یوم اقبال تو آتا ہے اقبال نہیں آتا
الطاف جمیل شاہ
اقبال! وہ ہستی کہ جس نے اس جہان والوں کو خودی، امید، عروج، مشقت، وفا، محبت، توکل اور بہادری جیسی تمام تر صلاحیتیوں کو نا صرف قلم بند کیا بلکہ اس کو ایک ابھرتی ہوئی قوم کے دلوں میں پیوست بھی کیا
وہ انسانیت محبت اخوت ہمدردی کا درس دیتا رہا وہ انسانیت کو انسانیت کے وہ اسباق پڑھاتا رہا جس کی انسانیت محتاج ہے اقبال کو گر ہم سمجھنا چاہیں تو اس کے لئے لازم ہے کہ اس کے ایک ایک شعر کی تعبیر سوچنے کے لئے اسے پڑھنا ہوگا مسلسل پڑھنا ہوگا
میں نے یوں سمجھا
اقبال اپنے ایک عظیم انسان تھے وہ اپنے آس پاس سے بخوبی واقف تھے انقلابی تبدیلیاں اس کے ذہن کے سوتوں سے مسلسل ابھر رہی تھیں وہ بیباک انداز میں اپنی بات رکھنے کی پوری استعداد رکھتے تھے اپنے وطن سے بے انتہا محبت نے اقبال کی زبان سے گر یہ نغمہ محبت وا کیا کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا جس میں انہوں نے ہندوستان کے مکینوں یہاں کے خصوصیات کا تذکرہ کرکے اپنے وطن سے محبت کا اظہار کیا تو وہیں اپنے دین کی تابع داری کرتے ہوئے اور دین کے احکام کی صدائے حق کچھ یوں امت کے لئے بیان کی کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک کاشغر
اقبال جدید تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے دین اپنے اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ لگاؤ رکھتے تھے انہوں نے جب مغرب کی آندھیوں کا شکار ہوتے مسلم نوجوانوں کی دین بیزاری دیکھی تو گویا ہوئے
زمِستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھُوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحَرخیزی
یہ گرچہ اس تربیت کا نتیجہ تھا جو ان کے والدین نے کی تھی پر اندھیرے میں اپنے اصل سے جڑے رہنا بھی کسی شاہکار سے کم نہیں وہ اپنے ہم مشرب اسلام کے بیٹیوں سے کہنا چاہتے تھے کہ یہ جو ہلکی ہواؤں کے دوش پر تم بہک جاتے ہو یہ فریب ہے مجھ سے تو اللہ سے جو تعلق تھا اس تعلق میں لندن کی مخمور فضاؤں میں بھی کمی نہ آئی بلکہ میں ہر سحر اس حکم ربی کی اطاعت کرتا رہا جس میں رب العزت نے فرمایا ہے سورۃ نمبر 32 السجدة
آیت نمبر 16
ترجمہ:
ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
میں نے آہ سحرگاہی کو نہ چھوڑا بلکہ اپنا تعلق بنائے رکھا اور رب کبریا کی بارگاہ میں صدا بلند کرتا رہا یوں میں اندھیری فضاؤں کے آنچل میں رہ کر بھی رب کی بارگاہ میں حاضر ہی رہا تو کیا سبب ہے تم اس توفیق کی اور متوجہ نہیں ہوتے
اقبال نہ ہی سکہ بند درویش تھے اور نہ ہی بے دین بے زار جنٹل مین وہ رب کے حضور انکساری و عاجزی کا مجسمہ بنے رہتے تھے اور پکار لیتے اپنی سئیات کو دیکھ کر
جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں
وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ جب للاہیت سے دل خالی ہوں اور خوف امید کا تصور بھی نہ ہو تو خالی سر بسجود ہونے کا کیا فائدہ ایسے سجود سے تو زمین بھی کہتی ہے تیرے سجدوں میں جو لذت بندگی کی مٹھاس نہیں ہوتی پیدا تو کیا فائدہ تیرے ایسے سجدوں کا
اقبال کی آہ و بقاء کو جب آدمی پڑھتا ہے تو لگتا ہے یہ اللہ کا بندہ کس کرب سے جوج رہا ہوگا اسی لئے تو اس کی صدائے دل دلوں کو آج بھی مضطرب کردیتی ہے وہ در نبی کریم کا وہ فدوی ہے جس کی ایک ایک آہ قلب و جگر کو چھلنی کردیتی ہے اس کی نعت نبوی پڑھیں تو لگتا ہے کہ کوئی تھکا ماندہ مسافر اپنی مراد پاکر اپنی بے بسی اپنا رنج و غم اپنی جدائی کا کرب اور شوق دیدار کی تمنا بیان کچھ اس انداز سے کر رہا ہے کہ دیدۂ کوئی جاناں میں اپنے اعمال کو یاد کر کر کے بے بس سا ہو کر اپنی خطاؤں کی دلدل سے نکل کر دیار حبیب میں روتے بلکتے سسکتے ہوئے قدم رنجہ ہورہا ہے اور لرزاں و ترساں ہے اپنی سیاہ کاریوں پر ۔۔ پر شوق سفر کچھ اس قدر عزیز ہے لرزتے لرزتے دیار حبیب میں پہنچ ہی رہا ہے
