ہوشیار! اپنے گھروں کو تباہی سے بچائیے

شیخ فاطمہ بشیر

 حالیہ معاشرے میں نشہ لوگوں کے لیے اور خصوصاً نوجوانوں میں فیشن کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ اور یہ فیشن لت میں کب بدل جاتا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ پہلے پہل مزہ آتا ہے، پھر عادت بنتی ہے اور بالآخر ایک ایسا مقام آجاتا ہے جب نشہ نہ ملے تو بدن میں تکلیف، تڑپ اور بے سکونی محسوس ہوتی ہے۔ لوگ ہمیشہ یہ سوچ کر نشہ کرتے ہیں کہ ایک دو بار استعمال کے بعد اُسے چھوڑدے گے لیکن آگے چل کر یہ اُنہیں لت کی شکل میں جکڑ لیتا ہے۔ اس بات سے قطعِ نظر کے منشیات کس قدر غیر قانونی ہے، لیکن اِس کا پھیلاؤ ہمارے معاشرے کے لئے  نہایت سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے۔

نشیلی چیزوں کی لت کیسے لگتی ہیں؟

اکثر کہا جاتا ہے کہ نشے کی چیزوں سے دور ہی رہنا چاہیئے۔ اگر ایک بار ان کی شروعات ہوگئی تو انسان خود نہیں جانتا کہ وہ نشے کی طرف کب کھینچا چلا جاتا ہے اور پھر اپنے جسم اور زندگی سے کھلواڑ کربیٹھتا ہے۔ آخر اس میں ایسا کیا ہے جس کے ہم عادی ہوجاتے ہیں؟ دراصل جب ہم کسی نشیلی شئے کا استعمال کرتے ہیں تو وہ سیدھا ہمارے دماغ پر اثر ڈالتی ہے اور پھر دماغ اُن خیالات کو جگاتا ہے جس کی ہم تمنّا کرتے ہیں۔ نشے کے یہ اثرات دماغ کی نسوں کے ذریعے بالجبر ڈوپامین ہارمون جاری کرتے ہیں جس سے کچھ وقت تک خوشی کا احساس ہوتا ہے، پھر نشے کی طلب بڑھنے لگتی ہے۔ یہ نشیلی اشیاء دماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ انسان کا اپنے جسم اور دماغ پر قابو نہیں رہتا، اُسکی سانسیں دھیمی ہونے لگتی ہے اور پھر ایسا مرحلہ آتا ہے جب نشہ نہ ملنے کی صورت میں وہ اکثر چڑچڑا یا پریشان ہوجاتا ہے اور نشہ کرنے کے بعد وہ خود کو پُرسکون اور ہلکا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسے ہی نشے کی لت کہتے ہے۔

منشیات کی لت کن افراد کے لئے خطرے کی گھنٹی؟

منشیات کا زہر انسان کو اندر سے کھوکھلا کرنے لگا ہے۔ نوجوان نسل اسکے دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔ ایسے افراد جن کے لیے صورتحال خطرناک ہے:

1) جن گھروں میں والدین کے درمیان جھگڑے زیادہ ہو وہاں کے بچے بہت خطرے میں ہوتے ہیں۔ اُن میں اعتماد نہیں ہوتا، جس سے اندر کی شخصیت مضبوط نہیں ہوپاتی۔ یہی کمزوری اُنہیں گرفتار کرلیتی ہے اور وہ جلد ہی دوسروں پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ دوست یا رشتےداروں کے سبب کسی نشے والے کے ہاتھوں پہنچ جاتے ہیں یہاں تک کہ اپنی عزت تک بیچنے کے لیئے تیار ہوجاتے ہیں۔ حتٰی کہ نشے کے لئے بندوق کے نوک پر جرائم میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔

2) ایسے بچے جو شدّت پسند اور جارحانہ طبیعت کے مالک ہو۔

3) وہ بچے جو کمزور شخصیت کے ہو، کسی مقابلہ کا سامنا کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہو، کمزور اور شرمیلے ہو وہ زندگی کے دباؤ سے بچنے کے لیے نشہ کا راستہ اختیار کرکے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

