یوم جمہوریہ: ہم بھی یہیں کے ہیں
محمداکرم ظفیر
(مشرقی چمپارن)
ہمارا ملک پوری دنیا کے اندر اس بات کے لیے جانا جاتا ہے کہ یہاں مختلف مذہبوں کے ماننے والے لوگ آپسی اتحاد کے ساتھ رہ کر ملک کو ترقی یافتہ بنانے میں کلیدی رول ادا کررہے ہیں۔ متحدہ ھندوستان کے اندر کئی نسلوں، زبانوں، علاقوں، تہذیبوں کے لوگ رہتے ہیں جو دنیاکے کسی دوسرے ملک میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں۔ جب ہمارے ملک کے اوپر انگریزوں نے حکومت کے ذریعے ظلم و جبر کی ساری حدیں پاڑ کردیں تو اس وقت ملک کے تمام باشندوں نے ایک آواز ہوکر آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ مدارس اسلامیہ میں پڑھنے والے بچوں کو انگریزوں سے لوہا لینے کے لیے علمائے کرام نے جہاد کا فتوی دیا1857ء میں علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت انگریزوں کے خلاف تیار ہوئی جس نے اپنے قلم و قرطاس اور آواز کی طاقت سے لوگوں کے دلوں کے اندر جذبہ ایثاری پیدا کیا جس کے بعد ملک کے سبھی لوگوں نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آزادی کا نعرہ بلند کیا جس میں لاکھوں علمائے کرام شہید ہوگئے، ان میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا فضل الحق خیر آبادی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا ثناء اللہ امرستری، مولانا ابوالقاسم بنارسی، مولانا نعمان مئووی، مولانا نذید حسین محدث دہلوی، مولانامحمدعلی جوہر، شاہ اسماعیل شہید، ولی اللہ محدث دہلوی جیسے ہزاروں نام کے علاوہ صادق پور کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، تاریخ شاہد کہ جس طرح علمائے کرام اور مسلمانوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک باب ہے۔ مسلسل جدوجہد و قربانی کے بعد ہمارا ملک 15 اگست 1947 کو انگریزوں کے ظلم استبداد سے آزاد ہوا۔ مگر افسوس کہ عہدہ کی ہوس نے اس ملک کو ٹکڑوں میں کردیا جس کے بعد اسلامی جمہوریہ ملک کے نام پر پاکستان بنا اور کروڑوں ناسمجھ مسلمان ھندوستان کو چھوڑ کر چلے گئے۔
آزادی ملنے کی یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی جانے لگی کہ ہمارے ملک میں ایک ایسا قانون کو ترتیب دے کر قانون کی شکل میں نافذ کیا جائے جس سے کسی بھی طبقہ کو مایوسی نہ ہو، نہ لسانی اعتبار سے اور نہ علاقے کے اعتبار سے بلکہ سب کو یکسا حق حاصل ہو۔ ٹھیک بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29اگست 1946 کو آئین سازی کے لیے سات رکنی کمیٹی کی تشکیل دی گئی اور قانون مرتب کرنے میں دو سال گیارہ مہینہ اٹھارہ دن لگے۔ مختلف اجلاس میں اس قانون کے اوپر کھل کر بحث ہوئی اور پھر 26 جنوری 1950 کو ملک کے اندر نافذ ہوگی۔ جس میں اس بات کی پوری آزادی دی گئی کہ ملک میں رہنے والے سبھی مذہب کے لوگوں کو پوری آزادی ہوگی کہ وہ اپنے دھرم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں، کسی سے بھی ان کے جائز حقوق کو چھینا نہ جائے گا نہ کسی کے ساتھ زیادتی کی جائے گی بلکہ ہر کوئی کھلی فضا میں سانس لے کر ملک کو سبھی شعبہ میں ترقی یافتہ بنائیں گے۔
آج کا دن "یوم جمہوریہ”یقینی طور پر ہمارے ملک کے لیے انتہائی خوشی کا دن ہے۔ آج کے دن سبھی سرکاری وغیر سرکاری اداروں و دوسرے جگہوں پر پرچم کشائی کر خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ دن ہمارے لیے محاسبہ و غور و فکر کرنے کا دن ہے کہ آزادی کے اتنے لمبے وقت گزرنے کے بعد ہمارا ملک کہاں آکھڑا ہوا۔ دوسری بڑی آبادی کے حالات کیا ہیں ؟ملک کے قانون کے نفاذ ہوئے 69 سال ہوگئے تو کیا ملک کے اندر قانون کی بالادستی ہے یا پھر کچھ اور؟