اور درد و کرب کو کچھ یوں بیان کر رہا ہے سوچ رہا ہوں اس محبت عقیدت اور ان آنسوؤں کا کیا مول لگ سکتا ہے جو اقبال کی نگاہ سے بہتے ہوئے اس کے چہرے سے لرزتے لرزتے زمین پر بکھر گئے ہوں گئے
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
۔
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
۔
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
حق بھی یہی ہے کہ گر قدرت سہارا نہ دے تو واقعی محبین کے لئے یہ سفر آہوں اور آنسوؤں کا وہ سفر ہے کہ آدمی چاہ کر بھی نظر تک جہاں اٹھا نہ سکے اور جو جھکی ہے نظر تو جھکی ہی رہے ہم حب نبوی سے سرشار اقبال کی محبت و عقیدت کی تفھیم کیا کریں یہ لازوال داستان محبت و عقیدت ہے
کی محمّد ﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اپنی محبت اور تعلق کے باب میں اقبال کا مسلک و منہج وہی ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایفائے عہد ہی ضامن ہے کامیابی و کامرانی کا اور تعلق کی استواری کا یہ ایسا صالح مزاج کا صادق الوعد محب نبوی گزرا ہے ہمارے برصغیر میں جس کا اک اک نالہ اس کی محبت و عقیدت کی عکاسی کر رہا ہے۔۔
اقبال کی انقلابی شاعری کا خاص ہدف نوجوان نسل ہی ہے جسے شاہین کا خطاب دے کر شاہین کی صفات سے مزین دیکھنے کا متمنی ہے اسی لیے بار بار اسے شاہین کی صفات بتاتے رہتے ہیں اپنی شاعری میں اور مسلسل اسے جگانے کی سعی مشکور کر رہے ہیں
کبھی کہتے ہیں کہ
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
کبھی جوانوں کو شاہین کی پرواز کے لئے ترغیب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاہین صفت نوجوان اپنے ارادے نہیں بدلتے نہ تھکن کا شکوہ کرتے ہیں ہیں یہ کسی افتاد زمانہ کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ قوت پرواز سے خود کو مسلسل پرواز میں مصروف رکھتے ہیں اور کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گِرتا
پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ اُفتاد
کبھی ہواؤں کے تھپیڑوں سے گرتے ہوؤں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہتے ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
تو کبھی کہتے ہیں کہ تیرا کام تن آسانی نہیں بلکہ جہد مسلسل ہے عالیشان محلوں میں بسیرا کرنا تیرے عزم کی انتہا نہیں بلکہ پہاڑوں کا جگر چیر کر اپنا آشیانہ بنانا ہی تیرے عزم مصمم کا آغاز بھی ہے اور مقصود بھی ہے کامیابی و کامرانی کے سفر کے لئے
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
دوسری طرف اقبال اپنی قوم مسلم کے لئے بھی پریشان ہیں اور قوم و ملت کو جینے کے اسباق پڑھاتے ہیں اور قلب و روح کی تسکین کے لئے راہ پاکیزہ کی نشاندہی کرتے ہیں
تیرے دریا مین طوفان کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے
کہتے ہیں کہ ملت مسلم تجھ میں طوفان کیوں نہیں مطلب اسلامی تعلیمات و نظریات کے تئیں تجھ میں حمیت غیرت عزیمت کیوں نہیں تیرے اندر عزت نفس کا جذبہ کیوں نہیں اس جذبے سے خالی ہونے کے سبب ہی تو جہاں میں اپنی عزت و وقار سے محروم ہے
شجر ہے فرقہ آرائی , تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
تعصب تنگ نظری انسان کو کیسے برباد کر دیتی ہے یہ سمجھانے کے لئے اقبال سمجھا رہے ہیں ہم جو نہ سمجھے تو حال ہمارا بھی کوئی اچھا نہیں آپسی نفرتوں کدورتوں کی ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیواریں ہم نے کھڑی کر دی ہیں کہ نگاہ مسلم میں اب جہاں کے مسلم ہی جہنم کا ایندھن محسوس ہورہے ہیں اور سوائے خود کے کوئی مسلم دیکھائی نہیں دیتا
نوا پيرا ہو اے بلبل کہ ہو تيرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک ميں شاہيں کا جگر پيدا