4) جن بچوں کے پاس کوئی فائدہ مند سرگرمی نہ ہو، یا ایسے مواقع نہ ہو جہاں وہ اپنی توانائی صرف کرسکے وہ راہِ فرار ڈھونڈھتے ہیں اور اُنہیں نشہ مل جاتا ہے۔

5) طلاق شدہ خاندانوں میں دھیان اور توجہ دینے والی عموماً ماں ہوتی ہے۔ جس کی کمزوری سے بچے فائدہ اُٹھاکر نشے کی جانب چلے جاتے ہیں۔

6) جیسا سنگ، ویسا رنگ۔ اِس کہاوت کی رو سے خراب حلقہ احباب کے چکر میں بچے اس لت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

7) گانے، فلمیں، ڈرامے یہ سب بچوں کی نشے کے طرف جانے میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں، یوں تباہی کے راستے پر وہ گامزن ہوجاتا ہے۔

سماج میں منشیات کا بڑھتا پھیلاؤ

روزانہ ہندوستان میں 10 اموات منشیات کے استعمال سے ہوتی ہے۔ اکنامک ٹائمز کے 22 جولائی 2016 کی خبر کے مطابق نیشنل کرائم رپورٹ بیورو (این سی آر بی) کے مہیا کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، تامل ناڈو اور کیرالا ریاستیں نشہ آور اشیاء کے استعمال میں سب سے اوپر ہے۔ 18 جولائی 2017 کے factly ویب سائٹ پر NCRB کی رپورٹ اشارہ کرتی ہے کہ 2010 تا 2015 کے درمیان تقریباً 23000 لوگوں کی منشیات کے باعث موت ہوئی، اور ان کے 40٪ (8943 افراد) کا تعلق مہاراشٹر سے تھا۔

  28 مارچ 2018 کے انڈیا ٹائمز کے مطابق صرف راجدھانی دہلی میں 90٪ تقریباً 46410 بچے ڈرگس کا شکار ہے جن میں 21770 تمباکو، 9450 الکوحل اور 840 ہیروئن کے عادی ہیں۔ دراصل ان نشیلی اشیاء کے مضر اثرات بہت خطرناک اور دیرپا ہوتے ہیں جو سنگین پیچیدگیوں اور بھیانک انجام کا راستہ کھول دیتے ہیں۔

1) سگریٹ:

دھواں صحت کے لیے کافی مضر ہے۔ نقصانات جاننے کے باوجود اسکا استعمال کرنا گویا فیشن بن گیا ہے۔ جس سے کینسر، پھیپھڑوں کی بیماریاں، دانتوں میں کمزوری، سانس اور پیٹ میں تکالیف، آنتوں کی بیماریاں، اندھاپن جیسی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔

  • 15 سے 20 سال کی عمر تک یہ شوقیہ، کسی کو متاثر کرنے یا بری صحبتوں کے سبب پی جاتی ہے۔
  • 20 سے 30 سال کی عمر تک ایک پختہ عادت بن جاتی ہے۔
  • 30 سے 40 سال میں یہ خون کی روانی کو متاثر کرتی ہے۔ پھیپھڑوں کو خراب کردیتی ہے۔ شوگر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
  • 40 سے 50 کی عمر تک دمّہ، سانس اور کھانسی کی مرض مستقل لاحق ہوجاتا ہے۔ اعصابی اور دماغی بیماریوں کے سبب جسم ناکارہ ہوجاتا ہے۔

2) تمباکو:

تمباکو کا استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نوجوان بھی اس میں پھنستے جارہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک میٹھا زہر ہے جو دھیرے دھیرے انسان کو اندر سے کھوکھلا کرتا ہے اور پھر اُسکی جان لے لیتا ہے۔ جس سے گلے، پیٹ، آنت اور منہ کا کینسر، گردوں، پھیپھڑوں اور خون سے متعلقہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

