اسلام اور دہشت گردی: سچ کیا، جھوٹ کیا؟ 

شہباز رشید بہورو

آفتاب کو قندیل کہنے والا انسان یا آفتاب کو قندیل میں تبدیل کرنے کا خواہشمند اپنے آپ کو دنیا کا ذہین، فہیم، ماہر اور تجربہ کار سمجھے، یہ اس کا احمق تر ہونے کی صریح دلیل ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ مغرب کا ہے۔ مغرب نے اپنی اسلام دشمنی میں اسلام کو بدنام کرنے کی ہر قسم کی رزیل حرکت کی۔ اسلام کی حیثیت کو بدلنےکی کوشش کی، چراغِ مصطفوی کو بجھانے کی سعی کی، رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی ذاتِ مبارکہ پر رقیق حملے کیے، اسلامی عقائد، عبادات، رسومات غرضیکہ ہر پہلو کو ہدفِ تنقید بنایا۔ مغرب کا یہ مقصد ہے کہ اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح محض ایک مذہب بنایا جائے حالانکہ یہ عمل آفتاب کو قندیل بنانے کے مترادف ہے۔ مغرب کا ہر کام اسلام کی دشمنی سے تحریک پکڑتا ہے، توانائی حاصل کرتا ہے اور اسلام کے ساتھ منسلک کرنے میں معروفیت پاتا ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ مغرب کی خصوصاً امریکہ کی خارجی پالیسی صرف اور صرف اسلام دشمنی کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔ امریکہ میں بہت سارے تھینک ٹینک  صرف اور صرف اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور یہ تھینک ٹینکس امریکہ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے تشکیلی عمل میں گہری مداخلت کرتے ہیں۔

 پچھلے ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں ہر دور میں کوئی نہ کوئی ملک اسلام دشمن کیمپ کی سربراہی کرتا رہا ہے۔ اٹلی، فرانس، جرمنی  انگلستان اور اب امریکہ اس منصب پر فائز ہے۔ مغرب اسلام کو بدنام کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا ہے۔ اپنی قومی آمدن کا اچھا خاصا حصہ اسلام دشمنی کے کاموں میں صرف کر رہا ہے۔ مغرب اسلام کا مطالعہ کسی نیک نیتی سے نہیں کرتا ہے بلکہ بد نیتی کی اندرونی آگ سے متاثر ہو کر یہ سب کام کر رہا ہے۔ مغرب کی جامعات میں اسلام سے متعلق بے شمار فیلڈز میں ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے لیے موضوعات زیر تحقیق ہیں۔ اس ظمن میں ایک فطری سوال جو ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر مغرب کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اتنی زیادہ محبت اور دلچسپی کیوں ہے کہ وہ اپنے قومی بجٹ کا ایک اچھا خاصہ حصہ صرف اسلام اور مسلمانوں پر خرچ کرے ؟ مغرب کو کیا پڑی ہے کہ وہ افغانستان، عراق، پاکستان، لیبیا، شام، ایران، یمن تیونس وغیرہ کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لیے پہل کرے، انھیں کیا پڑی ہے کہ وہ اسلامی دنیا کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر دن کوئی نہ کوئی نئ تجویز مجوز کرتے رہتے ہیں، انھیں ہمارے اسلامی ممالک کے بیروکرٹس، ریٹایرڈ پروفیسر وغیرہ بقول مرحوم محمود احمد غازی کیا رشتہ دار لگتے ہیں کہ انھیں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ہاں مدعو کر کے بڑے عہدوں پر براجمان کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنا ایک مثال کے ذریعہ آسان ہو جائے گا اگر ایک معاشرے میں کوئی قاتل ایک قتل کرنے کے بعد اور بھی قتل کرتا ہے تو بھولی بھالی عوام یہ سمجھتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان انسان کا ہی قتل کرے اور اس قتل کو سرانجام دینے کے لیے اتنی بڑی سازش رچائے۔ لیکن یہ ایک حقیقی واقعہ ہوتا ہے کیونکہ قاتل کے لیے یہ سارے کام اس کی عادتِ خبیثہ کا جز ہوا کرتےہیں۔ اسی طرح سے مغرب سے ان سارے افعال کا ارتکاب ہونا بعید از امکان نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ مغرب اسلام کے خلاف کیوں پے؟  بقول علامہ اقبالؒ