اقبال اپنی نوا صدائے درد کے لئے کہہ رہے ہیں کہ کاش بلبل جگر چاک کی ان صداؤں سے کوئی کبوتر کی طرح نازک مزاج مسلم بیدار ہوجائے اور اس ندائے سحر سے اس کی خودی بیدار ہوکر اسے شاہین کا جگر دے جو شاید کام آجائے ورنہ یہ تن آسانی تو کافی ہے بربادیوں کے لئے
اقبال صرف عام لوگوں کو جگانے کی سعی نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ فقیہ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے علماء ربانین کو بھی جگانے کی سعی کر رہے ہیں وہ کئی انداز بدل بدل کر انہیں پکارتے رہتے ہیں کہ اٹھ جائے اور امت کی یہ ڈوبتی ہوئی کشتی کنارے لے آئے جیسے کہ کہتے ہیں
فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور
کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست
اقبال کے نزدیک زندگی جہد مسلسل کا نام ہے گر انسان جہد مسلسل سے گریزاں ہوجائے تو سمجھ لینا چاہئے یہ بیمار ذہنیت اور شکستہ دلی ہے مرد حر کبھی ایسے نہیں ہوتے
گریز کشمکش زندگی سے، مردوں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
اقبال کی تفھیم و تخریج کافی بلند ہے ان بلندیوں کو چھونا یا سجھنا کار دارد ہے پر ان کی نداؤں میں کمال یہ ہے کہ جو بھی اس باغ میں آتا ہے وہ چند موتی لے کر نکل جاتا ہے اور اپنے اپنے مزاج اور سوچ کے ساتھ وہ موتی بکھیر سکتا ہے یہ کوشش میں نے کی ہے ممکن ہے تفھیم ان اشعار کی میری طرح ناقص ہو پر جو اقبال شناسا ہیں ان سے کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اقبال پر صرف رسمی باتیں نہ ہوں بلکہ ان کا پیغام عام کیا جائے اور اس پر مسلسل کام ہو
جیسے کہ اقبال کے اس شعر کا پیغام ہے کہ جہد مسلسل کامیابی کی نوید ہے مجھے یہ ایک شعر اقبال کے کلام میں بے حد پسند ہے کئی بار علماء و دانشوروں سے سنا ہر بار دل کو چھو گیا یہ پیام ان کا
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
زندگی کیا ہے اک امتحان ہے جسے انسان اپنی چاہ کے مطابق بھی طے کرتا ہے اور نہ چاہ کر بھی پر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اک نہج دیتے ہیں زندگی کو اور خود کو ثابت کرتے ہیں یہ بہت ہی منفرد پیام کہ کہ جینا کیسا پسندیدہ ہے یہ طے ہوجائے تو کمال ہوگا
قلزم ہستی سے ابھرا ہے تو مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی
بس امتحان دیتے ہوئے ہوئے جو پل طے ہوجاتے ہیں وہ کٹھن ہوسکتے ہیں پر ناممکن نہیں کمال یہ نہیں کہ آپ تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں بلکہ کمال جہد مسلسل میں ہی ہے اور یہی پیام زندگی ہے ۔
اقبال کی انقلابی شاعری نے نہ صرف برصغیر کے مسمانوں میں ایک ولولہ پیدا کیا بلکہ ارد گرد کے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تقویت بخشی۔ اقبال شاید اپنے لئے ہی کہہ گئے تھے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”
یوں تو ہر سال 9 نومبر آتا ہے لیکن ہر سال اقبال نہیں آتا اب اس کے لئے ہزاروں سال منتظر رہنا پڑے گا۔ تب بھی ہم شاید تشنہ ہی رہیں فکر اقبال کو پڑھنا سمجھنا ایک بہتر انتخاب ہو نہ کہ اقبال کے انتظار میں وقت کے ساتھ جینے کا من بنا لینا ہواؤں کے دوش پر بہکنا فضول ہے دم ہے تو ہواؤں کی مخالف سمت پر چل دینا اس کے لئے جہاں مختلف راہنما اصول و ضوابط معاون ہوسکتے ہیں وہیں ہم اقبال کے پیام زندگی اور پیام فکر حر سے اسباق زندگی لے سکتے ہیں ورنہ اقبال کا انتظار کوئی فائدہ نہیں دے سکتا کہ ہم آہ بھر بھر کر کہیں کاش ایک اور اقبال پیدا ہوا ہوتا
کاش ہماری نوجوان نسل اس کا انتخاب کرتی اور اس کی تفھیم و تخریج سے خود کو جوڑ لیتی تو شاید نوید سحر نمودار ہونے میں دیر نہ ہوتی کاش اقبال کا وہ شاہین ہوش میں آکر قوم ملت کے کام آتا اور علم و آگہی کی مشعل سے مزین ہوکر اپنے اردگرد کے اندھیروں میں اجالا لانے کی سعی کرتا
فی امان اللہ
تبصرے بند ہیں۔