 30 مئی 2017 کے ٹائمز آف انڈیا کے شمارے کے مطابق تمباکو کے استعمال سے پوری دنیا میں تقریباً ہر سال 6 ملین افراد مرتے ہیں اور پوری تعداد کا چھٹا حصہ (1/6) بھارت کے افراد پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر بی کے شرما (ڈپٹی ڈائریکٹر، RST ریجنل کینسر ہسپتال) کہتے ہیں کہ ، "2030 تک یہ اعداد و شمار 8 ملین سے بھی زیادہ ہوگی۔” ہر تیسرا بالغ شخص (75۔2 کروڑ) کسی نہ کسی طور پر تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جس سے ہر 6 سیکنڈ میں ایک موت ہوتی ہے۔ بھارت میں تقریباً 42 فیصد مرد اور 3۔18 فیصد عورتیں منہ اور پھیپھڑوں کے کینسر سے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

3) شراب:

یہ نہ صرف جگر بلکہ دماغ پر بھی بہت اثر ڈالتی ہے۔ جو اس کے عادی ہوتے ہیں اُن کے دماغ میں 40 سے 360 فیصد ڈوپامین کا اثر بڑھ جاتا ہے، یوں وہ شراب کے عادی ہوجاتے ہیں۔

 29 ستمبر 2018 کے livemint کی خبر کے مطابق، WHO کی 2018 کی صحت رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان میں پچھلے گیارہ سالوں میں شراب کی کھپت دُگنا ہوگئی ہے۔ 2005 میں 4۔2 لیٹر جبکہ 2010 میں 3۔4 لیٹر جو بڑھ کر 2016 میں 7۔5 لیٹر ہوگئی۔ 2016 میں 3 ملین سے زائد افراد کی موت ہوئی جبکہ ہر ایک لاکھ افراد میں تقریباً 181 مرد اور 4۔126 عورتیں کینسر میں مبتلا ہیں۔

4) گانجا:

انڈیا ٹوڈے، 1 مارچ 2017 کا شمارہ یوں کہتا ہے، "نشیلی اشیاء کے معاملے میں بھارت کے زیادہ تر لوگ گانجا کا استعمال کرتے ہیں اور یہ غیر قانونی تجارت (اسمگلنگ) میں پہلے نمبر پر ہے۔” ریاست اڑیسہ میں سب سے زیادہ تقریباً 78273 کلوگرام اسمگلنگ ہوئی۔ مانگ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو 2014 اور 2015 میں بالترتیب 108300 اور 94403 کلوگرام مانگ تھی جو بڑھ کر 2016 میں 182622 تک تجاوز کرگئی۔

5) کوکین:

دی گارجین، 1 اکتوبر 2015 کے مطابق، "بھارت کوکین کی اسمگلنگ کا ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔ حکومت کی اطلاع کے مطابق 2011 سے 2013 کے درمیان اُسکی سپلائی پورے ملک میں 455 فیصد بڑھ گئی ہے۔” بمطابق انڈیا ٹوڈے، 3 اکتوبر 2016 ، نورکوٹس کنٹرول بیورو (NCB) رپورٹ کہتی ہے، "2015 میں اُسکی مقدار 670 فیصد بڑھی ہے۔ ریاستِ مہاراشٹر اُسکی قیادت کررہا تھا جہاں 71 کلو کوکین 426 کروڑ (6 کروڑ فی کلو کے حساب سے عالمی مارکیٹ) میں فروخت ہوئی۔ جبکہ ایک گرام 3000 سے 4000 کے درمیان اور کم سے کم قیمت پر 1200-1800 کے درمیان فروخت ہوا۔ پورے ملک میں اِس سال (2015 میں) تقریباً 122 کلو کوکین بیچی گئی۔ ریاست مہاراشٹر سے ٹرین، ہوائی جہاز، سڑکوں اور کورئیر کی ذریعے پورے ملک میں اسکی ترسیل ہوئی۔” اسی ویب سائٹ کے 15 جولائی 2017 کی خبر کچھ یوں ہے، NCB کے مطابق، "2016 میں صرف دہلی میں 30 کلو کوکین(210 کروڑ) میں فروخت ہوئی جسکی فی گرام قیمت 3000 سے بڑھ کر 5000 ہوگئی۔ اور اسکا استعمال 25 سے 30 سال کی عمر کے افراد میں تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔”

