ہم کسی طور بھی سنورتے ہیں
عبدالکریم شاد
ہم کسی طور بھی سنورتے ہیں
آئینے پر گراں گزرتے ہیں
…
آپ خود عشق سے مکرتے ہیں
اور الزام ہم پہ دھرتے ہیں
…
چاند تالاب میں کھلے جیسے
وہ مری آنکھ میں اترتے ہیں
…
ہم دوانے ہیں، آزما نہ ہمیں
ٹھان لیں جو بھی، کر گزرتے ہیں
…
پوچھتا ہوں میں آپ کی مرضی
آپ لوگوں کی بات کرتے ہیں
…
کوئی منزل نہیں ہے دنیا میں
جو چلے ہیں وہ کب ٹھہرتے ہیں
…
دل کی دوزخ میں رہنے والے لوگ
موت آتی نہیں پہ مرتے ہیں
…
ذکر جاری رکھو محبت کا
ذہن میں کچھ نقوش ابھرتے ہیں
…
تولتے ہیں جو پر فلک کے لیے
سیڑھیوں سے کہاں اترتے ہیں
…
حالِ دل سن کے یار کہتے ہیں
آپ اچھا مذاق کرتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