوں کی خوبصورت زندگی اور روشن مستقبل کی ضمانت نہیں لیکن یہ بات  اماں سمجھنے کو تیار ہی نہیں، انکی نظرمیں ایک کامیاب عورت اور سلیقے مند بہو وہ ہے جو سلائی، کڑھائی کے ساتھ  ساتھ  کم تیل میں بہترین کھانا بنانے کا ہنر جانتی ہو، کام والی بائی کے بغیر کچن اور اس میں رکھے برتن کو شیشے کی طرح چمکانا جانتی ہو، اماں اپنی اورمعاشرے کی اسی سوچ کے مطابق مجھے ایک لائق و فائز بیٹی اور ایک ہنر مند بہو بنانا چاہتی تھیں  اورابا اپنے خیال کا مطابق معاشرے کی ایک تعلیم یافتہ بیٹی، اس دو مختلف نظریئے کی تائید کے لئے اگر ووٹنگ کی جاتی تو اماں کی تائید میں پورا گاوں بلکہ پورا سماج کھڑا ہوتا لیکن ابا کی حمایت میں معاشرہ تو دورانکے سگے بھائی رحمت اللہ خان بھی کھڑے نہ ہوتے، لیکن ابا پٹھان ذہنیت کے حامل جس بات کو ٹھان لیتے تو اسکو  کرکے ہی دم لیتے، چاہے زمانہ خلاف ہی کیوں نہ ہوجائے، چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہی کیوں نہ ہو جائے، ان کا کہنا تھا کہ نہ میں معاشرے کے ہر فرسودہ نظام کو قبول کر سکتا ہوں اور نہ ہی معاشرے کی ہر جدت کو اپنا سکتا ہوں، خلاف شریعت تو کوئی کام نہیں کر سکتا لیکن جو شریعت اوردین فطرت ہے اس سے پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتا، جب قران و حدیث تعلیم نسواں کی اجازت دیتا ہے تو میں اپنی بچیوں کوتعلیم کیوں نہ دوں بلکہ اعلی سےاعلی تعلیم دونگا چاہے اس کے لئے رشتہ، ناتہ، گاوں، سماج مجھے سے ناراض ہی کیوں نہ ہو جائے، مجھے نظر انداز ہی کیوں نہ کرد ے میں روایت اور رسم و رواج کا اسیر نہیں کہ پہلی نظر میں ہر جائز تبدیلی کو بھی حرام قرار دوں اور جب رائج ہو جائے تو حلال سمجھ کر قبول کرلوں میں مولوی نما مفتیان کرام اورمعاشرے کے ہر اس فتوے کا پابند نہیں جو شریعت اور حقائق کی روشنی میں نہیں بلکہ اندھی عقیدت اور روایت کی بنیاد پر دیا گیا ہو کسی زمانہ میں تصویر نکالنا حرام تھا آج  موبائل اور کیمرے  کا زمانہ آیا تو کعبہ کے پہلو میں سلفی نکال کر فیس بک پر ڈالنا حلال ہو گیا، ایک زمانہ تھا بچیوں کو گھر سے باہر نکل کر تعلیم حاصل کرنا جرم تھا  نسواں مدرسے قائم ہوئے رواج بڑھا تو نسواں تعلیم جائز ہو گئی، آج نسواں مدرسوں سے آگے نکل کراعلی تعلیم کے لئے بچیوں کو کالج اوریونیورسٹیوں میں بھیجنا حرام ہے کل یہ سلسلہ عام ہوگا تو ہماری سوچ اور نظریہ بدل جائے گا، کل تک عورتوں کو بائک پر بیٹھا کر لے جانا بے حیائی، بے پردگی، بے غیرتی اور حرام تھا جب یہ معاشرے میں عام ہوا نظریں عادی ہوئیں تو حلال ہوگیا، میں دین و شریعت میں سکہ رائج الوقت کا پیروکار نہیں بلکہ قران و حدیث کا پیروکار ہوں جو چیز عہد نبوی میں حرام تھی وہ آج بھی حرام ہے جو چیز نزول قران کے زمانے میں حرام ہوئیں وہ اب بھی حرام ہیں نہ قران کی آیتیں زمانے کے مطابق بدلتی ہیں اور نہ حدیث کے متن، کہ اپنی مرضی سے جب جس کو چاہا حلال کیا جب جس کو چاہا حرام، میں وہی کرونگا جو دین و ایمان کے موافق ہوگا۔ جو مجھے بہتر لگے گا۔

ابا اپنی دلیل دیتے ہوئے اماں کی باتوں کونکارتے ہوئے، گھر اور خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے گاوں کے نسواں اسکول سے فراغت کے بعد آخر کار انھوں نے میرا داخلہ پاس کے انٹر کالج میں کروا ہی دیا، ایک باب کا بیٹی کے تئیں یہ تعلیمی جذبہ اسکا بھروسہ اسکا پراعتماد لہجہ میرے سر کے اوپر زمہ داری اور عبایا کے اوپر حیاء کی ایک اور چادر ڈال دی، میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اس ذمہ داری اور حیاء کی چادر اس وقت تک نہیں اتارونگی جب تک ابا کا خواب سچ نہ کر دوں، ان کا سر معاشرے میں فخر سے بلند نہ کردوں اماں کے سامنے میں نے اس گھر کی عزت کی قسم کھا کرابا کو  یقین دلایا کہ ابا نہ کبھی میں اس گھر کی عزت پر آنچ آنے دونگی اور نہ کبھی آپکا سر معاشرے میں جھکنے دونگی، اگر آپ کا مقصد مجھے پڑھانا ہے تو میری بھی ضد پڑھ کر ثابت کرنا ہے، میری یہ باتیں سن کر ابا فرط جذبات سے رو پڑے  اور اماں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دیکھو یہ میری بیٹی ہے اور مجھے فخر ہے اپنی بیٹی پر جو ایک مثبت سوچ رکھتی ہے۔