6) کرسٹل میتھ یا آئس:

یہ انسانوں کا بنایا ہوا خطرناک قسم کا نشہ جو برف یا شیشے کی طرح دکھائی دیتا ہے، جو بہت تیزی سے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہ خطرناک کیمیکل سے مل کر بنا ہوتا ہے جو مرکزی اعصابی نظام (Central Nervous System – CNS) کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ CNS چونکہ ایک اسٹیشن کا کردار ادا کرتا ہے اور جسمانی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں ڈوپامین نامی ایک نہایت انمول اور قیمتی نیورو ٹرانسمیٹر ہوتا ہے جو خوشیوں کا احساس دلاتا ہے۔ میتھ اسے براہِ راست نقصان پہنچادیتا ہے جس سے دماغ تباہ ہوجاتا ہے۔ کرسٹل میتھ دماغ کے خلیات کو مجبور کرتا ہے کہ وہ معمول سے تقریباً 100 سے 1000 گنا زیادہ ڈوپامین جاری کرے۔ جس سے جسمانی حرکات متاثر ہوتی ہے۔ وہ شخص صرف ایک کونے میں لیٹا رہنا چاہتا ہے۔ جیسے ہی نشے کا اثر ختم ہوتا ہے، ڈوپامین جاری نہیں ہوتے جس کے باعث اور ڈرگ کی چاہت ہوتی ہے اور وہ نہ ملنے پر سر میں شدید درد ہوتا ہے۔ 15 سال قبل صرف 3 فیصد لوگ اس کا استعمال کرتے تھے لیکن آج ان کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے جن میں اسکول و کالج کے بچے بھی شامل ہیں۔ آج تقریباً 40 فیصد لوگ اسکا استعمال کررہے ہیں۔ امتحان، نوکری یا گھر والوں کے دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لئے نوجوان اس نئے نشے کا سہارا لے رہے ہیں۔ میتھ کے ایک بار استعمال سے ہی لت کا خطرہ ہوتا ہے۔ 4-6 ہزار میں ایک کرسٹل میتھ دستیاب ہوتی ہے۔ یہ نوجوانوں کے پارٹی کلچر میں تیزی سے مقبول ہونے والی ڈرگ ہے، جسکے زیادہ تر صارفین 20 سال کی عمر کے بچے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے 31 دسمبر 2014 کے شمارے میں ماہرِ نفسیات ڈاکٹر یوسف ماچس والا کے مطابق، "صرف ممبئی میں 30000 نوجوان اس کے عادی ہے.”

7) ہیروئن:

نشہ کرنے والے لوگوں میں یہ پسندیدہ چیزوں میں سے ایک ہے، جو دماغ میں ڈوپامین کے اثر کو 200 گنا بڑھا دیتی ہے۔ 2014 میں 1370 اور 2015 میں 1416 کلو کے بعد 2016 میں اسکی مانگ 1600 کلو تک بڑھ گئی۔

8) نیند کی دوائیاں:

لوگ نیند نہ آنے کا علاج کروانے کے بجائے نیند کی گولیوں کا سہارا لیتے ہیں اور دھیرے دھیرے یہ لت بن جاتی ہے۔ اس سے دماغ کے کچھ حصّے اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ لمبے عرصے تک اسکا استعمال جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ سونے میں سانس کے متعلق بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات دل کے دورہ اور کینسر کے خطرات بالترتیب 50 گنا اور 35 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