ہے اگر مجھکو خطر کوئی تو اس امت سے ہے 

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

مغرب کو اسلام کی سادہ اور فطری بالادستی سے خطرناک بیر ہے کیونکہ اسلام انسان کی فطرت پر حکومت کرتا ہے اس کے روح کو مسخر کر کے اس کی شخصیت پر بالادستی قائم کرتا ہے۔ اس کے بر عکس مغرب کا دجالی نظام انسان کی خواہشات کو مسخر کرکے اس کے بدن پر بالادستی قائم کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک چالاک جانور ضرور بنتا لیکن ایک انسان بننا اس کے لئے ایک خواب ہی رہا کرتا ہے۔ مغرب کی بالادستی جبری ہے جبکہ اسلام کی فطری ہے۔ مغرب  نے اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے ہر ناجائز طریقے کا استعمال کیا۔

مغرب کے اس کیمپ کا سردار امریکہ نائن الیون کے سانحہ خود کروا کر اپنی تیس ہزار عوام کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور پھر اناً فاناً افغانستان پر حملہ آور ہو کر پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگردی کا موجب ٹھراتا ہے۔ اسلامی دہشتگردی کی اصطلاح مغرب کے سیاسی بیانیہ کا ایک اہم ترین جز بن گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت زمینی سطح پر یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ لفظ دہشتگردی کا جوڑ ایسا ہی ہے جسے آفتاب کے ساتھ اندھیرا۔ اس آدمی کی حماقت کی حد کا تعین کس طرح سے کیا جا سکتا ہے جو یہ کہے کہ سورج طلوع ہونےکے بعد اندھیرا چھا جاتا ہے اور آفتاب کے غروب ہونے یا کالے بادلوں سے ڈھک جانے کے بعد روشنی پھیلتی ہے۔ ایسا انسان خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو احمق ترین انسان قرار دیا جائے گا۔ یہی کچھ معاملہ مغرب کا ہے.

امریکہ نے اپنے ہاں بڑی تعداد میں weapons of mass destruction تیار کیے اب امریکہ دجال کو اپنی طاقت کا اظہار کرنے کے لیے کوئی بہانہ چاہيے تھا تاکہ وہ دنیا کی ہمدردیاں اپنی طرف سمیٹ کر کاراوائی شروع کرتا اسلئے 1941 میں پرل ہاربر کا عظیم سانحہ خود کروا کر جنگ عظیم دوم میں کود پڑا جس کے نتیجے میں دنیا کو اپنی عسکری طاقت دکھانے کے لیے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو صفائے ہستی سے مٹانے کی ایک کامیاب کوشش کی۔ اس عظیم تباہی کے بعد امریکہ وقتاً فوقتاً دنیا میں اپنے جبرو قہر کا اظہار جزوی طور پر کرتا رہا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے کھل کر اپنی صلیبی تکمیل کے لئے مسلم دنیا میں اپنے جبروظلم کو ظاہر کیا۔ مسلم دنیا میں اپنی صلیبی حملوں کا آغاز کرنے کے لئے اسے کوئی بہانہ چاہيے تھا جو بہانہ وہ کسی عظیم حادثے کی شکل میں کھڑا کرنا چاہتا تھا جیسے کہ پرل ہاربر کا واقعہ تھا۔ عین اسی طرح انھوں نے گیارہ ستمبر 9/11  کا سانحہ کروایا جس میں امریکہ نے اپنی عوام کا قتل کروا کر افغانستان پر بغیر کسی واضح ثبوت کے  چڑھائی شروع کر دی اسی حوالے سے ایک مصنف نے لکھا تھا: ’’امریکہ عراق، افغانستان وغیرہ پر اُس وقت تک حملے کے قابل نہیں ہو سکے گا، جب تک کوئی عظیم تباہی وقوع پذیر نہ ہو”.9/11 سانحہ امریکہ کی اس نئی عیاری کا نتیجہ تھا۔ اس سانحہ کے  بعد امریکہ نے اسلام کو ہی دنیا کی پریشانیوں کا سبب گردانا۔ لفظِ دہشتگردی کو اسلام کا ہمنام اور مسلمانوں کا بنیادی شیواہ قرار دیا۔ امریکہ کے اس بیانیہ نے دنیا کے تمام ممالک کو متاثر کیا اور اس کے بعد گویا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ایک تحریک ہی شروع ہوئی۔ حد یہ ہے کہ امریکہ جو کہ اصلاً اسرائیلی لونڈی ہے نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پوری دنیا کی رائے عامہ کو ہموار کیا۔ اس ہموارگی سے فائدہ اٹھا کر امریکہ عالم اسلام کو مٹانے کے لئے کود پڑا۔

