محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے

ڈاکٹر فیاض احمد علیگ

محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے

حصار ذات سے باہر خرد مشکل سے آتی ہے

فضا میں چار سو بکھری ہوئی بارود کی بو ہے

ہوائے زندگی بھی کوچہ قاتل سے آتی ہے

وہی عشوہ وہی غمزہ وہی ابرو وہی خنجر

بتا اے زندگی تو آج کس محفل سے آتی ہے

سنائی کیوں نہیں دیتی کبھی جھنکار کے آگے

صدائے درد بھی آخر اسی پائل سے آتی ہے

شواہد سب مٹا ڈالے گریباں سے گواہی تک

لہو کی بو مگر پھر بھی ید قاتل سے آتی ہے

ھجوم یاس میں دل کی تسلی کو غنیمت ہے

ذرا سی روشنی جو پردہ محمل سے آتی ہے

بڑے حاتم سخی فیاض تھے کل جو زمانے میں

انھیں کے گھر میں اب روٹی بڑی مشکل سے آتی ہے

تبصرے بند ہیں۔