‘ادارہ عالمی اردو محفل’ کا طرحی مشاعرہ

رپورٹ: فائق تُرابی

میں تیرا نام نہ لوں اور لوگ پہچانیں

کہ اپنا  آپ  تعارف ہَوا بَہَار کی ہے

  ”ادارہ عالمی اردو محفل” ایک واٹس ایپ گروپ ہے جو بین الاقوامی سطح پر شعراء و ادباء کے مابین رابطے اور توسط کا ایک ذریعہ ہے – اس گروپ کو روزانہ کی بنیاد پر اُردو ادب کے طلباء کیلیے کتب کی فراہمی کا ایک اہم ترین اعزاز حاصل ہے-شعری و نثری مجموعوں کے علاوہ مؤقر ادبی جریدے، تحقیقی و تنقیدی مقالے اور لسانیات وغیرہ جیسے اَہَم موضوعات پر کتابیں شامل کی جاتی ہیں –

رفتگاں کی یاد تازہ کرنے اور اُن کی خدمات کو خراج پیش کرنے کے لیے ایامِ ولادت و وفات کے لحاظ سے سوانحی، تحقیقی اور تنقیدی نوٹس شامل کیے جاتے ہیں نیز کلام کا انتہائی عمدہ انتخاب پیش کیا جاتا ہے۔

 چونکہ ”ادارہ عالمی اردو محفل” میں بہت سے ممالک کے معتبر شعراء کرام شامل ہیں لہذا وقتاً فوقتاً طرحی اور. غیر طرحی مشاعروں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔  شعراء و شاعرات کی کثیر تعداد میں شرکت ”ادارہ عالمی اردو محفل” سے محبت کا روشن ثبوت ہے۔

 انہی مشاعروں کے تسلسل میں 28 ستمبر 2018ء، رات 09:00 بجے (پاکستانی) اور 09:30 بجے (ہندوستانی) ایک فی البدیہہ طرحی مشاعرہ منعقد ہوا – جس کی صدارت معروف شاعرہ محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل نے کی- اس مشاعرے کے آرگنائز ادارہ عالمی اردو محفل کے بانی و چیئرمین جناب مہر خان صاحب تھے- جناب مہر خان صاحب نے ہی ”ادارہ عالمی اردو محفل” کی شمع جلا رکھی ہے- آپ کی خدمات لائقِ  تحسین ہیں۔ طرحی مصرعوں کا انتخاب ڈاکٹر شہناز مزمل کے شعری مجموعے (میرے خواب ادھورے ہیں) سے کیا گیا؎

ع_ ”خالی نظروں سے مجھے دیکھا، کہا کچھ بھی نہیں”

ع_ ”کیا ہُوا ایسا کہ کہنے کو رہا کچھ بھی نہیں”

   لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں طرحی مصرعی ذوالبحرین ہیں سو ان مصرعوں پر شعر کہنے والوں کو یہ سہولت میسر آئی کہ دونوں بحروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا گیا۔

نظامت کے فرائض جناب مہر خان صاحب نے سر انجام دیے- محفلِ شعر کا آغاز حمدِ باری تعالٰی سے ہوئی، جس کی سعادت ڈاکٹر ارشاد خان کے حصے میں آئی – اس حمد کی یہ خصوصیت ہے کہ تمام مصرعے ”آ” (الف ممدودہ) سے شروع ہوتے ہیں – بارگاہِ سیدِ کونین میں سید خادم رسول عینی نے عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔

    جن شعراء نے طرحی مصرع پر کلام پیش کیا اُن کے نام اور نمونہ کلام پیش کیے جا رہے ہیں:

اشرف علی اشرف (سندھ، پاکستان)

عشق کی بس ابتدا ہے، انتہا کچھ بھی نہیں

دل کے اندر کچھ نہیں تو جا بجا کچھ بھی نہیں

ڈاکٹر شاہد رحمان (فیصل آباد)

پیار کی بات نہیں عہد وفا کچھ بھی نہیں

کوئی وعدہ کوئی تحفہ نہ دعا کچھ بھی نہیں

کتنا سنسان ہے گھر اپنا مگر رہتے ہیں

کوئی آہٹ کوئی دستک نہ ہوا کچھ بھی نہیں

حافظ فیصل عادل

جیسے اس کے لیے میں تھا کوئی ممنوع کتاب

دور سے دیکھا فقط اور پڑھا کچھ بھی نہیں

لازمی ہے کہ ہوں کانٹے بھی گلوں کے ہمراہ

ورنہ گل چیں ترے پیشے میں مزا کچھ بھی نہیں

جاوید صدیقی گونڈوی

تپتے صحرا میں تری زلفوں کا سایہ ہے بہت

جانِ جاں ساون کی بھی کالی گھٹا کچھ بھی نہیں 

اطہر حفیظ فراز

اب نہ وہ عمر، جوانی، نہ ھی چنچل باتیں،

اب یہ سنگھار، یہ چوڑی یہ حنا کچھ بھی نہیں

میں نے اک بار فراز!! اتنا کہا تھا دل سے،

تجھ میں اور دیپ میں ھے فرق کہا کچھ بھی نہیں

ابنِ عظیم فاطمی (کراچی، پاکستان)

پاس حسرت کے سوا اور بچا کچھ بھی نہیں

اس نے اچھا ہی کیا مجھ سے کہا کچھ بھی نہیں

جتنی خوشیاں تھیں سبھی واری گئیں ان پہ عظیم

اب تہی دست ہوں ایسا کہ بچا کچھ بھی نہیں

سید خادم رسول عینی

ان کا جلوہ ھے اگر  کیف کی بارش بھی ھے

ان کے بن پیار کے بادل کی گھٹا کچھ بھی نہیں

قہقہہ خوب لگاتی ھے تری عیاشی

حیف! مظلوم کی آہوں کی صدا کچھ بھی نہیں

نسیم خانم صبا (کرناٹک انڈیا)

علم سے بڑھ کر اثاثہ بے بہا کچھ بھی نہیں

علم سے خالی و جو اس میں رہا کچھ بھی نہیں

خلق کی خدمت کی خاطر وقف کر دیجے حیات

قوم کی خدمت بہتر راستہ کچھ بھی نہیں

سلطان ساجد

کاروانِ دل مرا یہ شہر میں انکے لٹا

اپنے دامن میں بنا آنسو بچا کچھ بھی نہیں

صوفی بستی (ہندوستان)

لب ہلے آنکھیں ملیں باتیں ہوئیں پھر بھی مگر

سامنا جب بھی ہوا ان سے کہا کچھ بھی نہیں

تبصرے بند ہیں۔