دہشت گردی مغرب کی ڈکشنری کا لفظ ہے لیکن اس لفظ کو مسلمان ممالک نے بڑی ہی نرمی کے ساتھ قبول کیا۔ اس قبول کرنے کی وجہ سے اسلامی دنیا کا وقار ایک حساب سے داو پر لگ گیا کیونکہ ایک غیور ملت نے دباو میں آکر غیرت کا لباس اتار پھینکا۔ دہشت گردی کا آغاز مغرب نے کیا اس کا پھیلاو ان کی وساطت سے پوری دنیا میں ہوا۔ عظیم جنگیں انہوں نے بھڑکائی، ایٹم بم انہوں نے داغے، فلسطین پر یہودیوں کا خنجر انہوں نے گھونپا اور پھر مسلم دنیا میں حالیہ قتل وغارت انہوں کا کھیل ہے گویا کہ دہشت گردی کے جو بھی اجزاء ہیں ان کا موجد مغرب ہے لیکن امت مسلمہ نے مغرب کے بوجھ کو اٹھانےکی استدعا کی۔ اس استدعا کے عمل میں آج تو سعودی عرب نے حد ہی کر دی ولی عہد محمد بن سلمان نے مغرب کا ایجنٹ و مقرب بن کر ان کی ہر رزیل خواہش کو پورا کرنے کی ٹھان لی ہے، شہرت کے نشے میں امریکہ اور اسرائیل کی کٹھ پتلی بن کر کھیلتے ہوئے آگے بڑہ رہا ہے۔ مغرب کے اس کامیاب اقدام کے بعد امریکہ نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن، مصر وغیرہ میں بے خوف ہو کر خونین کاراوائیاں کیں۔ اب امریکہ کو روکنے والا بھی کون تھا کیونکہ امریکہ دنیا کی نگاہوں کے سامنے بیچارہ، مظلوم اور مجبور تھا۔ کسی بھی مسلم حکمران نے اس کے خلاف کوئی جوابی بیانیہ نہیں دیا ۔ جس دہشتگردی کے لفظ کا موجد مغرب ہے اس کے اکثر و بیشتر مفاہیم خود مغرب پر منطبق ہوتے ہیں۔ جیسے ہم گلاب کے پھول اور بدبو کو نہیں جوڑ سکتے ہیں، شہد میں کڑواہٹ کا تصور نہیں کر سکتے، دودھ کا کالا رنگ متصور نہیں کر سکتے، افتاب روشن ہونے کے بعد اندھیرے کا تصور نہیں کر سکتے اور اسی طرح ہم اسلام میں دہشت گردی کا تصور نہیں کر سکتے ۔ اگر کوئی آدمی پھول اور بدبو کو ایک دوسرے کا نتیجہ مانتا ہو اس کی عقل و فہم اور اس کی نیت کے بارے میں ہر عام و خاص  رائے قائم کر سکتا ہے۔ عقل و فہم کے اعتبار سے وہ احمق و اندھا اور نیت کے اعتبار سے وہ بد نیت اور متعصب کہلانے کا حقدار ہے، یہی کچھ معاملہ مغرب کا ہے۔ ایک احمق اور اندھا بھی دولت کما سکتا ہے دوسرں کی بنائی ہوئی چیزوں کو استعمال کر سکتا ہے لیکن اس سے ہرگز یہ اخذ نہیں کیا جائے گا کہ وہ عقل مند اور فہیم ہے۔ مغرب کے شدت پسند سیاستدان اپنے ماہرین کی بنائی ہوئی چیزوں کا غلط استعمال کرتے آرہے ہیں۔ ان کی شاترانہ چالوں کو سمجھنے کے لیے امتِ مسلمہ کو لا محالہ اسلام کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھالنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