ابا میری تعلیم کے پیچھے صرف تکلیف سے نہیں بلکہ بڑی اذیت سے گزرے، محلے پڑوس کے طعنے، گھر اور خاندان کی بے تکی باتیں، معاشرے کی تعریض و تنقیص سب کچھ  برداشت کی لیکن ہار نہیں مانے، ابا صبح جب مجھے اسکوٹر پر بیٹھا کر کالج کے لئے نکلتے تو گاوں کی پلیا پر بیٹھ کر دوسروں کی بہن بیٹیوں کو کنکھیوں سے دیکھنے والے معزز لوگ ابا کا مزاق اڑاتے، جن کے پاس کوئی ناک نہیں ہوتی وہ بھی ناک کی بات کرتے ابا کو کہتے کہ بیٹی کو صبح شام اسکوٹر پر بیٹھا کر گاوں کی ناک کٹا تے ہیں، ہمیں اپنی بیٹیوں سے نوکری نہیں کروانا جو روز اسکوٹر پربیٹھا کر کالج لے جاتے ہیں گاوں کا نسواں اسکول بچیوں کی تعلیم کے لئے کافی نہیں جو یہاں کے بعد کالج لے گئے جہاں بیہودہ لڑکے پڑھنے کے بجائے آوارگی کرتے ہیں اور کون سا بیٹی کو انجینئر اور ڈاکٹر بنا لینگے جو اس قدر ان پر تعلیم کا بھوت سوار ہے، وہ کسی کا جواب دیئے بغیر لوگوں کو نظر انداز کر آگے بڑھ جاتے۔

انٹر میڈیٹ کے بعد میں نے میڈیکل کا ٹیسٹ دیا، طبیہ کالج میں ایڈمیشن ہو گیا اور چار سال بعد ڈاکٹر بن گئی، دو سال پریکٹس کے بعد ابا نے بغیر جہیز دیئے میری شادی کردی کیونکہ جہیز کی ساری رقم توانھوں نے میری تعلیم پر خرچ کردیا تھا میری خوش نصیبی اور حسن تفاق کہ جہاں شادی ہوئی ان کو جہیز نہیں بلکہ اپنے ڈاکٹر بیٹے کے لئے ڈاکٹر بہو چاہئے تھی، میرے شوہر بھی ایک ڈاکٹر تھےکچھ  دن بعد جب ہم نے علاقے میں اپنا نرسنگ ھوم بنوایا اور سمیع اللہ انکل جنھوں نے میری تعلیم پر سب سے زیادہ اعتراض کیا تھا لوگوں سے کہا کرتے تھے جاوید اپنی جوان بیٹی کو اسکوٹر پر بیٹھا کر تعلیم کے نام پر گاوں کی رسوائی کراتا ہے اتفاق کہ آج جب اسی بیٹی کے ہاسپیٹل میں آدھی رات کو اچانک آئے انکے ہارٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کیا گیا اور صبح الحمداللہ جب انھیں ایمرجینسی وارڈ سے صحیح سلامت، نارمل اور پرسکون حالت میں باہر نکالا گیا تو مجھے دیکھ کر  انکی آنکھیں آنسووں سے نم اور پلکیں شرم سے جھکی ہوئی تھیں، میں نے انکے سر پر اطمنان کا بوسہ دیتے ہوئے کہا اللہ آپ کو لمبی عمر دے آپ میرے والد کی طرح ہیں اور مجھے اس بات کا فخر ہے کہ باپ ایک مقدس محافظ اور لازوال محبت کا پیکر ہوتا ہے وہ ہر حال میں اولاد کا تحفظ اور انکی خوشی چاہتا ہے مجھے آپکی کسی بات کا زررہ برابر بھی ملال نہیں آپ نے اس وقت وہی کیا جو آپکو صحیح لگا۔ سمیع اللہ انکل میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے مجھے اپنے گاوں کی ڈاکٹر بیٹی پر آج فخر ہے، بیٹا تم اور تمہارے باہمت، قابل احترام والد اس وقت صحیح تھے ہم سب غلط تھے جو یہ کہتے تھے کہ بیٹیوں کو پڑھانے سے کیا فائدہ انکا کام تو صرف کھانا بنانا اور گھر سنبھالنا ہے، لیکن آج سمجھ میں آیا کہ تعلیم بچیوں کے لئے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ بچوں کے لئے بلکہ میں تو کہونگا بچیوں کے لئے اور بھی ضروری ہے کیونکہ وہ نسلوں کی معمار ہیں صبر و تحمل اور نرم مزاجی کی پیکر ہیں میں اپنی بیٹی کو تو نہیں پڑھا سکا لیکن پوتیوں کو ضرور پڑھاونگا۔

تبصرے بند ہیں۔