 دراصل نشے کے عادی افراد، ‘ ہم دوبارہ یہ نہیں کریں گے ‘،  ‘ کچھ نہیں ہوگا ‘ ، ‘ جب چاہے چھوڑ دیں گے ‘، ‘ ایک مرتبہ کرنے میں کیا حرج ہے ‘، ان الفاظ کے ساتھ اِس دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور تباہی کے دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ علاج میں آنے کے بعد اُن سے یہ عادت چھڑوائی جاسکتی ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتے۔ اُنہیں کاؤنسلنگ اور باقاعدہ بہتر حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایسا نہیں کہ نشے کے عادی فرد کو مار مار کر اُسے یہ لت چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ یہاں والدین اور خاندان کا کردار اہم ہوتا ہے۔ چونکہ ایسے افراد کی عزتِ نفس اور قوتِ ارادی اُن کی اپنی نگاہ میں بہت کمزور ہوتی ہے، جس کے سبب اُن کا ذہن سدا لڑتا رہتا ہے اور نشہ چھوڑ نہیں پاتا۔ اُن میں اِس بات کا احساس جگایا جائے کہ

1) یہ جسم صرف ایک بار حاصل ہوا ہے جس کی بربادی کے بعد اُسے دوبارہ پانا ممکن نہیں۔

2) ان نشیلی اشیاء کے پیچھے ایک بڑا سرمایہ فضول کرنے کے جرم میں دنیا میں بدنامی کا داغ لگےگا اور بعد از مرگ اس کی پکڑ ہوگی۔

3) صحت کی نعمت اپنے ہاتھوں برباد کرنے کی پاداش میں روزِ محشر سخت مواخذہ ہوگا۔

4) دین میں ہر قسم کا نشہ، چاہے وہ تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ تعداد میں، یا اس میں کسی قدر فائدہ پوشیدہ ہو، بہرحال حرام ہے۔ "اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور فال کے تیر سب شیطان کے ناپاک کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ” (سورۃ المائدہ : 30)۔

5) نشے کی لت صرف نشہ خور اور خاندان کو ہی نہیں بلکہ آنے والے نسلوں کو بھی بدنامی، ذلّت اور بےعزتی کے جھنڈے تلے قتل کردیتی ہے۔

  آج ٹی وی، اشتہارات، انٹرنیٹ، فلموں، ڈراموں، ناولوں اور سیرئیل کے ذریعے نشیلی اشیاء کو خوشنما بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے کے مانند کہ نشہ پلاکر گرانا تو سب کو آتا ہے، ہر محاذ پر لوگوں کو نشے کا عادی بنانے کی کوششیں جاری ہے۔ نوجوانوں کے سامنے بار بار یہ چیزیں خوشیوں کے احساسات، ترقی، فیشن، جدیدیت، اسٹیٹس، رتبہ اور ماڈرنزم کے نام پر دکھائی جارہی ہے، اور وہ اُس دریا کی موجوں میں بہتے جارہے ہیں جس کا آخری سرا موت کے علاوہ کچھ نہیں۔ بحیثیتِ اُمتِ مسلمہ کے افراد ہونے کے ناطے ہماری اصل ذمےداری تو اس شعر کے مصرعے ثانی میں پنہاں ہے، ‘ مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی ‘، جب ہم نے نشے میں ڈوبے اُن افراد کو موت کے منہ میں جانے سے قبل بچالیا تو نہ صرف خیرِ اُمت کا لقب پانے کے حقدار قرار پائیں گے بلکہ سورۃ المائدہ کی آیت 32 کی روشنی میں کہ ، "جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی”، پوری انسانیت کو بچانے کا فریضہ بھی انجام دے سکیں گے۔ ضرورت انتھک کوشش، لگن، جدوجہد، محنت، ہمت اور توکّل علیٰ للہ کی ہے تو انشاء اللہ خوش آئند اور بہترین نتائج نظر آئے گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