ہم مسافر ہیں جہاں چاہیں ٹھہر جاتے ہیں
جمیل اخترشفیق
ہم مسا فر ہیں جہاں چاہیں ٹھہر جاتے ہیں
ٹھوکریں ملتی ہیں ہرسمت، جدھر جاتے ہیں
…
میں تو دیوانہ طبیعت ہوں مجھےکیامعلوم
حادثے کتنے مر ے سر سے گزر جاتے ہیں
…
جانے کس عہد میں بھیجا ہے خدانے مجھ کو
لوگ جینے کے تصور سے ہی مر جا تے ہیں
…
کیسی وحشت کا تسلط ہے مرے بچوں پر
رات کیاصبح کو بھی خواب میں ڈرجاتےہیں
…
لوگ کہتے ہیں جنہیں اپنے زمانے کا ولی
وہ بھی میخانے سے ہوتے ہوئے گھر جاتے ہیں
…
کتنی نازک ہےشفیق ان کی طبیعت مت پوچھ
گرکے شیشے کی طرح پل میں بکھر جاتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