جب اس بابت ہم سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ ملک میں قانون نافذ ہوئے لمبا عرصہ گزر گیا لیکن درحقیقت قانون کا راج نہ کے برابر ہے۔ اس جمہوری ملک کے اندر جب مسلمانوں نے اپنے آپ کو مسائل سے ابھارنے کے لیے جدوجہد کیا اس وقت ایک منظم سازش کے تحت فسادات کراکر کمر کو توڑ دیا گیا۔ گجرات، جمشیدپور، ملیالم، ہاشم پور، بھاگلپور، فاربس گنج، پٹنہ سمیت سینکڑوں جگہوں پر نوجوان مسلم لڑکیوں کی عصمت کو دن کے اجالے اور پولس کی موجودگی میں تار تار کیا گیا.قانون کی دھجیاں 06 دسمبر 1992 کو اڑائی گئیں اوربابری مسجدکوآئین کاقتل کرتے ہوئے شہیدکردیاگیا۔ جس کے بعد پھوٹے بھیانک فساد لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ وہ کون سا ظلم باقی رہ گیا ہے ملک کے مسلمانوں کے اوپر نہ ڈھایا گیا ہو، آج بھی ذکیہ جعفری انصاف کے لئے عدالت کی چوکھٹ کے باہر اپنی زندگی کی آخری سانس گن رہی ہیں۔ بہت ساری مائیں اوربہنیں اپنی رودادکولیئے آوازلگارہیں ہیں لیکن اس کاکوئی سننے والانہیں ہے، جمہوری ملک کے اندروکیل کواس طرح سے خوف میں مبتلاکردیاجاتاہے کہ وہ کسی کاکیس لینے سے قبل دس بارچوچتاہے۔
جمہوریت کے مندر میں حالیہ واقعات اورگزشتہ چند سالوں میں منفی ذہنیت کے ساتھ بنائے گئے قانون اور پارلیمنٹ میں لائے گئے بل شاید یہی بتانا چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کے سلسلہ میں دستور میں دی گئی۔ سہولیات کی اب گنجائش نہیں ہے اور اب قانون سازی کے اختیار کو ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ اقلیتوں کے لیے در پردہ مشکلات کھڑی کرنے کے لیے کوشیشیں ہورہی ہیں۔ آج جب کبھی کہیں پر کوئی بم دھماکہ ہوتا توبغیر تحقیق کیے اسے اسلام سے جوڑ کر دیکھا جانے لگتاہے۔ جن کے اباء و اجداد نے اس ملک کی آزادی کے لئے قربانی پیش کی اس سے محب وطن کی سند مانگی جا رہی ہے۔ اس سچائی سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں ایک ذہنیت کے لوگوں نے قانون کو بلائے طاق رکھ کر جس طرح چلتے پھرتے ہوئے نوجوانوں کو قتل کردینا روز کا معمول بن گیا ہے۔ جس کے پس پردہ سیاسی لیڈران ساتھ دیتے ہیں، ایسے میں قانون کی حکمرانی کیا معنی؟؟نہ اب تک بابری مسجد، گجرات سمیت ہزاروں فسادات کے ظالموں کو سزا ہوپائی۔ ملک کی اقلیتیں خوف کے سایے میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں جس طرح سے ملک بھرکے اندرایک جماعت نے مسلمانوں کوزدوکوب کرنے، ماب لینچگ کرکے موت کی نیندسُلانے کاکام کیاجارہاہے وہ بہت ہی خطرناک ہے۔ ہمیں اس وقت کوبھی نہیں بھلاناہوگاجب ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے چارجج نے دنیاکے سامنے آگرانصاف کے لئے آوازبلندکرنے لگے۔
ایسے موقع پر ہمیں بڑے ہی ذمہ داری کے ساتھ سنگھیوں اور اغیار کے رخساروں پر تاریخ کے ان سنہرے واقعات وحادثات اور مجاہدین آزادی کی خدمات جلیلہ کوبیان کرکے ان کے ذہن ودماغ کے دریچوں کو کھولیں اور انھیں بتائیں کہ یہ ملک جتنا تمہارا ہے اتنا ہی ہمارا بھی ہے۔ اس لئے ہمارے ساتھ ناانصافی نہ کیاجائے، ہمارے ساتھ سوتیلاپن نہ برتاجائے۔ کیونکہ ہم ہی اس ملک کے سچے اوروفادارسپاہی ہیں۔ ہم نے بھی لوٹایاہے چمن میں آسیااپنا۔
مضمون نگار سے رابطہ:7250130884

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